Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 14, 2019

قند مکرر۔۔۔۔۔۔جذبوں کا شاعر " اطہر ضیاء۔

از / عبید طاہر/صدائے وقت/ نمائندہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطہر ضیا ؛ ایک شخص جو اپنے نام کی طرح پاکیزہ اور ضوبار ہے۔ ایک شاعر جس کی شاعری پر اس کے نام میں شامل اوصاف کی بھرپور چھاپ ہے، اسکا کلام زندگی اور محبت کی نوید ہے، وہ صرف سب کا بننا اور اپنا بنانا جانتا ہے ، اسکا وجود سود و زیاں سے بے نیاز خالص پیار سے عبارت ہے، وہ گرد وپیش کے کریہہ مناظر کو بھی مسکرا کر معصومیت سے دیکھتا ہے ، اُس نے خود کو وہاں آویزاں کیا ہے جہاں نفرت کی پہنچ ہے ہی نہیں۔ اس پاکیزہ اور ضوبار شاعر نے محبت کو چُنا اور اسی کا ہوکے رہ گیا :
-
مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے
میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں!
یہ جذبوں کا شاہکار ہے جس نے حسّی اظہار کے لیے شاعر کا روپ لیا ہے، جس نے احساس کی خوشبو اور فکر کی مہک کو دنیا والوں میں تقسیم کرنے کے لیے نظم کا سہارا لیا ہے ، یہی اطہر ضیا ہے :-
سوکھنے لگتا ہوں میں تجھ سے جدا ہوتے ہی
جب تلک ساتھ رہوں تیرے ، ہرا رہتا ہوں !
~~
جو میرے سینے میں اک دشت سا ہے پھیلا ہوا
ترے خیالوں کے اس میں ہرن اتار دوں کیا
اطہر اپنے زمانے کے جوانوں کا نمائندہ اور سنجیدہ شاعر ہے، وہ حالات کو سرسری نہیں دیکھتا بلکہ ٹہر کر دیکھتا اور سمجھتا بھی ہے ، وہ سیاہ صورت سچائیوں سے منہ موڑتا نہیں بلکہ ان کی آنکھوں میں اُتر کر انہیں روشنی بخشتا ہے اور اس عمل میں خود کو ہارنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا، وہ جس ماحول سے بھی گزرتا ہے اپنا رنگِ فطرت اور زاویۂ فکر چھوڑ جاتا ہے، اس کے قدموں کی دھول سے آگہی کی کہکشاں بنتی ہے....محبت کی داستاں بنتی ہےاور اسکا ریزہ ریزہ وجود رہروان شوق کے لیے منزل کا پتا بن جاتا ہے:-
کچھ اس طرح سے اڑی ہے مرے وجود کی گرد
کہ کہکشاں سی بناتا ہوا چلا گیا میں
فلک سے تا بہ زمیں پھر زمیں سے تا بہ فلک
غبار اپنا اڑاتا ہوا چلا گیا میں ۔۔۔
اس خوش رو اور خوش فکر شاعر کے یہاں قنوطیت اور بیچارگی کی کوئی جگہ نہیں ، یہ صرف امیدوں کا سوداگر ہے جو حیاتِ مستعار کو قدم قدم جینے کا حوصلہ دیتا ہے، اُسے شکست سے نفرت ہے، وہ جیت کا خوگر ہے لیکن جیتنے کے لیے وہ کسی کو ہراتا بھی نہیں ہے، کیا آگے بڑھنے کے لیے کسی کو گرانا لازم ہے؟ نہیں ناں!! اطہر کا پیغام بھی یہی ہے بلکہ وہ اپنی ذات تک تج دینے کو تیار ہے ، وہ تو کائنات کے سارے زخموں کو اپنے سینے میں جذب کرکے انسانیت کو غموں سے آزاد کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے :-
اب کہاں ڈھونڈنے جائے گا بیاباں اے دوست
آ مرے سینے سے لگ اور اتر جا مجھ میں
~
اپنی ذات کو تمثیل کرتے ہوئے دنیا کو اولوالعزمی کا سبق دیتا ہے، گر کر اُٹھنے کا ہُنر سکھاتا ہے اور حریف جاں کو پھر سے دعوتِ مبارزت دیتا ہے :-
کاٹ کر شاخیں مری تو خوش نہ ہو
دیکھ پھر مجھ کو ہرا ہوتا ہوا
اطہر ضیا کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ ہیں ، شبنمی احساسات بھی ہیں اور انتہائی تلخ معاشرتی اور تاریخی سچائیاں بھی، اسکا دائرۂ خطاب محبوب کے کوچے سے لیکر رزم گاہ حق و باطل تک ہے ، اس کی سوچ کی وسعتیں موجود و غیر موجود کو محیط ہیں ، وہ ایک موضوع کو کئی خانوں میں اور کئی مضامین کو ایک خانے میں سجانے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اس حیاتِ مختصر کا رونا نہیں روتا بلکہ اپنے وجود کو پورے شعور کے ساتھ جیتا ہے اور کہتا ہے کہ :-
ایک معمولی سا کردار ملا تھا مجھ کو
پھر بھی انجامِ کہانی پہ اثر ہے میرا
