Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 14, 2019

مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کا رمضان۔۔۔۔۔۔۔۔ایک خصوصی ہیشکش۔


از/ محمد بن یوسف ندوی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
*رمضان مبارک کا مہینہ تمام مہینوں میں سب سے مقدس اور بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے رحمتوں کی بارش برستی ہے، مغفرت کے پروانے دۓ جاتے ہیں، جہنم کے شدید عذاب سے کتنوں کی رہائی ہوتی ہے، دعاؤں و مناجات پر قبولیت کی مہر ثبت ہوتی ہے، فضا اور ہوا میں ایک نور پھیل جاتا ہے، دل و دماغ کی تاریکیاں قرآن کریم کے انوارات سے چھٹ جاتی ہیں ،  بہیمیت کے انحطاط سے آدمی ملکیت کے عروج تک پہنچتا ہے، نفس و طبیعت شیطان و نفس کی چال و مکاری کے جال سے آزاد ہوکر تقوے کی فطرت میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کا  ربط گہرا  کلام اللہ سے ۔ اللہ کے کلام کا اس مہینے میں نزول سے اس ماہ مبارک کی عظمت میں چار چاند لگ جاتے  ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا سلف صالحین شدت سے انتظار کرتے اور اس کے ایک ایک پل کی قدر کرتے۔ اس کے دن کو کتاب اللہ کے انوارات سے منور کرتے اور اس کی راتوں میں سجدہ ریز ہوکر اللہ تعالی سے تعلق مضبوط کرتے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے لۓ دو ماہ قبل سے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم  مستعد ہوجاتے اور اپنی عبادت میں اضافہ فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے " اے اللہ ہمارے لۓ ماہ رجب و شعبان بابرکت بنادے اور  ماہ رمضان تک ہماری رسائی کردے" ۔ یہ وہ مہینہ ہے جو غریبوں کی غربت یاد دلاتی ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کا استحضار نصیب کرتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے  جس میں آدمی کے خمیر میں تقوے کی کیفیت راسخ و پیوست ہوجاتی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسان کی فطرت و طبیعت اللہ تعلی کے احکام اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی عادی بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں ایمان کامل نصیب ہوتا ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ  و السلام کا فرمان ہے" تم میں سے کسی کو کامل ایمان حاصل نہیں جب تک کہ اس کی خواہشات نفسانی( فطرت و طبیعت) ان چیزوں میں ڈھل نہ جاۓ جن کو میں لیکر آیا ہوں"۔ 

