Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 29, 2019

روُیت ہلال۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا مودودی کی ایک تحریر۔


از: مولانا ابوالاعلی مودودیؒ / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لئے شمسی حساب کی بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تمام گردشوں میں ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں ۔مثلا رمضان کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے ، اور اہل ایمان ان سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں ۔اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اوران سب طرح کے اچھے اور برے حالات میں خدا کی رضاکے لئے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں ۔
شمسی حساب کو عبادات کی بنیاد قرار دینے کی یہ قباحت بھی بالکل واضح ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ ہر مسلمان کے لئے یا تو فلکیات اور نجوم کا علم حاصل کرنا فرض ہوجاتا یا جنتری اس کے دین کا جزو بن جاتی ،جسے پاس رکھے بغیر وہ فرائض ادا نہ کر سکتا۔اس لیے اس کے بجائے آسمان کے اوپر ہر ماہ جنتری کا جو بہت بڑا ورق الٹتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو تاریخیں جاننے کا ذریعہ بنایا تاکہ اگر کوئی آدمی صحرا میں زندگی گزار رہا ہو یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس کی کٹیا بنی ہوئی ہو تو وہ بھی اسے دیکھ کر معلوم کرلے کہ اب رمضان کا چاند ہو گیا ہے اور روزے شروع ہو گئے ہیں ،یا شوال کا چاند نکل آیا ہے اور کل عید الفطر ہے ۔
رؤیت ہلال کے سلسلے میں مطلع غبار آلود ہونے کی صورت میں جو دقت پیش آسکتی ہے اس کے متعلق یہ ہدایت کر دی گئی کہ ۲۹کو چاند نظر نہ آنے کی صورت میں مہینے کے ۳۰دن پورے کئے جائیں اس طرح تذبذب کو ختم کر دیا گیا جو ۲۹تاریخ کو چاند نظرنہ آسکنے کی وجہ سے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے ۔
بعض لوگوں کو اس زمانے میں سائنس کا ہیضہ ہو گیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ صاحب یہ سائنس کا زمانہ ہے ۔اس کے اندر تو بڑی آسانی کے ساتھ اس بات کی تحقیق کی جا سکتی ہے کہ چاند ہوا یا نہیں ۔مطلع پر چاند اگر موجود ہو اور فضا صاف نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آرہا ہو تو ایسے حالات موجود ہیں جن کی مدد سے اس کو دیکھا جا سکتا ہے خود علم فلکیات اور علم نجوم(Astronomy)کے ذریعے سے بھی اس بات کا تعین کیاجاسکتا ہے کہ آج چاند ہو گا یا نہیں ۔۔۔۔لیکن یہ لوگ دراصل اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ایک عالم گیر دین کبھی مصنوعی ذرائع پر انحصار نہیں کر سکتا۔وہ ہمیشہ انہی ذرائع پر انحصار کرے گا جو زیادہ سے زیادہ فطری ہوں اور جن پر اعتماد کر کے جدید ترین سائنسی ترقیوں سے بہرہ ورلوگ بھی اس دین پر عمل پیرا ہوسکیں ،اور وہ لوگ بھی ایک سچے مسلمان کی سی زندگی بسر کر سکیں جو ان ترقیوں کے ثمرات سے محروم یا ناآشنا ہوں ۔
رؤیت ہلال کے لئے سائنسی ذرائع کو اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے حضرات کی طرف سے ایک یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس طریقے سے سب مسلمانوں کی عید(کم از کم پاکستان میں)ایک ہی دن ہو سکے گی کیونکہ عید اسلامی اتحاد کا ایک اہم نشان ہے اور رؤیت ہلال میں اختلاف واقع ہو جانے سے مسلمانوں کے اس اتحاد کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ان میں سے کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک ہی دن ہو نی چاہئے لیکن درحقیقت یہ فکرو نظرکی غلطی ہے ۔ایسی باتیں دین سے ناواقفیت کی بنا پر کی جاتی ہیں اور یہ باتیں زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں جو رمضان کے روزے تو نہیں رکھتے مگر عید کے معاملے میں اسلامی اتحاد کی انہیں بڑی فکرہے ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ہونی چاہئے وہ تو بالکل ہی لغو بات کہتے ہیں ،کیونکہ تمام دنیا میں رؤیت ہلال کا لازما اور ہمیشہ ایک ہی دن ہونا ممکن نہیں ہے ۔رہا کسی ملک یا کسی ملک کے ایک بڑے علاقے میں سب مسلمانوں کی ایک عید ہونے کا مسئلہ تو شریعت نےاس کو بھی لازم نہیں کیا ہے ۔یہ اگر ہو سکے اور کسی ملک میں شرعی قواعد کے مطابق رویت کی شہادت اور اس کے اعلان کا انتظام کر دیاجائے تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے ، مگر شریعت کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں ہے کہ ضرور ایسا ہی ہونا چاہئے اور نہ شریعت کی نگاہ میں یہ کوئی برائی ہے کہ مختلف علاقوں کی عید مختلف  دنوں میں ہو۔خدا کا دین تمام انسانوں کے لیے ہے اور ہر زمانے کے لئے ہے ۔‘‘