Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 21, 2019

"56" انچ سینہ والے " مودی" کی تعریف کرنی ہی پڑتی ہے !!!


  تحریر// نقاش نائطی/ صدائے وقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بیس لاکھ چوری ہوئی ای وی ایم مشینیں کیا اسٹرانگ روم میں پہلے سے ووٹ ڈالی مشینوں سے بدلی جارہی ہیں
*ہر انسان خامیوں خوبیوں کا مرکب ہوتا ہے اور بھگوان ایشور اللہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے ایک بہترین ٹرننگ پوائنٹ کی طرح، ایک آدھ موقع تو ضرور دیتا ہے خوش قسمت وہ ہوتے ہیں قسمت سے ملے اس ایک موقع سے بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں*
*کہتے ہیں پاپ کا گڑھا  ایک دن بھر جاتا ہے تو سر راہ بھی پھوٹ جایا کرتا ہے۔اور پاپی کو اتنا ہی زیادہ ملال اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جتنا کہ اس کے کئے پاپ و آہنکار کا رتبہ و مقام ہوتا ہے۔ایسا عموما ہوتا ہے، لیکن ضروری نہیں ہر انسان کو اس کے پاپوں کی سزا اسی دنیا میں فوری طور ملے۔ کہتے ہیں ہر فرعون کے خاتمہ کے لئے  موسی علیہ السلام جنم لیا کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا ادراک ہونا بھی ضروری ہے کہ ہزاروں سال کے فرعون کے ظلم و ستم سے تنگ آکر، پھر کہیں حضرت موسی علیہ السلام کا نزول ہوا کرتا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے فرعون کے ظلم و ستم کی شروعات سے موسی علیہ السلام کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت تک، کئی سو سال تک بے قصور عوام کو فرعون کے ظلم و ستم کو سہنا پڑتا ہے۔*
*پتہ نہیں شری نریندر دامودر مودی جی نے کونسا نیک عمل زندگی کے ابتدائی دنوں میں کیا تھا یا اس کی ماں کا آشیرواد اسے حاصل تھا کہ جتنا مودی 

جی کے بچپن و جوانی کا علم ہم تک پہنچ پایا ہے گھر کے زیورات چرا کر گھر سے بھاگنے اور جوانی کے ایام گھر واپسی پر جیسودا بھین کے ساتھ اس کی شادی کروانے کے باوجود، جیسودا بھین جیسی شریف النفس استاد گرہستن اردھانجلی کو داغ مفارقت دے، گھر سے بھاگ جانے والے ایسے کوئی گن والے کام نہ تھے کہ انہیں اس دنیا میں چمنستان ہندستان کی مہاراجئیت سے بڑھ کر بھی بھوگ اٹھانے کا اوسر ملے۔ مودی جی نے ریلوے اسٹیشن پر چاء بیچی تھی یہ نہ صرف پورا ہندستان جانتا ہے بلکہ اس چاء بیچنے کے عمل کو، مودی جی نے عام انتخابی ریلیوں میں خوب بھنایا بھی ہے۔ اور مودی جی نے کل کے بنارس انتخاب میں بھی پرچہ نامزدگی بھرتے وقت، اپنے گریجویٹ ہونے کا پرمان جو دیاہے، اس سوا سو کروڑ کے ہندستان میں آج تک کوئی ایسا خوش قسمت انسان  الیکٹرونک میڈیا کے مادھیم سے دیش کی جنتا کے سامنے  نہیں آیا ہے جس نے مودی جی کی ہاتھ سے بنی چاء گجرات ریلوے اسٹیشن پر پی ہو یا سیکینڈری ہائرسکینڈری پری کالج یا ڈگری کالج میں مودی جی کےساتھ پڑھائی کرنے کا شرف حاصل کیا ہو۔ خیر یہ ضروری نہیں کہ صلاحیتوں کے حصول کے لئے درسی تعلیم ہی ضروری ہو؟ لیکن کذب و افترا پروازی ایک  سربراہ مملکت کے لئے کسی بھی زاویے سے مناسب نہیں لگتی۔ ان تین دہوں دوران جس تیزی سے مودی جی نے شہرت کی بلندیوں کی معراج حاصل کی ہے اس کی نظیر ملنی ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور ہے۔کچھ تو بات ہے 56" سینہ والے مہان مودی جی میں، ایڈوانی جی کی ایودھیہ رتھ یاترا میں ایڈوانی کے پیچھے پیچھے رہنے والے ایڈوانی کے خادم جیسے نظر آنے والے، اپنی خدمت، بھگتی کے دم پر، ایڈوانی جی ہی کی ایما و آشیرواد سے ،گجرات چیف منسٹر کیشیو بھائی پٹیل کے خلاف اپنی سازشی ذہن و اخترا پروازی سے، سی ایم گجرات کے منصب پر براجمان ہونے والے، مودی جی میں کچھ تو خاص خوبی رہی ہوگی جو انہوں نے شہرت و حکومتی منصبی ترقی کی شاہراہ پر، اپنے شاسن و آسن کی بقاء کے لئے، بھلے ہی بیسیوں رام  بھگت 

کارسیوکوں کو گودھرا اسٹیشن پر کھڑی ریل گاڑی کے ڈبے میں اندر سے پیٹرول چھڑک زندہ جلواکر، اس کربناک واقعہ کا الزام گجراتی مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے، اپنی گجرات سرکاری مشینری کا پوری طرح غلط استعمال کر، گجرات نرسنگہار میں ہزاروں گجراتی مسلمانوں کا قتل کرکے، اپنے گجرات سنگھاسن کو حیات دوام کیوں نہ بخشا ہو؟ لیکن ٹیسٹا اسٹیلواڈ سمیت  انیک ہیومن رائیٹ ایکٹیوسٹ کی جان توڑ کوششوں کے باوجود، آج تک کسی نے بھی، نہ صرف مہان مودی جی کا بال تک بیکا کرنے 

میں ناکام رہے ہیں۔ بلکہ ترقی کے مدارج طہ کرتے مہان  مودی جی نے کبھی پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا ہے۔*
*قاتل گجرات کو اس کی شرمناک کرتوتوں کی سزا کوئی کیا دلواتا؟ اس نے تو اپنے بھگوان کا ایسا کیا آشیرواد حاصل کیا تھا کہ وائیبرنٹ گجرات کے فرضی ہیولے کی پرتیما بتا کر  اور درشا کر،سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے دل لبھاونے نعروں کے بل پر، برہمن پونجی پتی امبانی کے ایک بزنس موڈیول کی طرح ان کا برانڈ ایمبیسیڈر بن کر،گجرات سی ایم پد سے چمنستان ہندستان کے سب سے بڑے شکتی سالی پی ایم پد پر، ایک مرتبہ براجمان کیا ہوئے سوا سو کروڑ دیش واسیوں کے دلوں میں نفرت و محبت کی آماجگاہ بن راج کرنے لگے ہیں مہان مودی جی*
*اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی ناعاقبت اندیشانہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی پالیسز سے دیش کی ارودھ ویستھا کو تاراج و برباد کرتے ہوئے اپنے انویسٹر برہمن پونجی پتی امبانی کے خزانے میں سونے کی چڑیا بھارت ماتا کے لا محدود وسائل و دولت کو منتقل کرواکروا کر، ان  پانچ سالوں میں امبانی کو وشوء کے سب بڑے پونجی پتی کے متمیز مقام تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہےمودی جی نے۔ مہان مودی جی میں کچھ تو بات ہے دیش کی اردھ ویستھا کی اتنی بدحالی کے باوجود، دس کروڑ دیش کے یواؤں کو نوکری دینے کے اپنے وعدے کےاپرید، ڈیڑھ دو کروڑ نوکری پر رہے لوگوں کو اپنی غلط پالیسیز سے نوکری مکت کرنے کے باوجود، اور ان پانچ سالوں میں بڑھتی مہنگائی سے ڈبل ہوتے ہر وستو کے داموں کے باوجود، ہندستان کے بے روزگار یواوؤں کے لب و رخسار پر مودی مودی کی مالا جپتی صداؤں نے مودی جی میں کچھ تو خوبی ڈھونڈنے پر ہمیں مجبور کیا ہے۔ مودی جی کی معاشی  معاشرتی زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی کے چلتے دیش کے یواؤں اور کسانوں میں خود کشی کے بڑھتے رجحان کے باوجود اور دیش کے ہر ہر علاقے میں مودی جی سے اصلا بیزار  عوامی رجحان باوجود، برہمن پونجی پتیوں کی ملکیت والے الیکٹرونک میڈیا کا 19 مئی بعد انتخاب الیکشن ایگزٹ پول سروے میں 300 پلس اکثریت سے دوبارہ اقتدار حاصل کرتا دیکھ کر 56"سینے والے مہان مودی جی میں کچھ کچھ تو خوبی ہے دیکھنے اور تلاش کرنے کو دل کرتا ہے*
*دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے سوا سو کروڑ آبادی کے دیش میں،پورے عالم کی اردوھ ویستھا کو سنبھالنے لائق تعلیم یافتہ یواؤں کی بھارت ماتا موجودگی باوجود، انگریزوں کی غلامی سے چمنستان ہندستان کو آزاد کرانے والی سو سال سے بھی زائد عمر والی انڈین نیشنل کانگریس کے انیک معمر لیڈروں اور یوا پیڑھی کے رہتے ہوئے بھی، ون مین آرمی کے طور 56"سینے والے مہان مودی جی کا لاشرکت غیرے اتنے بڑے ہندستان پر آمرانہ طرز حکومت قائم رکھنے میں کامیاب رہنا،کہیں نہ کہیں ہمیں مودی جی میں غیر معمولی صلاحیتوں کو ڈھونڈنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک ایسا آمر حکمران جس نے کبھی حذب مخالف کی پرواہ ہی نہ کی ہو بلکہ اپنے سر پرستوں سمیت اپنے رفقاء ساتھیوں کو بھی حاشیہ پر رکھنے کا ساہس بتا یا ہو۔ بعد آزادی ھند ان پچاس سالوں میں سپریم کورٹ، ریزرو بنک، الیکشن کمیشن جیسے غیر جانبدار  مرکزی اداروں میں مداخلت سے  اب تک کے تمام سیاست دان 

اجتناب برتتے آئے تھے ان تمام مرکزی اداروں میں اپنی بے جا سنگھی مداخلت سے، ان اداروں کی گریما و اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اور ان اداروں کے اپنے آستھستیو کی بحالی کے لئے الیکٹرونک میڈیا کے مادھیم سے دیش کی جنتا کے آگے گوہاڑ لگانے پر انہیں مجبور کرنے والے  آمر مودی جی میں کچھ تو خوبیاں تلاش کرنے پر ہمیں مجبور کرتا ہے۔*
*کچھ تو بات ہی اس 56" چوڑے سینے والے مودی جی میں،جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے ملک کے سواسو کروڑ باشندوں کے اوپر، ایک چھوٹے سے صوبے گجرات کے اپنے  ماتحتوں کو ہندستان کے  تمام بڑے اور آزاد  مرکزی  اداروں کے منصب اعلی پر براجمان کر، ان مرکزی اداروں کی گریما کے خلاف اس کے اشاروں پرتگڑی کا ناچ ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔کیا ہندواسی کروڑوں جنتا اس شرمناک واقعہ کو کبھی بھول پائیں گے جب اس دیش کی آزاد کہی جانے والی اعلی عدلیہ، سپریم کورٹ کے چار سینئر موسٹ ججز 56" سینے والے مودی مہان کے سنگھی مداخلت سے تنگ آکر دیش کی الکٹرونک میڈیا کے مادھیم سے دیش کی کروڑوں دیش واسیوں کے آگے انصاف کی گوہاڑ لگائی تھی؟ کیا دیش کی کروڑوں جنتا نے دیش کی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی، سی بی آئی کے ذمہ داروں کی جھڑپ و  لڑائی کو دیکھا اور محسوس نہیں کیا ہے؟ دیش کے سب سے بڑے ریزرو بنک کے پاس  دیش کے سوا سو کروڑ جنتا کی بچت پونجی کو آزادی ہند کے ان پچاس ساٹھ سالوں میں، سوائے مہان مودی جی کے، کسی سیاست دان نے  اپنے مفاد میں خرچ کرنے کا ساہس کیا پایا ہے؟ کیا یہ وہی آزاد خود مختار "الیکشن کمیشن" ہے جو بعد ایمرجنسی آہنی عزائم والی شریمتی اندرا گاندھی کے دور اقتدار ایمرجنسی بعد، اپنے صاف و شفاف انتخابی عمل سے، اس وقت کے غیر معروف دلت لیڈر آنجہانی کانشی رام کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو اس وقت کی اسٹیل لیڈی کی حیثیت معروف آنجہانی اندرا گاندھی کو  اقتدار سے محروم و بے دخل کردیتا ہے۔اور آج کا مہان مودی جی کے ہاتھوں تگڑی کا ناچ ناچتا الیکشن کمیشن ہے جو مہان مودی جی کی تمام تر انتخابی بے ضابطگیوں پر، دانتوں میں انگلی دبائے خاموش تماشائی بنتے دیکھنے پر مجبور ہے بلکہ خود اس کے آرڈر پر سرکاری ٹھیکے والے کارخانوں میں بنے دو لاکھ ای وی  مشینوں کی گم شدگی پر بھی، ان دو لاکھ ای وی  مشینوں کو لے اڑانے والے چوروں کو پکڑنے یا چوری ہوئی ان ای وی مشینوں کے بازیاب ہونے تک انتخاب ملتوی کرنے کے جری فیصلے لینے سے اجتناب برتتا انگشت بدندان تماشہ دیکھتا الیکشن کمیشن ہے۔بھارت ماتا کا کوئی بھی شہری 56 "سینے والے مہان مودی جی کی پرشنشا تعریف کئے بنا کیا رہ سکتا ہے؟ کہ وہ اوراس کے چانکیہ امیت شاہ کی جوڑی، صرف دو نفری فوج نے،  دنیا کے اس سب سے بڑے جمہوریت والے دیش میں، اپنے آمرانہ فیصلوں سے نہ صرف تمام آزاد خود مختار اداروں کو بے بس بنا انکے اشاروں پر ناچنے مجبور کرتے ہیں بلکہ کچھ تو ان کے طرز حکومت میں خوبی ہے کہ اس چمنستان ہندستان کے سوا سو کروڑ دیش واسیوں میں کوئی ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں پاتا ہے۔نہ کوئی ان کے خلاف  دیش کی عدلیہ سے گوہاڑ لگانے کی جرات کرتا ہے؟ نہ  سیکولر اقدار کو بے موت مارتے انکے آمرانہ طرز حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے کی سکت کوئی اپنے میں پاتا ہے؟ ہم نے تو نہ صرف آزاد کہی جانے والی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کو مہاں مودی جی کے سامنے بندھے دست، ثناء خوانی کرتے پایا ہے بلکہ سوا سو کروڑ دیش واسیوں میں سے بھی کسی کو سنگھی ظلم کے خلاف ببانگ درا چیختے یا بولتے نہیں  پایا ہے۔پی ایم او آفس سے جو حکم نامہ نکلتا ہے آزاد خود مختار میڈیا سمیت تمام سرکاری مشینری اور آزاد و خود مختار کہے جانے والے مرکزی ادارے بھی حکم سنگھی کی بحالی کے لئے مصروف عمل پائے جاتے ہیں۔