یہ وہ مہینہ ہے جس میں مجاہدہ کرنے اور مشقت اٹھانے سے گناہوں سے اجتناب کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے جس پر وعدۂ الہی ہے جنت کا۔ فرمان خداوند قدوس ہے" اور جو اپنے رب کے مقام سے ڈرا رہا اور خواہشات نفسانی کی اتباع نہ کی، تو جنت ہی ٹھکانہ ہے"۔  یہ ایک ایسا انقلابی مہینہ ہے جو سالوں کی عبادتوں، ریاضتوں اور مجاہدات کی تاثیر رکھتا ہے۔ ایسا انقلابی مہینہ جو دل ودماغ کی دنیا بدل ڈالتا ہے اور زندگی میں ایک جاذبیت اور کشش پیدا کردالتا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے  جس میں ایمان و اخلاص کے ساتھ دن کے روزوں اور رات کی شب بیداری سے زندگی کے ما سلف گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں زبان پر قابو اور شرمگاہ کی حفاظت کے عادی بن جانے سے ضمانت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوتی ہے۔ فرمان ہے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم کا " جو مجھے اپنی زبان و شرمگاہ کی ضمانت دے، میں اس کے لۓ جنت کا ضامن ہوں"۔ یہ وہ مہینہ جس میں روح ملا اعلی کی رفعت کو پرواز کرتی ہے اور فانی مٹی کا بنا ہوا جسم و بدن کو  مٹی کے خواہشات سے چھٹکارا حاصل کرواتی  ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کی راتیں منور ، جس کے دن رحمت و برکات سے معمور۔ یہ ایک معمولی مہینہ نہیں دوسرے مہینوں اور ایام کی طرح۔ یہ مہینۂ قرآنی ہے، یہ مہینۂ الہی ہے، یہ مہینۂ انقلابی ہے۔ یہ ماہ رحمت ہے، یہ ماہ مغفرت ہے۔  یہ صرف ایک مہینہ ہی نہیں بلکہ وہ عظیم و مقدس ماہ ہے جس میں " إقرأ" کا پیغام گونجا حراء کی پہاڑی سے بواسطۂ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی باز گشت سارے جہاں میں گونجی جس کے ذریعہ ایمان کی باد بہاری چلی اور کفر و شرک کی تاریکیاں چھٹیں ۔ یہ مہینہ مہینۂ انقلاب ہے!۔*
*چنانچہ محبوب و ہر دل عزیز استاد محترم حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی رح کا رمضان بھی ایک قابل تقلید، پر کشش،  کتابوں کے اوراق کی زینت بن جانے اور تاریخ میں ثبت ہو جانے والا رمضان تھا۔ سب سے زیادہ جو ان کی ذات سے  اس ماہ مبارک میں نمایاں ہوتا ، وہ ہے اللہ تعالی کے کلام سے بے پناہ عشق و محبت۔ قرآن کریم سے آپ کو خاص تعلق تھا اور وہ تعلق اس ماہ مبارک میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا تھا۔ اللہ کے کلام سے محبت ,  اللہ سے محبت کی علامت ہوتی ہے۔ حضرت مولانا کو صرف اللہ کے کلام سے محبت ہی نہیں بلکہ حد درجہِ عشق تھا اور  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور ان سے ملنے کے مشتاق رہتے تھے ۔ 

وقتا فوقتا اس  قابل رشک محبت کا اظہار بھی ہو جایا کرتا تھا خاص طور پر اپنی نجی مجلسوں میں۔ مولانا رح کے اندر اخفاۓ حال غالب تھا جیساکہ حال رہا ہے خانوادۂ علم اللہ حسنی کے تمام بزرگوں کا۔*