اطہر ضیا کی شاعری لفظی اور تعبیری تجربات سے لبریز مکمل شاعری ہے ، مضامین میں تنوع کے ساتھ ساتھ اسکا اظہاریہ بھی کسی ہفت اقلیم سے کم نہیں، وہ لفظوں کو برتنا اور ان سے کام کی بات کہلوانا بھی بخوبی جانتا ہے، اسکا شعری آہنگ بہت دلنواز اور من موہک ہے جو قاری اور سامع کو حیرتوں کے سمندر میں اتار دیتا ہے ، اس مجموعے میں جابجا آپکو ایسے موتی نُما اشعار ملیں گے جو آپکے ذہن و دل کو خیرہ کر دیں گے، یہ محض عطائے یزدانی ہے کہ چھوٹی سی عمر میں اطہر فن کے کمال کو پہنچ گیا ہے ۔ ان اشعار کو پڑھیے اور میرے ساتھ دیدہ و دل شاعر کو تحفے میں دیجیے :-
سانس لینے کے لیے تھوڑا ٹھہر جائیں کہیں
اتنی رفتار سے چلنے میں نہ مر جائیں کہیں
چاک پر رکھ کے ہمیں بھول گیا ہے کوئی
شکل ملنے سے ہی پہلے نہ بکھر جائیں کہیں۔
~~~
میں ہوں السائی ہوئی صبح کا منظر اطہر
اور کسی نرگسِ بیمار میں کھولا گیا ہوں
~~~
خود اپنے آپ سے آگے کہیں نکل آیا
میں اب کے بار چلا اس قدر روانی سے
اطہر بنیادی طور پر جذبوں کا شاعر ہے ، خلوت و جلوت کی باتیں کرتا ہے اور جب بات محبوب کی کرتا ہے تو لفظوں میں روح اور شعروں میں خوشبو  اتر آتی ہے ، ایسا ساز چھیڑتا ہے کہ قاری ہو یا سامع وجد میں آ جاتا ہے، اس کے کلام میں محبت کے تمام حوالے اور ہجر و وصال کے تمام سلیقہ بند نظر آتے ہیں :-
میں ادھورا سا ہوں اس کے اندر
اور وہ شخص مکمل مجھ میں
~~~~
جو ایک بوجھ تھا دل پہ وہ ہم اتار آئے
گلی میں اس کی گئے اور اسے پکار آئے
~~~~
کر کے دنیا سے ہر اک مسئلہ صاف آگیا ہوں
کعبۂ عشق ترا کرنے طواف آگیا ہوں۔
~~~
میں سرد راتوں کا ٹھٹھرا ہوا بدن اطہر
یہ کس کی دھوپ مری روح میں اتر رہی ہے
اطہر کی شاعری میں موہوم کرب ہے، ایک ایسا درد جو اسکو بے چین کیے رکھتا ہے، ایک ایسی کسک جو تھمتی ہی نہیں، ایک ایسی شکایت جو زمانے سے ہے، ایک ایسا دُکھڑا جو اپنوں کا ہے لیکن یہ دُکھ اسکو رلاتا نہیں بلکہ مہمیز کرتا ہے ، آپ اس کے ساتھ اداس تو ہوجائیں گے لیکن شاید اداسی کا سبب معلوم نہ کرسکیں :-
بس دھول ہی اڑتی ہوئی گلیوں میں ملے گی
وہ شہر جو مجھ میں تھا وہ آباد نہیں ہے
~~~~
وقت نے پیٹے سبھی مہرے مرے
چل نہ پایا کوئی اچھی چال ، میں
~~~~
ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ہنسنے کا بہانہ کوئی
زیر تجھ سے کبھی ہم گردشِ دوراں ہوئے ہیں؟
~~~~
سارے گرداب وہیں پر نکلے
جس کو کہتے تھے کنارا ہے میاں
اطہر ضیا جتنا اچھا شاعر ہے اس سے زیادہ پیارا انسان ہے ، خوش شکل، خوش لباس، نرم خُو، پست آواز، ملنسار، نہ ماتھے پہ تیوری نہ چہرے پہ سلوٹ، متین اور سنجیدہ، زندہ دلی اور دلدار، آنکھوں میں زندگی کی چمک ، ہونٹوں پہ سب کے لیے دعا، مُخلص شوہر، شفیق باپ، صلح پسند اور محبت ریز شخص جس کو دیکھ کر صرف پیار آتا ہے۔ اس کے کئی شعر الہامی سے لگتے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے مسافر جلدی میں ہے اور تھوڑے سے وقت میں اس کو بہت کام کرنے ہیں :-
خود کو لٹا رہوں ہوں یہی سوچ کر ابھی
پھر اس کے بعد خود کو میسر نہ آؤں گا
~~~
ابھی تو روح کو سیراب کرنا باقی تھا
ابھی تو ٹھیک سے لب بھی نہیں تھے بھیگے مرے
~~~~
کب تک دیکھوں میں تعبیروں کا رستہ
اے خوابو! جاؤ خالی کر دو آنکھیں !
~~~~
ہمارے شہر میں وہ حادثہ بھی ہونا ہے
الگ الگ نہیں ، جب سب کو مل کے رونا ہے
~~~~
مسافر جا چکا لمبے سفر پر...
ابھی تک دھوپ آنکھیں مل رہی ہے
عبید طاہر
سینئر پروڈیوسر اناؤنسر
اردو ریڈیو ۔ دوحہ
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
نوٹ: اطہر ضیا بھرپور جوانی میں بارہ مئی ۲۰۱۸ کو یہ دنیا چھوڑ گیا۔۔ اسکا یہ مجموعہ اسکے زندگی کے آخری دنوں میں بھائی عزیز نبیل کی کوششوں سے منظر عام پر آگیا تھا۔۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اسکی ننھی بچیوں کا مستقبل سنہرا لکھدے۔ آمین