Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 29, 2019

صدقہ فکر روزہ میں نقص وکمی کی تلافی کا ذریعہ ہے۔


تحریر// محمد قمرالزماں ندوی/ صدائے وقت۔
    . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
             *صدقئہ فطر*  در اصل روزہ میں واقع ہونے والی کوتاہی اور نقص و کمی کی تلافی اور غرباء کو عید الفطر کے موقع پر اپنی خوشی و مسرت میں شریک کرنے کا ذریعہ ہے، اسی لئے ہر صاحب نصاب پر یہ *صدقئہ فطر* واجب ہے ۔
            *مذہب اسلام* اور شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئ *عید و تہیوار* اور خوشی و مسرت کا موقع آئے تو صرف امیروں اور مالداروں کے دولت کدہ اور محلوں ہی میں خوشی و مسرت اور فرحت و شادمانی کا چراغ اور قمقمے نہ جلے بلکہ غریبوں محتاجوں اور ناداروں کے غربت کدہ اور جھونپڑیوں میں بھی خوشی و مسرت کی روشنی پہنچے اور قمقمے جلے ۔ اسی لئے شریعت میں ہر ایسے موقعہ پر سماج کے غریب اور محتاج افراد کو یاد رکھنے اور اپنی خوشی میں شریک کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اسی لئے  بقرعید کے موقع پر بھی قربانی میں ایک تہائی حصہ غریبوں کا حق قرار دیا گیا ہے ۔ *ولیمہ* کے بارے میں بھی *آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا : 

جس *ولیمہ* میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے وہ بدترین *ولیمہ* ہے ۔
غرض *اسلام* نے *عید الفطر* کی خوشی میں غرباء اور مساکین کو شریک کرنے کے لئے اور روزے میں پیش انے والی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی اور بھر پائ کے لئے *صدقئہ فطر* کو ہر *صاحب نصاب* پر لازم قرار دیا ہے ۔
                 *حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما* سے روایت ہے کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے مرد و عورت پر *صدقئہ فطر* کو فرض کیا ہے ،جو ایک *صاع* کجھور یا جو ہونا چاہئے ( بخاری ،۱۵۱۱)  *صحابہ کرام رضی اللہ عنھم* اہتمام سے *صدقئہ فطر* ادا کرتے تھے ( بخاری شریف ۱۵۰۶)
روایت میں آتا ہے *عمرو بن شعیب* حدیث کے  راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک شخص کو * مکہ* بھیجا کہ مکہ کے گلی کوچوں میں اعلان کردے کہ صدقئہ فطر واجب ہے ۔ (ترمذی جلد ، ۱ باب ما جاء فی صدقة الفطر)
*زکوة* ہی کی طرح *صدقة الفطر* نکالنے کا حکم *ہجرت* کے دوسرے سال آیا ۔ اور جیسا کہ بتایا گیا اس کا ایک مقصد محتاج اور غرباء کی مدد کرنا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو اس صدقہ کے زریعہ اس کی تلافی ہوجائے ۔
         یہ حقیقت ہے کہ روزہ دار روزہ کی حالت میں اگر چہ مجسم نیکی اور تقوی و طہارت کی کیفیت میں ہوتا ہے اس کے مادی جسم میں ملکوتی یعنی فرشتوں جیسی روح پیدا ہوجاتی ہے وہ جھوٹ ،بدگوئ، لا یعنی،چغلی ،بدکلامی ایذا رسانی اور حق تلفی اور ہر طرح کی برائیوں سے دور رہتا ہے یا کم از کم دور رہنے کی کوشش اور  اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ انسان ہے فرشتہ نہیں، اور انسان خطا و چوک اور لغزش کا مرکب و مجموعہ ہے اس لئے ہزار کوششوں کے باوجود اس سے غلطیاں اور لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں ۔ زبان سے بے ہودہ اور لا یعنی باتیں نکل ہی جاتی ہیں اس لئے قدرتی طور پر روزوں کا بالکل بے داغ اور ہر نقص و عیب اور کمی و کوتاہی سے پاک رہنا ممکن نہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زریعہ سے روزہ داروں کو اس طرح کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کرنے کے لئے صدقئہ فطر کو ادا کرنے کا حکم دیا ۔
    *حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما* سے روایت ہے کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے *زکوة فطر* مقرر فرمائ کہ لغو اور بے ہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور مساکین کے خورد و نوش کا انتظام ہو جائے ۔    
                     ویسے *فطر* کے معنی روزہ افطار کرنے اور کھولنے کے ہیں، رمضان المبارک کے روزوں سے فراغت کے بعد اللہ تعالی نے اپنے مسلمان بندوں پر ایک صدقہ لازم کیا ہے ، جسے ۰۰صدقئہ فطر۰۰ کہا جاتا ہے ،بعض علماء اور اہل علم نے صدقئہ فطر کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۰۰ فطر۰۰ کے معنی خلقت اور ذات کے ہیں، گویا یہ آدمی کی ذات اور نفس کا صدقہ ہے ۔ ۰۰صدقئہ فطر ۰۰ کی تعبیر اسلامی ہے ،اس لئے علامہ نووی رح نے لکھا ہے :
*ھی لفظة مولدة لا عربیة ولا معربة بل ھی اصطلاحیة للفقھاء* ( العمدة للعینی ؛ ۹/۱۰۷)  یعنی یہ عربی زبان میں ایک نیا لفط ہے ،نہ عربی ہے اور نہ معرب بلکہ فقہاء اسلام کا اصطلاحی لفظ ہے ۔ *علامہ عینی رح* نے لکھا ہے کہ ۔۔ *اسلامی لفظ* ۔۔ کہنا زیادہ بہتر ہے ۔
               ۰۰صدقئہ فطر۰۰ کے دوسرے نام بھی ہیں، لیکن وہ سب زیادہ مشہور و معروف نہیں ہیں ۔ جیسے  زکوة الفطر ،زکوة رمصان،زکوة الصوم، زکوة الابدان،صدقة الصوم اور صدقة الروؤس وغیرہ