*چنانچہ حضرت مولانا رح کی بینائی زندگی کے آخری سالوں میں کمزور ہوچکی تھی جس کے نتیجہ میں وہ قرآن کریم پڑھنے یا کسی کتاب کے مطالعہ سے قاصر ہوچکے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام سے ایسی محبت تھی کہ سال بھر دوسروں سے سنتے رہتے۔۔ چنانچہ ایک ہے سننا اور ایک ہے پڑھنا۔ آج من حیث الامت ہماری حالت یہ ہوچکی ہے اور قرآن سے بے اعتنائی کا یہ عالم بن چکا ہے کہ ہم مشکل سے نصف پارہ پڑھ پاتے ہیں اور اکثر کی حالت تو یہ کہ قرآن صرف الماریوں کی زینت بنا ہوا ہے گھروں میں۔ اور پھر سننا، یہ تو اور دشوار ہے ۔ ہمے فرض نماز میں  پریشانی ہوتی ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح امام صاحب نماز کو مختصر کرکے جلدی ختم کردے۔ اور پھر تراویح، یہ تو اور مشکل جس کا نتیجہ یہ ہے کوئی تیز پڑھنے پر مصر اور کوئی آٹھ رکعات پڑھ کر چھٹی اور بہت سوں تو اپنے ہی گھر میں " ألم تر" پر قانع۔*
*حضرت مولانا کا قرآن سے عشق کا یہ عالم تھا کہ روزانہ ماہ رمضان میں آٹھ سے دس پارے خود پڑھتے نہیں بلکہ دوسروں سے سنتے اور ایک دن بھی اس میں ناغہ نہ ہوتا۔  معمول یہ تھا کہ دو پارے صبح فجر بعد سنتے، دو پارے گھر میں کسی سے سنتے، پھر ظہر بعد دو پارے سنتے اور پھر عصر بعد دو پارے سنتے۔ اسی طرح آٹھ ہو جاتے اور کبھی اس سے زیادہ ہو جاتے۔ کبھی تو یہ ہوا کہ ہم عصر بعد سنانے جارہے تھے اور کوئی اور آگیا، تو مولانا کے تواضع کا یہ عالم اور قرآن سے  محبت کا یہ منظر کہ  مسجد کے کسی کونہ میں دور دوسرے کمرے میں جہاں ہم بیٹھے ہوۓ ہوتے خود سننے کے لۓ آتے۔ یہ صرف ایک استاد نہیں بلکہ علم کا ایک سمندر ، ہزارہا علماء کے استاد، اپنے زمانہ کے فن کے ماہرین کی صف اول میں جن کا شمار ، انتہائی عالی نسب لیکن ان سب کے باوجود عجب کا تواضع، بے نفسی کی انتہا اور حیرت کی سادگی۔ ایک مرتبہ تو ہم نے جوش میں مولانا رح سے یہ کہدیا کہ "آپ کو تہجد کے وقت ہم قرآن سنائیں گے" ، تو شوق کے مارے  قرآن کے یہ عاشق عین تہجد  کے وقت پر آگۓ اور ہم نیند میں مگن، تو کسی نے ہمے اٹھایا کہ " مولانا واضح صاحب آۓ ہیں"، تو ہم حیران  اور مولانا بھی ہم پر خفا کہ "آپ نے کہا تھا کہ آپ سنائیں گے لیکن آپ تو ابھی سوۓ ہوۓ"۔ چنانچہ رمضان مبارک جس طرح سے مہینۂ قرآنی ہے، مولانا رح بھی عین قرآنی آدمی تھے۔ سب سے زیادہ لطف ان کو اس مہینے میں ملتا تھا۔ قرآن کا ذوق، پھر اس کے معانی اور بلاغت میں ڈوب جاتے، بھر پور لطف لیتے اور جہاں موقع ملتا ، قرآن سننے کے لۓ مستعد ہو جاتے۔ کبھی مولانا رح کو معلوم ہوتا کہ ہم  تہجد کے وقت  کچھ لوگوں کے ساتھ ملکر نماز پڑھانے والے ہیں، تو مولانا رح درمیانی رات میں نیند سے اٹھ کر وضو کرکے ساتھ میں آکر کھڑے ہو جاتے۔  یہ ایسا ہی آدمی کرسکتا جس کو قرآن سے بے حد محبت اور لگاؤ ہو۔  مولانا کوئی جوان نہیں بلکہ اس وقت 83 سال کے بوڑھے تھے۔ کبھی مولانا خود کسی کو درمیانی شب میں کھڑا کردیتے اور اس کے پیچھے قرآن سنتے۔ عجب محبت تھی قرآن سے!۔ ایک مرتبہ تو ہم نے دیکھا کہ تراویح ختم ہوئی ، کچھ ہی وقفہ گزرا تھا کہ ایک مولانا صاحب نے نماز شروع کی، تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا رابع صاحب مد ظلہ العالی اور  مولانا واضح صاحب رح دونوں بھی پیچھے کھڑے ہیں۔ جن کو قرآن سے محبت ہوتی ہے، ان کی زندگی کا رنگ، ان کی فکر، ان کا طرز و طریقہ اور ان کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ قرآن ہی ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا، قرآن ہی ہے جس نے صجابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر ایمانی جادو کرکے اپنے گھیرے  میں لے لیا۔ قرآن ایک معجزہ اور زندہ جاوید کتاب ہے۔ جس کے عجائبات کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ جب کسی کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے ، تو کبھی چھوڑتا نہیں۔ یہی حالت تھی حضرت مولانا واضح صاحب رح کی کہ قرآن پر گرویدہ تھے، اسی کے بن کر رہ گۓ تھے۔ جب حضرت مولانا رح  کا قیام  دہلی میں تھا، تو پوری پوری راتیں  مسلسل کھڑے ہوکر پندرہ سے بیس پارے سنتے جس کو دہلی میں شبینہ نماز کہا جاتا ہے۔ چنانچہ آخری رمضان مولانا رح کا جو گزرا، اس کا اکثر حصہ کچھ اعذار کی بنا پر دار العلوم ندوۃ العلماء میں گزرا۔ ندوے میں قیام کے دوران روزانہ رات کو مہمان خانہ ميں مولانا نذر الحفیظ صاحب کی امامت میں مولانا رح اور مولانا رح کے پوتے پیچھے کھڑے ہوتے۔  یہ نماز سارے  بارہ بجے شروع ہوتی اور ڈھائی بجے ختم ہوتی۔ یہ اللہ کا ولی، 85 سال کا بوڑھا!۔ مولانا رح کے پوتے فرماتے ہیں کہ "دو مرتبہ تو پیر میں مجھے اتنی تکلیف ہوئی کہ نماز توڑنی پری"۔*
*مولانا رح کو رمضان کی عظمت کا یہ احساس تھا کہ گھر میں کسی کو اگر اخبار پڑھتے ہوۓ دیکھ لیتے، تو خفا ہوجاتے۔ ان کے ایک عزیز پوتے فرماتے ہیں کہ  اگر میرے دادا مجھے اخبار پڑھتے ہوۓ دیکھتے، تو بہت ہی خفا ہوجاتے اور فرماتے کہ " رمضان میں بھی اخبار !! قرآن مجید کا مہینہ ہے، اوراد و وظائف کا یہ مہینہ ہے، خیرات کو حاصل کرنے کا یہ مہینہ ہے، لہذا اس میں اخبار کو دیکھو ہی مت ! اور اگر بہت شوق ہے اخبار میں سرخیاں پڑھنے کا یا خبر پڑھنے کا ، تو دو پارے قرآن یا جتنا معمول ہے پہلے اسے پڑھ کر اخبار دیکھو"۔ ان کے پوتے فرماتے ہیں کہ کبھی ہم کو دیکھ لیتے تو بہت خفا ہوکر فرماتے " تمہاری ہمت کیسے ہوئی اخبار اٹھانے کی !"۔  حضرت مولانا رح کے اندر غصّہ تو کوئی چیز نہیں تھی، زیادہ سے زیادہ ان کے لۓ خفا کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اپنے پوتوں سے بار بار پوچھتے کہ " کتنا قرآن مجید پڑھ لیتے ہو؟"۔*
