Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 26, 2019

اندھے ، بہرے اور گونگے لوگ!!!


شکیل رشید / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
نریند ر مودی کی جیت پر مولوی ’وجد‘ میں آگیا۔۔۔۔
کچھ لوگ اسے ’حال‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور پھر کرتے پائجامے او رٹوپی میں باریش مولوی صاحب اتنا ناچے اتنا ناچے کہ شاید ان کے ساتھ ان کی دنیا بھی ناچنے لگی ہوگی۔ ویسے بھی ان کےلیے دنیا ہی  اہم ہے۔ ان کے ارد گرد جو موجود تھے، ان میں باریش نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، وہ بھی ناچ رہے تھے، دنیا ومافیہا سے بے خبر، اس حقیقت کو بھی نظر انداز کیے ہوئے کہ یہ رمضان المبارک کے مقدس ایام ہیں۔ تقویٰ حاصل کرنے کا مہینہ، اور تقوی یہ ہے کہ ہر ہر قدم پر اللہ رب العزت کا خوف دلوں میں قائم رہے؛ کوئی اُٹھے، بیٹھے، سوئے، بات کرے، رنج وغم اور خوشی ومسرت کا اظہار کرے تواللہ کی رضا کے مطابق کرے، اپنے نفس کی نہ سنے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی سنے۔
پر یہاں تو مودی کی جیت پر ’وجد‘ و’حال‘ کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ زبانوں پر ’بھارت ماتا کی جے‘ کے فلک شگاف نعرے تھے، اور خوشی کے اظہار میں بے ڈھنگا رقص تھا۔ مودی کی جیت پر کسی باریش مسلمان کا خوشی منانا منع قطی نہیں ہے لیکن اس مکروہ انداز میں خوشی منانا کہ لفظ ’مسلمان‘ لفظ ’یہود‘ کے سامنے شرمانے لگے یقیناً قابل ملامت ہے۔ پر کیاکیاجائے مودی سے ’وفاداری‘ کے اظہار کےلیے دین کا مذاق بنانا ان کے نزدیک درست ہے۔ ہم یہ قطعی نہیں کہتے کہ یہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں، ان کے پاس جھانکنے کےلیے گریبان ہیں ہی کہاں، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ یہ ، یہ تو سوچیں کہ اب شاید بابری مسجد کی جگہ رام مندر بن جائے کیو ںکہ ان کی نظر میں مسجد کی جگہ رام مندر کا قیام ہی درست ہے، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ یہ بھاجپائیوں کے  شریعت مخالف اقدامات کو سامنے رکھیں کیوں کہ یہ تو شریعت بیزار ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ یہ بیف فروشوں کی حالت زار پر ترس  کھائیں کیو ںکہ یہ سبزی خور بن گئے ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کی وبا کا ہی خیال کریں کیوں کہ انہیں موقع ملے تو یہ بھی ہجومی تشدد میں شریک نظر آئیں،پر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ خوشی او رمسرت کے اظہار میں اعتدال برتیں۔ مودی کو مبارک باد دینا  ہی ہے، ان سے اظہار وفاداری کرنا ہی ہے او رایک مسلمان کی حیثیت سے ہی کرنا ہے تو کم از کم سنجیدگی اور بردباری کے ساتھ، جیسا کہ ایک مسلمان کا وطیرہ ہوتا ہے، ان سے ملیں، مبارک باد دیں۔۔۔اور ساتھ ہی ساتھ اس امید کا اظہار بھی کہ وہ پھر سے وزیر اعظم بن کر آئے ہیں تو واقعی میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ پر اب عمل کریں گے اور اس نعرے میں جو اضافہ کیا ہے ’سب کا وشواش‘ تو واقعی وہ سب کا ، مسلمانوں کا بھی وشواش ، بھروسہ جیتیں گے۔ ناچنے کے نہیں یہ کام ہیں کرنے کے۔
پرشاید میں غلطی پر ہوں۔ شاید یہ وہ لوگ ہیں جن پر یہ جملہ صادق آتا ہے ’یاشیخ اپنی اپنی دیکھ‘ یہ صرف اپنے لیے جیتے ہیں، ان کی نظر میں ملت وامت کچھ نہیں ہے۔ اور  یقینا ان کی نظر میں قوم بھی بے معنی لفظ ہے۔ ان کے اپنے بڑے بڑے پیٹ ہیں، یہ اسے بھرنا چاہتے ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے کہ ’اللہ سے ڈرو جیسا کہ اللہ سے ڈرنے کا حق ہے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو او رآپس  میں تفرقہ نہ ڈالو‘ پر یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رسی کو چھوڑ چکے ہیں، یہ انتشار کا کھیل کھیلتے ہیں۔ یہ حق سے بے حد دور ہیں، قرآن پاک نے شاید ان ہی لوگوں کے لیے کہا ہے کہ ’اندھے، بہرے اور گونگے لوگ ہیں‘۔ اللہ انہیں راہ راست پر لائے اورہمیں ان کی راہ پر چلنے سے بچائے۔ آمین۔