دنیا کی اتنی بڑی جمہوریت اور اس میں بسنے والے سوا سو کروڑ دیش واسیوں کو اپنے سنگھی عزائم سے یوں ہنکالتے ہوئے آمرانہ حکومت کرنا کیا یہ کوئی معمولی کام ہے۔1977 آزاد پرنٹ میڈیا کی یلغار سے تنگ آکر آہنی عزائم والی آنجہانی اندراگاندھی نے ایمرجنسی کیا لگائی؟ پتا نہیں مہاتما  ثانی جے پرکاش نارائن کہاں سے ہندستانی سیاسی منظر نامہ پر ظہور پذیر ہوئے کہ ان کے اندولن  کے سامنے اسٹیل لیڈی کہی جانے والی اندرا گاندھی کو بھی ہتھیار ڈال اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس وقت اندرا والی ایمرجنسی صرف سیاسی  لیڈروں پر اور انکے آزادی اظہار گویائی پر تھی لیکن فی زمانہ مودی جی کا یہ پانچ سالہ سنگھی کال 77 کے ایمرجنسی دور سے بھی زیادہ خطرناک اور کالا دور ہے۔ اس نام نہاد ایمرجنسی والے دور سے بھی خطرناک یہ سنگھی دور، جس میں میڈیا پر ظاہری پابندی کے بجائے، ثناء خوانی لازم ملزوم ہے ریزرو بنک سپریم کورٹ اور یہاں تک کہ ملک کی مسلح افواج کو بھی اپنے اقتدار کے حصول کے لئے ماورا نہیں رکھا گیا ہے۔پلوامہ حملہ میں چالیس جوانوں کی شہادت صاحب اقتدار کی کھلی اور فاش غلطیوں کے طفیل ہوتی ہے اور اس کے لئے صاحب اقتدار سنگھی ٹولے کو بطور سزا دار پر لٹکانے کے بجائے، شہید فوجیوں کے پارتو شریر پر ووٹ مانگ واپس اقتدار پر قبضہ کا موقع ان سنگھیوں کو دیا جاتا ہے۔کیا اس کے لئے ہم کروڑوں دیش واسیوں کی بے حسی ذمہ دار ہے؟ یا مہان مودی جی کی چترائی قابل ستائش ہے؟*
*19مئی شام انتخابی کاروائی ختم ہوتے ہی الیکٹرونک میڈیا پر  اپنے آپ کو آزاد کہنے والے سنگھی ملکیت والی الیکٹرونک میڈیا نے پی ایم او آفس کے حکم نامہ پر عمل آوری میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی ہوڑ میں 300 پلس اکثریت کے ساتھ مودی جی کے اقتدار پر واپس آنے کا واویلا مچانا نہ صرف شروع کیاہے بلکہ عام ووٹرز اور انتخابی پنڈتوں کی ڈبیٹ کروا 300 پلس سے دوبارہ مودی جی کے اقتدار پانے کو صحیح ثابت کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ پونیہ پرسون واجپائی، رویش کمار، ونود دوا، راج دیب سردیسائی اور ابھیشارشرما  جیسے انیک انتخابی پنڈتوں کے ہر ہر پارلیمنٹ سیٹ کے ہر ہر علاقے ہر ہر بوتھ کی تجزیاتی رپورٹ اور دیش بھر میں بے روزگاری،بڑھتی مہنگائی اوریواؤں کے خودکشی کرتے رجحان کے پیش نظر مودی جی کے گرتے ساکھ کی وجہ سے مودی جی کے اقتدار سے محروم ہوتے رجحانات  کی کیا کوئی وقعت ہی نہیں رہی ہے؟ اچانک پی ایم او آفس کے حکم نامہ کی بجاآوری میں 300 پلس سیٹوں سے مودی مہان کی اقتدار واپسی کی تشہیر کے پیچھے دو لاکھ ای وی کی گمشدگی اور ان تین دنوں میں اسٹرانگ روم سے ائ وی  مشینوں کی ادل بدل کر، سنگھی سائبر ایکسپرٹ دست انگل سے انتخابی نتائج کو اپنے مرضی مطابق بدلتے رزلٹ کو الیکٹرونک میڈیا مادھیم سے پہلے سے بتا بتاکر دیش واسیوں کو پہلے سے ترتیب شدہ سنگھی انتخابی رزلٹ قبول کروانے کی سازش تو 
نہیں ہے؟ *