*قرآن مجید کے علاوہ حضرت مولانا  کا دل مسجد میں اٹکا رہتا۔ ان سات لوگوں میں جن کو اللہ تعالی کے عرش کا سایہ قیامت کے دن نصیب ہوگا، ان ميں سے ایک وہ ہوگا جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو۔ اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ مولانا  کو بھی حشر و نشر کے دن سایۂ عرش خداوندی نصیب ہوگا۔ مولانا رح کی ہر نماز تکبیر  اولی سے ہوتی الا یہ کہ کوئی عذر ہو اور مسجد آنے کی گنجائش نہ ہو۔  اکثر نمازوں میں وقت سے کافی دیر پہلے آکر مسجد میں بیٹھ جاتے۔ اذان ہوتے ہی مسجد پہنچ جاتے اور بسا اوقات اذان سے پہلے ہی مسجد میں آکر بیٹھ جاتے۔ یہ معمول ویسے سال بھر ہی رہتا۔ مسجد سے عجیب محبت اور لگاؤ تھا۔ عمل تھا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث" جب تک نماز کسی کو روکے رکھے، تو نماز ہی میں شمار کیا جاتا ہے" پر.  ایک مرتبہ رمضان کے مہینے میں ہی ہمے ایک عجیب راز اور فراست کی بات بتائی کہ " مسجد میں جب کوئی نہ ہو، تب نماز پڑھا کرو۔ اکیلے ہونے کی حالت میں مسجد آدمی کو اپنے میں ڈھانپ لیتی ہے" ۔ اور فرماتے کہ" تکیہ کی "مسجد شاہ علم اللہ" میں ایک خاص کیفیت نصیب ہوتی ہے"۔  چنانچہ ہم نے اس کا تجربہ بھی کیا کہ مسجد کی  تنہائی میں نماز، دعا اور ذکر کرنا ایک عجیب کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جس کو رونا نہ آتا ہو، نماز میں دل نہ لگتا ہو وہ مسجد کی تنہائی میں اس کا تجربہ کرلے، انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا! ۔*
*چنانچہ رمضان میں عصر سے مغرب تک "مسجد شاہ علم اللہ" میں ہی بیٹھے رہتے۔ قرآن، تسبیح، مناجات، مراقبہ اور غور و فکر مسجد کے ایک خاص کونہ میں۔ آخری رمضان بھی جو گزرا ندوۃ العلماء میں، وہاں بھی مسجد میں یہی معمول رہا۔  آپ کے ایک عزیز پوتے فرماتے ہیں کہ " ہم مغرب کی اذان سے کچھ منٹ قبل ابا کو افطاری کے لۓ بلانے جاتے ، تو استغراق کی کیفیت طاری ہوتی، آنکھ میں آنسو ہوتے، مستی کی کیفیت ہوتی، عجیب کیفیت ہوتی"۔ ہم کہتے کہ" ابا افطاری ہونے والی ہے"، تو ہمے بالکل کوئی توجہ نہ دیتے اور  فرماتے " نہیں! نہیں! ابھی ہم اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہیں"۔*
*چنانچہ جب  تکیہ رائی بریلی میں معمول کے مطابق رمضان گزرتا، تو افطار بھی مسجد میں عوام الناس کے ساتھ ہی کرتے اور اس میں بہت ہی تھوڑا تناول فرمایا کرتے اور نماز کے لۓ تشریف لے جاتے۔ اور پھر مغرب اور تراویح کے بیچ کچھ نہ کھاتے۔ پھر رات کو تراویح کے بعد بھی تھوڑا ہی تناول فرماتے ۔ مولانا رح کی روحانی غذا مادی غذا سے زیادہ تھی۔  فرماتے کہ"کھانے سے تراویح میں کھڑے رہنے سے دشواری ہوتی ہے"۔  اور یہ بھی لکھنے کے لائق کہ مولانا رح پوری تراویح کھڑے ہوکر ہی پڑھتے اور یہی حال تھا ہر فرض نماز کا۔ آج ادھیڑ عمر کے لوگ اور نوجوان بھی تھکن کی وجہ سے مساجد میں تراویح میں بیٹھے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ حضرت اخیر تک ہر نماز اور ہر تراویح کھڑے ہوکر پڑھتے۔*
