Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 30, 2019

٢۵ واں رمضان۔۔۔۔۔۔۔۔٢۵ واں سبق۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسلے وار تحریر۔


رمضا ن : حفظِ اوقا ت کا بہترین ذریعہ ہے۔
عربی تحریر: الدكتور الشیخ عائض القرنی زیدت معالیكم
اردو ترجمانی : وصی اللہ سدھارتھ نگر یو پی۔
------------------------------------------------
صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی ختم ہو تے دیر نہیں لگتی ، دن اور را ت کے لمحا ت گزر تے رہتے ہیں ، انسا ن کواحسا س بھی نہیں ہوتا ،ایک عر بی شاعر کہتا ہے :کہ ’’انسا نی دل کی دھڑکن ،اس کو اس بات کی خبر دیتی ہے کہ زندگی چند منٹو ں او ر سیکنڈو ں کا نام ہے، لہذا مو ت سے پہلے زندگی کے کردار کو بلند کر لو،اللہ کا ذکر کر و !کیو ں کہ ذکر انسان کے لیے دوسر ی زندگی کا نا م ہے ، اس لیے انسا ن کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ، جو لو گ لہو ولعب میں اور یو ں ہی بلا مقصد زندگی ضا ئع کر دیتے ہیں ، قیا مت کے د ن اللہ تعا لی ان سے بڑا سخت حساب کر یں گے‘‘ ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کے با رے میں پوچھ تا چھ ہو گی ، قرآن کہتا ہے،! ’’قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّیْنَ قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیْلاً لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکَ الْحَقُّ لاَ اِلٰہ إِلاَّ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ‘‘۔ (المؤمنون: ۱۱۲، ۱۱۶)
کسی اللہ والے نے بہت درست بات کہی ہے کہ :’’ زندگی بہت کم ہے، لہٰذا غفلت سے گزا ر کر اس میں مزید کمی پیدا نہ کرو ، کیو ں کہ غفلت ولا پرواہی اوقا ت میں کمی پیدا کر تی ہے اور راتو ں کو ضا ئع کر دیتی ہے ‘‘ایک حدیث میں رسو لؐنے فا رغ البا لی کو خسا رے کا سبب قرار دیا ہے، فر مایا !’’نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنُ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّۃُ والفَرَاغُ ‘‘یعنی دو نعمتیں ایسی ہیںکہ اکثر لو گ ان کے حوالے سے نقصان کاشکا ر ہیں ،ایک تو تندرستی ہے اوردوسرے فا رغ البالی اور واقعہ بھی یہی ہے کہ معا شرہ میں بہت سے صحت مند ، فا رغ لو گ ایسے ہیں کہ ان کے اوقات بلا کسی مقصد کے گزر جاتے ہیں؛ لیکن وہ فا ئدہ اٹھاناجا نتے بھی نہیں ، اسی لیے ایک دوسر ی حدیث میں اللہ کے رسو ل ؐنے اس حوالے سے اپنی امت کو متنبہ کیا ہے، فر ما یا! ’’لاَ تَزُوْلاَ قَدْمَا عَبْدٍ یَوْمٍ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ وَذَکَرَ عُمُرَہُ فِیْمَا أَبْلاَہُ ‘‘یعنی قیا مت کے دن پر وردگا ر کے سامنے سے بندے کے قدم اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتے،جب تک کہ اس سے چا ر چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جا ئے ، ان چا روں میں ایک چیز ’’عمر‘‘ بھی ہے ، جس کے متعلق یہ سوال ہو گا کہ کہا ں اس کو خر چ کیا ہے،یہ ایک سچا ئی ہے کہ عمرکسی خزانہ سے کم نہیں ، جو اس کو اللہ کی اطا عت وفر ما ں بر دا ری میں گز ارے گا تو اس کو اس کا اجر اس دن ملے گا جس دن کہ ما ل اور اولاد کچھ کام نہ آئیں گے ، اور اگر عمر کوغفلت و معا صی اور لہو ولعب میںگزارے گا توایسی ندا مت کا سا منا کر ے گاکہ بجز کف افسوس ملنے کے کچھ اورحا صل نہ ہوسکے گا ، اس کی زبا ن سے ’’یا حسرتنا علی ما فر طنا فیہا ‘‘ کے کلما ت جاری ہو ں گے ۔
دن اور رات انسا ن کے لیے ایک سو اری کے مانند ہیں ، اب انسا ن کے اختیارمیں ہے کہ اس سو اری کو اپنا کر خواہ سعادت و نیک بختی کی منزل تلا ش کرے ، یاشقا وت و بد بختی اور خسا رے کی ۔
ایک نظر ہمیں اپنے اسلا ف کی زندگیو ں پر ڈالنے کی ضر ورت ہے،تا کہ ہمیں معلو م ہوسکے کہ وہ اپنے اوقا ت کی حفاظت کس طرح کرتے تھے ؟
