Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

نوشتہ دیوار۔

*#نوشتہ_دیوار*صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان نماز روزے کی طرف لوٹ آئیں تو ان کے سبھی سماجی مسائل، معاشی دشواریاںِ اور ان پر ہو رہے تمام طرح کی ظلم زیادتی خود بخود ختم ہو جائے گی، میں ان سے اتفاق نہیں رکھتا۔۔۔۔
میں جب یہ کہتا  ہوں کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتا تو میری اس بات میں نا تو کوئی طیش ہے، نا تنک مزاجی اور نا ہی دینی انحراف کا ذرا بھی کوئی شائبہ۔۔۔۔۔۔

میری نا اتفاقی کے پیچھے منطق اور واضح دلائل ہیں۔۔۔

ذرا مجھے کوئی بتائے تو سہی کہ تیرہ سال تک مکہ کے اولین مسلمانوں سے بھی زیادہ کوئی اسلام سے جڑا ہوا تھا؟
ان سے زیادہ کوئی عبادت گزار تھا؟
پھر بھی کفارِ مکہ کے ہاتھوں ان کے ستائے جانے کا سلسلہ کسی طرح بھی ختم نہیں ہوا بلکہ روز بروز سنگین ہوتا گیا۔
اگراسلام سے جڑنے اورعمل کرنے سے مسائل حل ہوتے تو ان کے مسائل مکہ میں کیوں نہیں ختم ہوئے۔ انہیں اتھوپیا جا کر کیوں پناہ لینی پڑی؟
انہیں مدینہ کی طرف کیوں ہجرت کرنی پڑی؟
اگر سارے مسائل صرف عبادت کر نے سے حل ہوجاتے تو جب کفارِ مکہ سن سات ہجری میں مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اور پورا مدینہ اس کی زد میں تھا تو خندق کھودنے کی کیا ضرورت تھی؟
*گھر میں بیٹھ کے روزہ نماز کرتے، اللہ اللہ کرتے اور سارے مسائل حل ہوجاتے۔*
لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا, اب سوچنے والی بات ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟  انہوں نے خندق کی تدبیر آخر کیوں اپنائی؟
حالاں کہ رسول بھی اس وقت ان میں موجود تھے۔ چاہتے تو کہتے کہ آقا اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔۔۔۔۔
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،
انہیں خندق کھودنی ہی پڑی۔ ہزار صوم وصلات کے باوجود سلمان فارسی کے سجھائے ہوئے اس مشورے پر عمل کرنا ہی پڑا۔۔۔۔۔

معلوم ہوا کہ دنیا میں کام یابی کے لیے اسباب اپنانے پڑتے ہیں، صرف دین پر تکیہ کر لینے سے کام یابی نہیں ملنے والی۔ دین پر عمل کرنا ایک بات ہے اور دنیاوی مسائل سے نپٹنا ایک دوسری بات ہے۔

*ابوالکلام آزاد نے فرانسیسی فوجی لا بریتان کے حوالے سے جس نے مسلمانوں اور فرانسیسیوں کی کئی جنگوں کے حالات بڑے ہی تجزیاتی انداز میں لکھا ہےَ لکھتے ہیں کہ فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر اور اس کے مضافات میں حملہ کیا تو مسلمانوں کے پاس منجنیق کی شکل میں مضبوط اور تہس نہس کرنے والی اس زمانے کی توپیں موجود تھیں جس سے مسلمانوں نے فرانسیسیوں کے چھکے چھڑا دیے۔ جب مسلمان توپیں برسا رہے تھے تو فرانسیسی دور خیموں میں اپنے پادریوں کے پاس جما ہو کر عیسی مسیح سے مدد طلب کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کی توپوں سے اتنے مرعوب تھے کہ اسے عذابِ الہی اور دین سے دوری کا سبب گردان رہے تھے۔*

لابریتان ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ کچھ سالوں کے بعد جب فرانسیسوں نے مسلمانوں کی طرح توپیں بنا لیں اور وہ اس بار سمرقند اور بخارا پر حملہ آور ہوئے تو اس بار مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو مصر پر حملے کے وقت فرانسیسیوں کی تھی۔ فرانسیسی توپیں برسا رہے تھے،
*اس بار مسلمان گھروں میں دبک کے بیٹھے تھے۔ سرکاری طور پر پورے سمرقند اور بخارا میں اعلان کردیا گیا کہ اس عذاب سے نجات کے لیے مسجدوں میں ختمِ خواجگان کیا جائےِ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو حلقے میں بیٹھ کر پڑھنے اورپڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔۔۔۔۔*

ان تمام مثالوں کے پیش کرنے کا واحد مقصد سوچ کے اس دھارے پر چوٹ کرنا ہے، اس طرزِ تفکیر کو بونا ثابت کرنا ہے جو تمام سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل کا سبب دین سے دوری کو بتاتا ہے۔۔۔۔

