Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 21, 2019

شذرات " معارف" ایک چشم کشا تحریر۔

معارف اپریل 2019 - شذرات/ تحریر پرفیسر اشتیاق احمد ظلی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . .
پروفیسر اشتیاق احمد ظلی
.
. . . . . . . . . . . . 
نیوزی لینڈ دنیا کے آخری سرے پر شمالی مغربی اوقیانوس میں جزائر کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے۔ بڑے جزائر تو صرف دو ہیں، شمالی اور مغربی جزیرے لیکن چھوٹے جزائر بہت ہیں۔ اس کا قریب ترین پڑوسی آسٹریلیا بھی اس سے دو ہزار کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ کرہ ارض پر سب سے بعد میں آباد ہونے والا خطہ یہی ہے۔ اس کا سبب دوسرے آباد خطوں سے اس کی غیر معمولی دوری رہی ہے۔ سب سے پہلے یہاں انسانوں کے قدم تیرہویں صدی عیسوی میں پہنچے جب مشرقی یولینیشین یہاں آباد ہوئے۔ ان کی اولاد اب بھی یہاں موجود ہے اور یہ لوگ ماوری (Maori) کے نام سے جانے جاتے ہیں اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ماوری زبان بھی یہاں بولی جاتی ہے۔ ولندیزی مہم جو آبیل تسمان پہلا یوروپین تھا جس نے ۱۶۴۲ میں اس خطہ ارض کو دریافت کیا اور اس طرح یہاں یوروپین آباد کاروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشہور انگریز سیاح کیپٹن کک ۱۷۶۹ میں یہاں پہنچا۔ ۱۸۴۶ میں یہ خطہ برٹش تسلط کے زیر اثر آگیا۔ ۱۹۴۷ میں اسے آزادی ملی اور اب وہ ایک پارلیمانی جمہوریت اور کامن ویلتھ کا رکن ہے۔ یہاں کی کل آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے اور اس کی غالب اکثریت یوروپین اصل کے سفید فام لوگوں پر مشتمل ہے جو عیسائی عقیدہ کے حامل ہیں۔ مسلمان کل آبادی کا بہ مشکل ایک فی صد ہیں۔ دارالسلطنت ولنگٹن ہے۔ سب سے بڑا شہر آک لینڈ ہے۔ دوسرے اہم شہروں میں کرائسٹ چرچ اور ہملٹن وغیرہ شامل ہیں۔ معیار زندگی، تعلیم، صحت، معاشی آزادی اورحقوق انسانی کے احترام جیسے کلیدی شعبوں میں اس کی کارکردگی کا معیار بہت بلند ہے۔ فن لینڈ کےبعد یہ دنیا کا سب سے زیادہ پُرامن ملک مانا جاتا ہے۔ چند سال پہلے جب جارج واشنگٹن یونیورسٹی، امریکہ کے پروفیسر سید حسن عسکری نے ۲۰۸ ممالک کا یہ معلوم کرنے کے لیے سروے کیا تھا کہ ان ممالک میں روزمرہ کی زندگی میں بنیادی اسلامی اقدار پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے تو اس سروے میں نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر رہا تھا۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک اس دوڑ میں بہت پیچھے تھے۔ ایک ایسے پُرامن ملک میں جہاں جرائم کی شرح صفر ہے جب ۱۵؍ مارچ کو کرائسٹ چرچ کی دو مساجد، مسجدالنور اور لن وڈ مسجد ایک سفید عیسائی نسل پرست کے دہشت گردانہ حملہ کا نشانہ بنیں جس میں ۵۰ مسلمان شہید اور قریب اتنے ہی شدید زخمی ہوئے تو فطری طور پر حیرت اور صدمہ دونوں زیادہ ہوا۔
دنیا کے نقشہ پر نیو زیلینڈ
 
---------------------------------------------------------
مشرق وسطیٰ اور دوسرے مسلم ممالک سے مغربی ممالک کی طرف مہاجرت کا سلسلہ بہت دنوں سے جاری رہا ہے۔ پہلے لوگ ایک بہتر زندگی کی تلاش میں مغربی دنیا کا رخ کرتے تھے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں عراق، لیبیا، شام اور افغانستان جیسے علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے پناہ گزین کی حیثیت سے ان علاقوں کی طرف جاتے رہے ہیں۔ یہ پناہ گزین جن سنگین مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ان کے ذکر کا یہاں موقع نہیں۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ان میں سے بہت سے مظلوموں کو مغربی ممالک میں پناہ مل جاتی ہے۔ لیکن مغربی معاشرہ کے وسیع حلقوں میں اس صورت حال کے خلاف بہت سخت رد عمل بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں سفید فام قوم پرستی اور سفید فام قوموں کے نسلی تفوق اور برتری کے نظریہ کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم میں غیرمعمولی حد تک تیزی آگئی اور ان کو حملہ آور کے طور پر پیش کیا جانے لگا جن کا وجود مغربی اقدار کے لیے سنگین خطرہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس موہوم خطرہ کی روک تھام کے لیے مسلم دشمنی پر مبنی بہت سی تحریکات وجود میں آگئیں۔ نائن الیون کے حادثہ اور القاعدہ جیسی تنظیموں کے ظہور نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پوری مغربی دنیا اسلام دشمنی کی ایک تیز اور تند لہر کی زد میں آگئی۔ اسی ضمن میں ایوروبیا (Eurobia) کا تصور سامنے آیا جو اس نام نہاد خطرہ کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس طرح جو عمل شروع ہوا ہے وہ یوروپ کے اسلامائی زیشن اور اربی سائی زیشن پر منتج ہوگا اور اس طرح یہ خطہ یوروپ کے بجائے ایوروبیا کی شکل اختیار کرلے گا جہاں اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ فرانس کے انتہاپسند مصنف ریناڈ کیمس (Renaud Camus) نے اپنی کتاب Le grand Replacement میں تبادل آبادی کا نظریہ پیش کیا۔ اس کے مطابق اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو پناہ گزین یوروپ پر قابض ہوجائیں گے اور یہاں کے اصل باشندے اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت ایک مرض کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ چنانچہ یوروپ اور امریکہ میں سفید فام نسلوں کی برتری پر یقین رکھنے والی بے شمار تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ وہ اگرچہ ہر نسل اور ہر قوم کے پناہ گزینوں کے خلاف ہیں لیکن ان کا اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ ہٹنگنٹن کے تہذیبوں کے ٹکراؤ کے نظریہ نے بھی مغربی معاشروں میں اسلام دشمنی کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مغربی ممالک میں اسلام دشمنی (اسلامو فوبیا) نے ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کرلی ہے اور وہاں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ لاعلمی، غلط فہمی، افواہ، جھوٹا پروپگنڈہ اور ماضی خصوصاً صلیبی عہد سے وراثت میں ملنے والے تعصبات کے مرکب سے وہ زہریلا مادہ پیدا ہوا ہے جو اس مرض کا باعث ہے جو اسلاموفوبیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری فوبیا کی تعریف اس طرح کرتی ہے: ’’ذہن کی مریضانہ کیفیت جو کسی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے‘‘۔ یہ بیماری مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔

 کسی کو بلندی سے خوف آتا ہے تو کسی کو پانی سے یا کسی اور چیز سے۔ آج مغربی دنیا کو اسلام کا خوف دامن گیر ہے اور اس خوف کے بطن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
---------------------------------------------------------
ٹارنٹ برنٹن انہی منفی عوامل کی پیداوار اور اسی بیماری کا شکار ہے۔ اس مریضانہ ذہنیت کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے اپنے ہفوات کو اس نے ۷۳ صفحات پر پھیلے ہوئے ایک مینی فیسٹو میں ریکارڈ کیا تھا اور حملہ سے نو منٹ پہلے وزیر اعظم سمیت بہت سی اہم شخصیات کو میل کیا تھا گو اس میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ یہ حملہ کب اور کہاں ہوگا۔ کیمس کے نظریات سے اس کی تاثر پذیری اس بات سے ظاہر ہے کہ اس نے اپنے نام نہاد مینی فیسٹو کا نام بھی بعینہٖ وہی رکھا ہے جو کیمس کی کتاب کا ہے یعنی The Great Replacement۔ اس نے ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اسے شیر بھی کیا۔ اس کے علاوہ حملہ کے وقت اس نے اپنی پیشانی پر ایک کیمرہ لگا رکھا تھا جس کے وسیلہ سے اس المناک حملہ کی تفصیلات کو وہ براہ راست نشر بھی کرتا رہا۔ اس مینی فیسٹو سے جو معلومات دستیاب ہوسکی ہیں ان سے واضح ہے کہ یہ اسلاموفوبیا کا ایک کلاسک کیس ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس وقت غیر یوروپی اقوام خاص طور سے مسلمان یوروپ پر حملہ آور ہیں۔ اگر یہ سلسلہ موثر طور پر روکا نہ گیا تو کچھ ہی دنوں میں ان کو اکثریت حاصل ہوجائے گی اور یوروپ پر مسلمانوں کا تسلط قائم ہوجائے گا۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان کو وہیں واپس بھیج دیا جائے جہاں سے وہ آئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نازی نہیں کہتا لیکن نو نازی علامتوں کو اس نے استعمال کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نسلی برتری پر مبنی قوم پرستی کے علم بردار کے طور پر پیش کرتا ہے (ethno-nationalist)۔ وہ اپنے آپ کو Kebab removalist بھی کہتا ہے۔ کباب ریمو وہ تحریک تھی جو بوسنیا میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے لیے کوشاں تھی۔ اس کا مقصد بوسنیا سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کردینا تھا۔ Remove Kebab کی تحریک خاص طور سے ان سربیائی فوجوں میں بہت مقبول تھی جو بوسنیا سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے لیے روڈوان کارڈ زک کی قیادت میں برسر پیکار تھے۔ ان کے نغمہ کے دو مصرعے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں، اس سے اس تحریک کی نوعیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
God is Serb and He will Protect us Kardzik lead your Serbs
یہ وہی کارڈزک ہے جس کو مارچ ۲۰۱۶ میں عالمی عدالت انصاف نے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ اہم بات یہ ہے کہ کئی سال پر محیط اس مقدمہ کی سماعت اور فیصلہ سنانے کے دوران کسی بھی وقت اس کے چہرے بشرے سے اپنے کرتوتوں پر کسی ندامت یا شرمساری کا اظہار نہیں ہوا بلکہ اپنے ’’کارناموں‘‘ پر اسے فخر ہی رہا۔
---------------------------------------------------------
ٹارنٹ نے اپنی بندوق کے دستہ پر بہت سے سنین اور تاریخی واقعات کے متعلق اشارے بھی لکھ رکھے تھے۔ ان سب کا تعلق ماضی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشمکش اور جنگوں سے ہے۔ اس نے یوروپ میں دولت عثمانیہ کے نفوذ اور تسلط سے وابستہ واقعات کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اس کے خیال میں گذشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کے ہاتھوں عیسائیت کو جو زک پہنچی ہے اس کا انتقام لیا جانا چاہیے۔ وہ عیسائی عظمت کی علامت قسطنطنیہ (استانبول) کی بازیافت کی بات کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جن سے وہ متاثر ہوا ہے۔ اس فہرست میں ایک نمایاں نام اسلام دشمن Andre Behring Breivik کا ہے جس سے تاثر پذیری کا اس نے خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ دور حاضر میں جن لیڈروں سے وہ متاثر ہوا ہے، ان میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نام سرفہرست ہے۔
---------------------------------------------------------
نیوزی لینڈ میں مسلمان آبادی کا تناسب ایک فیصد سے زیادہ نہیں۔ چنانچہ یہاں مستقبل بعید میں بھی تبادل آبادی کا کوئی خطرہ تھا نہ اندیشہ۔ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ پُرامن ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ یہ سفید فام عیسائی اکثریت کا ملک ہے چنانچہ یہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مسلمانوں کے سلسلہ میں منفی جذبات رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جاری پروپگنڈہ سے متاثر ہیں۔ سحر غم خور ایک افغان جرنلسٹ ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ نیوزی لینڈ میں رہ چکی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے تجربات کا ذکر الجزیرہ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا ہے۔ ٹارنٹ کو یہ امید رہی ہوگی کہ اس کی یہ مذموم حرکت ان عناصر کی تقویت کی باعث بنے گی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس حادثہ کے بعد وزیر اعظم اور ان کی قیادت میں ملک کی اکثریت نے جو طرز عمل اختیار کیا اس کے پیش نظر ان عناصر کے لیے کچھ کہنے یا کرنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن نے اس پورے بیانیہ ہی کو بدل دیا جو اس وقت اسلام کے خلاف دنیا میں رائج ہے۔ وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارا حصہ ہیں کہہ کر اور عملی طور پر اس کا ثبوت فراہم کرکے انہوں نے ’’ہم‘‘ اور ’’وہ‘‘ کے امتیاز کو یکسر مٹا دیا اور اس تقسیم کی بنیاد ہی کو مسمار کردیا۔ ان کی قیادت میں نیوزی لینڈ کی حکومت اور سول سوسائٹی نے اس المیہ کے بعد جس رد عمل کا اظہار کیا وہ اب تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ یہ رد عمل بغیر کسی حیص بیص کے بروقت اور فوری تھا۔ اب تک اس طرح کی صورت حال میں حکومتیں ایک لاتعلقانہ طرز عمل اختیار کرتی رہی ہیں اور ہمیشہ معاملات کو کسی طرح ٹالنے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔
---------------------------------------------------------
وزیر اعظم نے نیوزی لینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کی بالعموم اور سوگوار خاندانوں کی بالخصوص جس طرح دل جوئی کی اور جس طرح انہیں دلاسہ دیا اور ان کے غم میں شریک ہوئیں واقعہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان منافرت سے بھری ہوئی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا تنہا واقعہ ہے۔ اسے دور حاضر کی تاریخ میں ایک نیا موڑ قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ نفرت اور باہمی عدم اعتماد کے اس ماحول میں جب حجاب کا استعمال ایک قابل مواخذہ جرم بن جائے یہ کون تصور کرسکتا تھا کہ ایک سفید فام عیسائی اکثریت کے ملک کی وزیر اعظم دوپٹہ اوڑھ کر متاثرہ خاندانوں کے پاس جائیں گی اور ایک ایک فرد سے گلے مل کر ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کریں گی۔ یہ بات کس کے حاشیہ خیال میں بھی آسکتی تھی کہ اس ملک کی پارلیمنٹ کا اجلاس تلاوت قرآن سے شروع ہوگا، وزیر اعظم اپنا خطاب السلام علیکم اور حدیث نبویؐ سے شروع کریں گی اور جمعہ کی اذان اور خطبہ سرکاری ریڈیوں اور ٹی، وی پر نشر ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگلے جمعہ کو وزیر اعظم کی قیادت میں ہزاروں لوگ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے مسجدوں میں گئے۔ اظہار یکجہتی کے لیے عورتوں نے دوپٹہ اور مردوں نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ طاقتور گن لابی کی موجودگی کے باوجود خودکار ہتھیاروں پر پابندی لگا دی گئی۔ ایں چہ می بینم بہ بیدار یست یا رب یا بخواب۔ یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا اور بلاشبہہ اس کی حیثیت ایک سنگ میل کی ہے۔ نفرت اور عداوت سے بھرے ہوئے بیانیہ کے مقابلہ میں یہ ایک بالکل نیا بیانیہ ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کے نہایت دوررس اثرات مرتب ہوں گے اور اس کے زیر اثر باہمی ہمدردی، یکجہتی اور اعتماد کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی اور جو خوشگوار ابتدا نیوزی لینڈ میں ہوئی ہے اس کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا۔ یہ سب ایک نیک دل خاتون وزیر اعظم کی نیک نیتی کا ثمرہ ہے۔ عدو شرے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد۔
---------------------------------------------------------
وزیر اعظم نے پارلیامنٹ میں اپنے بیان میں کہا کہ یہ دہشت گرد شہرت چاہتا تھا لیکن اس کی یہ آرزو پوری نہیں ہوگی۔ ہم اس کا نام نہیں لیں گے۔ وہ ایک دہشت گرد اور مجرم ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی نام نہیں۔ گمنامی اس کا مقدر ہے۔ وزیر اعظم کا یہ احساس اور اس کی بنیاد پر لیا جانے والا یہ فیصلہ یقینی طور پر ان کے اخلاص کا آئینہ دار ہے۔ لیکن پروفیسر حامد دباشی کی طرح ہم بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کے وسیع تر تناظر میں اس فیصلہ کی اصابت محل نظر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس دہشت گرد کو اس کے نام سے پکارا جانا چاہیے تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ اس نام کے ایک سفید فام عیسائی دہشت گرد نے کتنی بھیانک دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ دہشت گردی اور اسلام ہم معنی اور مترادف الفاظ ہیں۔ ٹوپی، ڈارھی اور مسلمانوں کے تشخص سے وابستہ اس طرح کی دوسری علامات کو دہشت گردی کی پہچان میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ سفید فام دہشت گردوں اور دہشت گردی کا ماحول بنانے والوں کا نام دنیا کو بتایا جائے تاکہ ان کے مکروہ چہروں اور ان کے قابل نفرت کارناموں سے دنیا واقف ہوسکے اور یہ داغ مسلمانوں کی پیشانی سے مٹ جائے۔
---------------------------------------------------------
دنیا بھر میں اس حادثہ کی مذمت کی گئی لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ کم ہی جگہوں پر اس المیہ کے سلسلہ میں اس ردعمل کا اظہار کیا گیا جس کا یہ مستحق تھا۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے ممالک شامل ہیں۔ وطن عزیز کو البتہ یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں کچھ لوگوں نے اس واقعہ پر خوشیاں منائیں۔ مغربی دنیا میں اینجلا مرکل اور آسٹریلیا کے وزیر اعظم کے علاوہ شاید ہی کسی نے غیر مبہم اور دو ٹوک انداز میں اس کی مذمت کی ہو۔ ابھی کچھ زیادہ دن نہیں گذرے جب جنوری ۲۰۱۵.ء میں پیرس میں چارلی ہیبڈو کے آفس پر حملہ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس کا سبب آنحضورؐ کے نہایت دل آزار خاکے تھے جو اس میگزین میں شائع ہوئے تھے اور جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید اذیت پہنچی تھی۔ اس طرح کے المیوں کے درمیان موازنہ کا عمل مناسب نہیں لیکن یہ کرائسٹ چرچ کے حادثہ کے مقابلہ میں بدرجہا ایک چھوٹا واقعہ تھا خاص طور سے اس وجہ سے بھی کہ ان بے قصور مسلمانوں نے جن کو گولیوں سے بھون دیا گیا کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ بلکہ وہ تو صرف اللہ کی عبادت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ان کا قصور اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا کہ وہ مسلمان تھے اور خدا کا نام لیتے تھے۔ مغربی دنیا نے چارلی ہیبڈو کے معاملہ کو اظہار رائے کی آزادی کے تقدس کا مسئلہ بناکر پیش کیا۔ ۱۲؍جنوری ۲۰۱۵ء کو صرف پیرس کی سڑکوں پر اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ۳۷.لاکھ مظاہرین کا جم غفیر نکل آیا۔ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ۴۰ سے زیادہ عالمی حیثیت کے قائدین وہاں پہنچے جن میں کئی ملکوں کے سربراہان سلطنت شامل تھے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں بشمول مسلم ممالک کے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ فرانس کے مسلمانوں نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی۔ پیرس کے مظاہرین تختیاں اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا ہوا تھا Je Suis Charlie. (میں چارلی ہوں)۔ اس کے بالمقابل اگر دیکھا جائے تو اتنے بڑے دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اگر اظہار رائے کی آزادی اتنی مقدس ہے کہ چاہے اس سے کتنے ہی لوگوں کو جراحت پہنچے پھر بھی ہر قیمت پر اس کی حفاظت کی جائے گی تو مذہب کی آزادی جو کسی کے لیے بھی باعث آزار نہ ہو اس کی حفاظت کیوں نہ کی جائے۔ لیکن پچاس مسلمانوں کے سفاکانہ قتل کے خلاف اس کا دسواں حصہ کا بھی مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ اس پس منظر میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور وہاں کے باشندوں نے جو کچھ کیا وہ لائق صد آفریں ہیں۔ ہر حادثہ میں مواقع بھی ہوتے ہیں اور امکانات بھی۔ کرائسٹ چرچ کا یہ المیہ اور وہاں کی حکومت اور باشندوں کا ردعمل امت مسلمہ کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کا دنیا بھر میں اور خاص طور سے مغرب میں تعارف کرائیں اور بتائیں کہ یہ مذہب ایسا نہیں ہے جس سے نفرت کی جائے بلکہ یہ تو ایسا ہے کہ اس کو گلے لگایا جائے۔ سچ یہ ہے مغرب کی بڑی اکثریت اسلام کے سلسلہ میں صرف وہی باتیں جانتی ہے جو مخالفین نے ان کو بتائی ہیں۔ اب اس کمی کو دور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ کام وہی لوگ زیادہ موثر طور پر انجام دے سکتے ہیں جو وہاں آباد ہیں۔ شاید وہ اسی لیے وہاں پہنچائے گئے ہیں۔ اہل مغرب کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے ان پناہ گزینوں کے لیے اپنے ملک اور کئی مرتبہ اپنے گھروں کے بھی دروازے کھول دیے جبکہ ترکی کے علاوہ بیشتر مسلمان ممالک کے دروازے ان کے لیے بند ہی رہے۔
_____________________
پروفیسر اشتیاق احمد ظلی
ناظم دارالمصنفین اعظم گڈھ