چنا ں چہ اس با بت جب ہم تلا ش وجستجو کر تے ہیں تو عجیب وغریب اور قسم قسم کے واقعا ت ملتے ہیں ، حضرت جنیدبن محمدؒ کا واقعہ ہے، کہ مر ض الموت میں ہیں ، مو ت سے چند لمحہ پہلے کی بات ہے کہ قر آن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں ، اتنے میں آپ کے لڑکے سو ال کر تے ہیں کہ :آپ کیو ں اپنے آپ کو اتنی زیادہ مشقت میں ڈا ل رہے ہیں ، تو فرما یا!کہ ’’اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کا مجھ سے زیادہ کسی کو حق بھی نہیں‘‘اسودبن یزید ؒایک تابعی گزرے ہیں !آپ رات کے اکثر حصہ میں نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ کے شا گردوں نے کہا !حضرت تھو ڑا آرام کر لیا کریں !فرما یا !آخر ت میں راحت وآرام کے لیے ہی اس دنیامیں مشقتیں برداشت کر رہا ہوں !سفیا ن ثو ری ؒایک مر تبہ کچھ لو گوں کے سا تھ حرم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ، کہ اچانک ایک صا حب گھبراکر یہ کہتے ہوئے اٹھے! ہائے افسو س ہم بیٹھے رہ گئے اور دن تو اپناکام کررہاہے ۔
ہما رے اسلا ف میں کچھ لو گ ایسے گز رے ہیں جنہو ں نے اپنے ہر کا م کے لیے وقت مقر رکر رکھا تھا !چنا ں چہ نما ز ، تلاوت ،ذکر، تحصیل علو م ، طلب معا ش ، اور سو نے کے لیے ان کے یہا ں الگ الگ اوقا ت مقر ر تھے ، لیکن !قر با ن جا ئیے کہ کھیلنے کے لیے کوئی وقت نہیںمقر ر تھا۔
یہ تو ہما رے اسلا ف کی پا کیزہ زندگی تھی ، اس کے بر خلا ف آج کایہ عالم ہے کہ عام طور پر لو گ ضیا ع ِوقت کے شکا ر ہیں (الا ما شا ء اللہ) کثر ت نو م، بے روزگا ر ی، غفلت و لا پر واہی ، بیکا ری ، مبا ح او رلہو و لعب میں اسراف ایک عا م با ت ہو چکی ہے، بلا مقصد کی مجلسیں ، اِدھر اُدھر کی ملا قا تیںبھی کچھ کم نہیں ؛اگر کسی کا م میں حقیقتًا معصیت نہ ہو تو اس طرح وقت گز اری سے معصیت آہی جا تی ہے۔
اس لیے پنج وقتہ نما زوں کی پا بندی کرکے ہمیں اپنے اوقا ت اور اپنی زندگی کو منظم طو ر پر گزا رنے کی ضرورت ہے، فجرکے بعد حفظ وتلا وت اور ذکر کا وقت ہو ،زوا ل سے ظہر تک طلب معاش اور تحصیل علم کا وقت ہو ، ظہر کے بعد کا وقت  مطا لعے کے لیے خا ص ہو ،عصر کے بعد لا ئبریر ی اور تحقیق مسائل کا وقت ہو ، مغر ب کے بعد دوست و احبا ب اورمتعلقین سے ملا قا ت کا وقت ہو ،عشا ء کے بعد کا وقت گھر والو ں کے لیے، سونے کے لیے ، پھر تہجد کے لیے ہو ، جمعرا ت کا دن آرام وراحت اور تفر یح کے لیے ہو، جمعہ کے دن پہلے صبح سویرے اٹھنا، مسو ا ک کر نا، غسل کر نا ، خوش بو لگا نا ، الغرض جمعہ کی تیاری کر نا اور عبا دت ، تلاوت ذکرو اذکار وغیرہ میں مشغول ہو جا نا ، یہ ایک تخمینی نظام الاوقات ہے،ہر انسا ن اپنے مشاغل کو سامنے رکھ کر حسب ضرور ت بتدیلی کر سکتا ہے۔
رمضا ن کا مہینہ اوقا ت کو منظم کر نے کے لیے بہت بہتر ہے، ایک انسا ن چاہے تو اس ما ہ میں ایک نظام الاوقا ت طے کرلے اور پھر زندگی کی قیمتی سا عتو ں سے فا ئدہ اٹھاکر زندگی کو قیمتی بنائے ، اور اپنے پر وردگا ر کا قر ب حا صل کرے ؛نیز یہ کام اس ما ہ میں کچھ مشکل بھی نہیں ،
روزہ دار عبا دت کے لیے دن میں خا لی ہو تا ہے، کھا نا کھانے ، کھا نے کی تیاری وغیر ہ کا مو ں میں جو اوقا ت خر چ ہوتے ہیں ، انسا ن اس ما ہ میں اس سے محفو ظ ہوجا تا ہے، پس سا را وقت عبا دت اور اعما لِ صا لحہ ہی کے لیے تو ہے، آج کی اس دنیا میں کچھ لو گوں کا حا ل تو یہ ہے کہ انہیں روزہ کا معنی بھی نہیں معلو م ، ایسے لو گ بہت بڑی غفلت اور بہت بڑی تا ریکی میں ہیں، کہ دن تو سو کر گز ار دیا اور رات کو یوں ہی بے مقصد ضا ئع کر دیا ، ایسے لو گو ں کو عر بی کی یہ نصیحت یا د رکھنی چا ہیے !’’ اے وہ لو گو!جو عمر کے لمحات ضائع کردیتے ہو یاد رکھو !کہ ا س کا بدل نصیب نہ ہو سکے گااور زندگی کے معا ملے میں مافا ت کی تلافی بھی نہیں ہے، عمر کو خسا رے میں گز ا رنے والوںکو اس کی حقیقت اور قیمت کا علم تو بعد میں ہو گا ۔
خدا یا !ہما ری نظروں میں ہما ری زندگیوں کو قیمتی بنا!اپنی اطا عت و فر ما ں بر دا ری کی تو فیق مر حمت فر ما! ۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین