Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 21, 2019

صدقہ فطر نکانے میں اپنی حیثیت کو ضرور دیکھیں !!


از/ ســراج اکــرم ہاشمــی / صدائے وقت
      . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
     روزے کا سب سے بڑا معنوی مقصد تقوی کا حصول ہے، اور تقوی انسان کی اس قلبی کیفیت کا نام ہے جو ہرقسم کی نیکیوں کی محرک اور برائیوں کے لیے مانع ہے،اس کیفیت میں حرکت وروانی اور جوش پیدا کرنے میں جہاں خالص عبادات ربانی کو بڑا دخل ہے،وہیں غریبوں،مسکینوں اورلاچاروں کی اعانت و نصرت بھی اس میں ایک مؤثر اور اہم رول ادا کرتی ہے،اس لیے اسلام نے اپنے عباداتی نظام کو بھی بڑی حدتک یتیموں،بیواؤں،کمزوروں اور محتاجوں کی امداد وتعاون سے وابستہ کردیا ہے،چناں چہ روزے کی تکمیل پر صدقۂ فطر کو واجب کیا گیا،اس کے وجوب کا مقصد روزے کی لغو اور فحش گوئی سے طہارت وپاکیزگی کے ساتھ مسکینوں کی اعانت و 
صدقہ فطر نکالتے ہوئے اپنی حیثیت ضرور دیکھیں

نصرت بھی ہےـ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح روایت ہے کہ "فرض رسول الله صلي الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرةًللصائم من اللغو والرفث،وطعمةً للمساكين،من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات".[أبو داود: 1609]
  "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو اس لیے واجب قرار دیا؛تاکہ روزے دار کا روزہ فضول اور فحش باتوں سے پاک ہو جائے اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے دن اچھا )کھانا میسر آجائے،جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا تو یہ ایک مقبول صدقہ ہے ـ اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ ایک عام صدقہ ہے"
۔
    مقام مسرت ہے کہ صدقۂ فطر امت کی اکثریت ضرور نکالتی ہے،البتہ اس میں غریبوں کے فائدے پر نظر کم اور عرفی رسم و رواج پر نظر زیادہ ہوتی ہےـ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ایک شخص کی لاکھوں زکات نکلتی ہے اور وہ ماشاء اللہ اسے بخوشی اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی خاطر ادا بھی کرتاہے،زکات کے علاوہ دیگر خیر خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے؛لیکن جب صدقۂ فطر کی باری آتی ہے تو اس کابھی ذہن پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت ہی کی طرف منتقل ہو تاہے؛ کیوں کہ رواج اسی کا ہے،حالاں کہ حضرات علمائے کرام اور فقہائے امت نے عام لوگوں کی سہولت کی خاطر گندم کورواج دیا تھا تحدید مقصود نہیں تھی،پر بدقسمتی سے عوام کے ذہنوں سے آج یہ تصور ہی ختم ہو گیا ہے اور وہ یہ جانتے اور سمجھتے بھی نہیں کہ *"گندم کے علاوہ دیگر چیزوں سےبھی صدقۂ فطر کی ادائیگی جائز؛ بلکہ بہتر اور افضل ہے" ـ* اس لیے موجودہ حالات میں غریبوں کے فائدے کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ "گندم کے ساتھ صدقۂ فطر میں جو دوسری چیزیں منصوص (قرآن وحدیث سے ثابت) ہیں ان کا بھی تذکرہ خوب اور ضرور کیا جائے اور یہ ترغیب دی جائے کہ *"صدقۂ فطرہرشخص اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر نکالے،اس سلسلے میں کسی دارالقضا کے فیصلے یا دارالافتا کے فتوے کا انتظار نہ کرے"* ـ
  صدقۂ فطر میں یہ پانچ چیزیں منصوص ہیں:
*(1)گندم(2)جو(3)کھجور(4)کشمش(5)پنیر ـ*{ابوداود: 1616}
  گندم کا وزن پونے دو کلو اور بقیہ چیزوں کے اوزان ساڑھے تین کلو ہیں ـ یا تو یہی اشیا نکالی جائیں یا ان کی قیمتیں ـ اورآج کل کے عمومی حالات میں قیمت ہی بہتر ہے ۔
   ہم میں ہر شخص کوصدقۂ فطر نکالتے وقت کسی دارالقضاکی جانب دیکھنے کے بجائے خود غور کرنا چاہیے کہ ہماری حیثیت کس چیز سے صدقۂ فطر نکالنے کی ہے؟اگر اللہ تعالی نے ہمیں کشمش سے صدقہ نکالنے کی استطاعت بخشی ہے اور ہم نے کھجور کے ذریعے نکالا،یاکھجور کی طاقت دی ہے اور ہم نے گندم یا جو کے ذریعے نکالا، تو علمائے دین اور مفتیان کرام تو یہی فتوی دیں گےکہ تمھارا صدقۂ فطر ادا ہو گیا؛لیکن اللہ کے رجسٹر میں ہمارا شمارشاید نہ نکالنے والوں کی فہرست میں ہو؛کیوں کہ ہم نے صدقۂ فطر کو طہارت وپاکیزگی اور محتاجوں کی اعانت و نصرت کا ذریعہ نہیں بنایا جو اصل مقصود ہے؛بلکہ صرف ظاہراً ایک بوجھ اتارنے کی کوشش کی جو شریعت کی منشا کے خلاف ہے ـ
  خلاصۂ کلام یہ ہے کہ صدقۂ فطر اگر اپنی حیثیت کے مطابق نکالا جائے تو قبولیت کےزیادہ  امکانات ہیں، اور یہی تقوی کے زیادہ قریب ہے ـ
    اللہ تعالی ہمارے دلوں میں غریبوں کی محبت وہم دردی پیدا فرمائے،ان کی ہرممکن معاونت کی توفیق ارزانی کرے، اور صدقۂ فطر کو ہمارے لیے تزکیہ وتطہیر کا ذریعہ بنائے، آمین۔