*ایک معمول رمضان میں جو گھر والوں کے علاوہ سب سے مخفی، وہ یہ تھا کہ غرباء کے لۓ گھر میں اپنے ذاتی خرچ سے کوئی اچھا کھانا پکواتے اور کافی مقدار میں سب کو بھیجتے۔ ان کا صدقہ، خدمت خلق،  وغیرہ سب میں اخفاء ہوتا تھا جیسا کہ حضرت مولانا  رابع صاحب مد ظلہ العالی نے بھی لکھا ہے  اور ویسے بھی ان کے ہر کام میں اخفاء ہوتا تھا کہ صرف اللہ تعالی پر نظر اور صرف اسی کو راضی کرنے کی فکر ۔ اگر ہم نے اخلاص تھوڑا بھی سیکھا ہے یا اس کی کیفیت کا احساس کہیں سے بھی ہوا ہے، تو یہی مبارک خاندان خوانوادۂ علم اللہ حسنی کے بزرگوں سے ۔ چاہے دنیا دیکھے یا نہ دیکھے، کام صرف اللہ کے لۓ کرنا ہے۔*
*چنانچہ ایک اہم  معمول ان کا رمضان میں جو تھا وہ ہے آخری عشرے کا اعتکاف۔ یہ ایسی اہم سنت ہے جو سنت متروکہ بن چکی ہے ,خاص طور پر خواص میں۔ آج خواص الناس میں بہت ہی کم ایسے ملیں گے جو اعتکاف کی پابندی کرتے ہوں۔ بلکہ ایسے کہا جاسکتا ہے کہ عوام کا خواص سے زیادہ اس پر عمل ہے جبکہ نبیئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا بہت ہی اہتمام فرماتے۔ اللہ ہی جانے کیا کیا اسرار اس میں پنہاں ہیں۔ واقعی اس سنت پر عمل بھی کافی مشکل ہے۔ ہم نے مسجد شاہ علم اللہ حسنی میں ہی دو اعتکاف کۓ تھے ، بڑے ہی فوائد محسوس ہوۓ تھے۔ چنانچہ مولانا رح نے بوڑھاپے کی عمر میں بھی اس سنت کو نہیں چھوڑا جبکہ ان کے لۓ اس عمر میں  اعذار کی بنا پر اعتکاف بڑا مشکل تھا۔ خاص طور پر آنکھ کی کمزوری کی وجہ سے کہ کبھی  اپنے چپل دھوندنا، کسی کے موجود نہ ہونے کی حالت میں استنجاء اور وضو کے لۓ جانا وغیرہ وغیرہ۔ ان کا معتکف مسجد میں صرف ایک معمولی سی چادر سے ڈھنکا ہوا ہوتا اور مسجد میں بھیر بھی بہت رہتی۔ مولانا رح کو بھیر سے بہت تشویش ہوتی تھی لیکن تب بھی اعتکاف کیا۔ اور ایک عجب کی بات اور ان کی انتہائی سادگی کی بات یہ تھی کہ اعتکاف  میں مولانا کسی پلنگ ، بستر یا مادریس  پر نہیں بلکہ ایک  پتلی سی کمبل پر مسجد کے فرش پر جو رکھی ہوئی ہوتی جو زمین پر سونے کے برابر تھی  اسی پر لیٹ جاتے۔*
*بہر حال جہاں حضرت مولانا رح کے معمولات تھے, ان کی ذات میں رمضان کی عظمت اور مسجد کے آداب کا احساس بھی بہت تھا۔ ہم  بے شمار بار بلکہ الحمد للہ روزانہ حضرت رح کے ساتھ مسجد میں پاس میں بیٹھنے کا موقع ملا لیکن ضرورت سے زائد گفتگو کبھی کرتے ہوۓ نہیں سنا۔ اکثر قرآن سنتے یا خاموش بیٹھے رہتے۔ ایک مرتبہ ماہ رمضان میں ہی مسجد میں بعد عصر کچھ حضرات بہت زور سے ذکر جہری میں مشغول تھے، تو حضرت مولانا رح کو لگا کہ لوگ بہت زور سے باتیں کر رہے ہیں۔ تو بہت خفا ہوۓ۔ ہم سے فرمایا کہ " جاکر ان سے کہو کہ شیخ کے یہاں جاتے ہیں، تو اتنی زور سے بات نہیں ہوتی۔ حضرت شیخ الحدیث  کے یہاں تو بات چیت بھی منع تھی"۔ تو ہم نے جاکر دیکھا تو لوگوں کو ذکر میں مشغول پایا اور واپس آکر مولانا سے اصل حقیقت کو واضح کیا۔*