ہمارے سماجی، سیاسی، معاشی مسائل اور ہمیں عالمی سح پر درپیش چیلینجز اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک ہم مناسب حکمتِ عملی تیار نا کریں، اس کے خاتمے کے لیے اسباب اختیار نا کریں اور اس کے لیے مناسب منصوبہ نا بنائیں۔ جو قوم بھی پالیسی میکنگ سے دست بردار ہوجاتی ہے جیسے آج مسلم قوم ہے وہ تاریکیوں میں کھو جاتی ہے۔ جب تک مسلمان پالیسی میکنگ کے عمل سے جڑے رہے وہ خود بھی کام یاب رہے اور دوسروں کے لیے بھی رہنما بنے رہے۔ جب سے پالیسی میکنگ سے یہ قوم تہی دست ہوئی ہےِ اور دوراندیشیوں سےمفلوج ہوئی ہے اس وقت سے آج تک اس کے سامنے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ہمیں دوبارہ منظم منصوبہ بندی کا عمل شروع کرنا ہوگا۔  کیا کمیاں ہیں اورکیا خامیاں ہیں؟، ان کا تجزیاتی مطالعہ کر کے ان کے خاتمے کے لیے مناسب  لائحہِ عمل تیار کرنا ہوگا۔

*اسے دین سے دوری اورغفلت سے جوڑ کر دیکھنے والی طرزِ تفکیر سے باز آنا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر انتہائی مفلوج سوچ ہے۔*
جس میں ذرا بھی دور اندیشی نہیں۔ کوئی گہری سوچ شامل نہیں۔

آج دوسری قومیں کام یاب ہیں تو اس لیے نہیں کہ وہ دین دھرم سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ بہت عبادت گزار ہیں۔ ان کی کام یابی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ منصوبہ سازی کے عمل سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔
یہود و نصاری جس پراللہ کی لعنت ہے وہ بھی کام یابی سے ہم کنار ہیں کیوں کہ انہوں نے پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو صدیوں سے گزارا ہے۔

آج ہندوتوا بریگیڈ ملک کی گدی پر براجمان ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ دین دھرم سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کا خواب کئی دہایوں پہلے دیکھا تھا اور اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی جس کا پھل وہ آج ایک عرصے کے بعد چکھ رہے ہیں۔

*مسلمان ہرچیز کو دین سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور ہر چیز کا تجزیہ شرعی قوانین کے چشمے سے کرتا ہے،*
اسے نہیں پتا کہ اس دنیا میں کائناتی نظام بھی ہے۔
اور وہ کائناتی نظام یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی عمل اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے تدبیر نا اپنائی جائے اور اسے ایک خاص منصوبے سے نا گزارا جائے۔

*"وأن ليس للإنسان إلا ما سعى"*
*اس کائنات میں انسان کی تمام حصول یابیوں کا دار ومدار اس کی کوششیں ہیں، اس کی کاوشیں ہیں۔*
کوششوں سے دست برداری اور پھر بھی کسی انہونی کا انتظار ایک مفلوج ذہنیت کا فتور ہوسکتا ہے, اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور کوئی بھی تدبیر نہ کرنا نٹھلے پن کی علامت ہے۔

*وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ"*
*اورتم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو خوف زدہ کرو۔*

اگر سارے مسائل ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے حل ہوتے تو اللہ ایسی آیت کبھی نازل نا کرتا۔

*جاپان جب دوسری جنگِ عظیم میں بری طرح شکست خوردہ ہوا، جاپانیوں کے حوصلے پست ہوگئے، ہیرو شیما اور نا گا ساکی جل کر تباہ ہو گئے تو اس وقت وہاں کے بادشاہ نے اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور اس وقت اس نے اپنی قوم سے جو خطاب کیا اس پر مسلمانوں کو بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔  اس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو! آیے اب ہم اپنے ہتھیار پھینک دیں اور اس کی جگہ اوزار اٹھالیں۔ ایک دن آئے گا کہ ہم پوری دنیا کو اپنے اوزاروں سے مات دیں گے، کیا ہم ایسا کرنے کے اہل نہیں ہیں؟"*

اسی سوچ اوردیرپا پالیسی میکنگ کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں جاپان آٹوموبائل میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وہ عالمی پیمانے پرایک سند ہے
ہمیں اپنی سوچ کے دھارے کو بد لنا ہوگا۔ مفلوج ذہنیت سے نکلنا ہوگا۔ پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو جوڑنا ہوگا۔ منصوبہ بند طریقے سے سالہا سال تک عمل کرنا ہوگا تب جا کے موجودہ حالات سے نکل پائیں گے۔ ورنہ کئی اور صدیوں تک یہی صورتِ حال بنی رہے گی