Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 29, 2019

عشق میں بھی سیاستیں نکلیں۔!!!!

از/ ذیشان الہی منیر تیمی/ صدائے وقت۔بذریعہ عاصم طاہر اعظمی۔
   . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
    جمیلہ کی حسن و خوبصورتی کے چرچے دور دراز کے علاقے تک پھیلے ہوئے تھے. جو بھی اسے دیکھتا دو چار تعریفی جملے کہے بغیر چپ نہیں ہوتا. لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اللہ نے اسے صورت کے ساتھ ساتھ سیرت سے بھی خوب نوازا ہے .کیونکہ ہمیشہ ان کی زبان پہ اللہ و رسول کی باتیں ہوتی.یہ سب باتیں دیکھ اور سن کر ان کے والد محترم جو بذات خود ایک نیک اور صالح انسان تھے جہاں بھی جاتے اپنی عابدہ اور صالحہ بیٹی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتے. ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی اپنی بیٹی کی تعریف سے شروع ہوتا تھا. ایک دفعہ شادی کے موقع سے جمیلہ صاحبہ نئے لباس میں ملبوس ہوکر خواتین کے ساتھ گھر کے باہر نکلی تمام خواتین کے درمیان وہ ایسی لگ رہی  تھی گویا جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئی ہو ان کی کالی کالی آنکھیں, لمبے لمبے بال, ہرنی جیسی چال اور گلابی کلڑ جیسا چہرہ جو بھی دیکھتا وہ "لا تتبع النظر النظر فانما لک الاولی و لیست لک الثانیہ"کی مخالفت کر بیٹھتا اور اسے تکتکی لگا کر دیکھتا رہتا. جمیلہ بھی سمجھ رہی تھی کہ نوجوانوں کی نظریں ہماری طرف ہیں اس لئے انہوں نے بھی طرح طرح کے اسٹائل اپنانے شروع کئے کبھی اوڑھنی سر سے اتار کر اپنے لمبے لمبے بال نوجوانوں کو دیکھلاتی, کبھی اپنے چہرے پر لگے ہوئے پسینے کو پوچھتی, تو کبھی ہیروئنوں کے طرز پر چلنے کی کوشش کرتی. دیکھنے والوں میں سے ایک نبیل بھی تھا. یہ شخص بھی  چندرپور گاؤں کے گنے چنے لڑکوں میں سے تھا.
ذیشان الہی تیمی

 ان کے علمی صلاحیت و مقبولیت سے لوگ اچھی طرح واقف تھے. صوم و صلاۃ کے پابند نبیل صاحب کی نظر جب اس عابدہ وصالحہ خاتون پر پڑی تو ان کا دل بھی ڈول گیا پہلی دفعہ انہیں بھی احساس ہوا کہ کوئی خاتون ان کے قلب و جگر میں بھی طوفان برپا کرکے انہیں اپنے طرف مائل کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں. نبیل نے اسی وقت یہ طے کیاکہ اس خاتون کو اپنی شریک حیات بناؤنگا. اب نبیل ہر ممکن اسباب کے مد نظر اس لڑکی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا. آخر وقت نے رخ موڑا اور نبیل و جمیلہ کو بہت قریب کردیا. جمیلہ کو جب بھی کسی کام سے باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی تو وہ اپنے والد سے کہتی کہ اس گاؤں میں صرف ایک ہی لڑکا ہے جس پرمیں اعتبار کر تی ہوں اور وہ نبیل صاحب ہے. اب دونوں ایک دوسرے کے قریب روز بروز آتے گئے ایسا لگ رہا تھا کہ جو تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا ہے وہ بہت جلد ختم ہو جائیگا. اسی دوران جمیلہ کی ایک سہیلی عاقلہ نے آکر نبیل کو خبر دی کہ جمیلہ کہہ رہی تھی کہ نبیل سے مجھ کو حقیقی محبت ہو چکی ہے. یہ الفت و محبت اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اس پر انسان کا بس نہیں. اللہ جب چاہتا ہے کسی کے دل میں کسی کے لئے محبت پیدا کردیتا ہے اس پر انسان کا بس نہیں.
وصی صدیقی سرائمیر کا پیغام

 ان باتوں کو سن کر نبیل کے دل میں جو تھوڑا سا فاصلہ جملیہ سے تھا وہ جاتا رہا. اب جب بھی کبھی نبیل جمیلہ کے ساتھ باہر جاتا تو وہ دل کھول کر اس سے باتیں کرتا. ان کے ساتھ ہنسی مزاق کرنے اور  ہوٹلوں میں جاکر رنگ برنگے میٹھائیاں اور رس ملائی کھانے میں اسے بہت مزہ آتا. جمیلہ شرماتے ہوئے نبیل کے پلیٹ سے اٹھا کر کھاتی اور تھوڑا سامسکراتی چنانچہ اس ادا کو دیکھ کر نبیل کو مکمل یقین ہوچکا تھا کہ جمیلہ اس سے بے پناہ محبت کرتی ہیں گرچہ ابھی تک انہوں نے اپنی زبان سے پیار کا اظہار نہیں کیا ہے .کبھی کبھی جمیلہ وقت نکال کرموبائل کے تحت نبیل سے باتیں بھی کرتی ان کی باتیں بہت میٹھی اور دلکش ہوا کرتی تھیں نبیل چاہتا کہ باتیں لمبی ہو لیکن سات یا آٹھ منٹ بات کرنے کے بعد جمیلہ فون کاٹ دیتی. ایک دفعہ دونوں کو بس کے ذریعہ سفر کرنے کا بھی اتفاق ہوا. دوران سفر جمیلہ نے نبیل سے کہا کہ مجھ کوآپ پر بہت زیادہ اعتماد ہے اس لئے میں آپ کےساتھ کسی بھی وقت بلا تردد کے سفر کرتی ہوں. جمیلہ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ جملے اس بات پر دال تھے کہ جمیلہ نبیل کو کس قدر محبوب اور عزیز جانتی ہے.
    ایک دن عاقلہ نے آکر  نبیل کو ایک ایسی بات بتائی جس کو سن کر نبیل کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی انہیں دن کے اندر ہی تارے نظر آنے لگے. ان کی دنیا اندھیری ہوگئی. ان کے تمام سجے سجائے سپنے چکنا چور ہوگئے. عاقلہ  کی بات پر پہلے تو انہیں یقین نہیں آیا لیکن حقیقت حال جان کر نبیل کے چہرے پر حزن و ملال کے آثار نمایا تھے انہیں ایسا لگ رہا تھاکہ ہمالیہ پہاڑ ٹوٹ کر ان سر پر گر پڑاہو. در اصل بات یہ تھی کہ جمیلہ کے وہ تمام پیارے پیارے الفت و محبت کی باتیں جو نبیل سے انہوں نے کی تھی  وہ ایک دکھاوا تھا عاقلہ نے یہ بھی کہا کہ ان کو نبیل سے حقیقی محبت کبھی ہوئی ہی نہیں. نبیل جیسے تین اور لڑکے ہیں جس کو وہ اسی طرح اپنے حسن و جمال کےجال میں پھنسا رکھی ہے انہیں غیر لڑکوں سے بات کرنے ان کے ساتھ گھوم گھوم کر ہوٹل بازی کرنے میں بہت مزہ آتا ہے.عاقلہ نے نبیل سے یہ جملہ کئی بار دھراتے ہوئے کہا کہ ان کا دو روپ ہے لوگوں کی زبان پر  ان کی نیکی اور عبادت کاجو ذکر خیر ہوتا ہے وہ ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں, نہ تو وہ اللہ سے ڈرتی ہیں اور نہ ہی اس کے اندر حقیقی شرم و حیاء ہے بلکہ اپنے حسن کی وجہ سے وہ سیاسی لیڈر کی طرح اپنا رنگ بدلتی رہتی ہیں.
      عشق میں بھی سیاستیں نکلی
        قربت میں بھی فاصلے نکلی
      
    عاقلہ کی لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے جمیلہ کی زندگی کی صحیح تصویر دیکھائی دے رہی تھی اور نبیل کو جمیلہ کی زبان سے نکلے ہوئے اپنے متعلق جھوٹے جھوٹے  پاکبازی, زہدوتقوی اور شرافت کے جملے یاد آرہے تھے نبیل کے چہرے پر غم کے آثار دیکھ کر عاقلہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو فکر کرنے کی چندا ضرورت نہیں کیونکہ جمیلہ جیسی لاکھوں لڑکیاں آپ کے سامنے قطار لگائے ہوئے شادی کرنے کے لئے حیران و پریشان ہونگی لیکن شرط یہ ہیکہ پہلے آپ اپنے کو سدھارے اور علمی سفر کو جاری رکھے. میں جانتی ہوں کہ ان باتوں سے آپ کو دل سے ٹھیس پہنچا ہوگا انسان اپنے نہایت ہی ہر دلعزیز کی موت کو بھی کچھ دن کے بعد بھول جاتا ہے تو بھلا ایک عیار و مکار سی لڑکی کو بھولنے میں ان شاء اللہ آپ کو وقت نہیں لگے گا عاقلہ کی تسلی بھری بات کو سن کرنبیل اللہ کا اور عاقلہ کا شکریہ ادا کیا جس نے وقت سے پہلےانہیں برباد ہونے سے بچا لیا. اب اخیر میں شعر کے چار مصرعے کے تحت میں اپنی تحریر کو ختم کرتا ہوں کہ :
   ہاں کل یہ نقطہ باریک مجھ پہ کھل گیا
  ہربڑے انسان کے پیچھےعورت کا ہاتھ ہے
  پھڑتا ہے تیرے شہر کے گلیوں میں اک فقیر
  اس کے بھی سر پہ واقعی عورت کا ہاتھ ہے
   ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد