Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 22, 2019

کیا رمضان میں چندہ ضروری ہے ؟ ایک فکر انگیز تحریر۔

١.  کیا رمضان ہی میں چندہ ضروری ہے؟
٢. کیا رمضان میں چندہ رمضان کے تقدس کی پامالی ہے؟
٣. کیا رمضان میں چندہ کرنے کے بہانے روزہ تراویح وغیرہ چھوڑ نا اور مسلسل چھوڑنا جائز ہے؟
ان جیسے سوالوں پر مشتمل ایک فکر انگیز تحریر.
_________________________
مولانا عظیم اللہ صدیقی/صداۓوقت
*رمضان میں چندہ؟*
_______________________
رمضان المبارک عبادتوں اور دعاؤں میں استغراق کا مہینہ ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت سے معلوم ہوتاہے کہ جب رمضان المبارک آتا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور آپ کی نماز زیادہ ہوجاتی اورآپ اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعاء کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے  (بیہقی، شعب الایمان)۔اسی طرح سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ کا معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رات کا بیشتر حصہ جاگ کر گزارتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور عبادت میں خوب محنت کرتے اور کمر کس لیتے (مسلم)
اس طرح کی بہت ساری روایتیں ہیں جو رمضان میں عبادت کے لیے یکسوئی اور تبتل پر دلالت کرتی ہیں، نیز پیغمبر اسلام کے ذریعہ یاد الہی، عبادت، رجوع الی اللہ کے لیے کمر کسنے کا ذکر ملتاہے۔ مگر دوسری طرف امت کے علماء وصلحاء کی بڑی تعداد کے احوال ہیں، جن کو نائبین رسول بھی کہاجاتاہے، وہ اس کے برعکس کمر تو کستے  ہیں مگر چندہ جمع کرنے کے لیے۔ یہاں یہ بات صاف کردینا ضروری ہے کہ دینی مدارس، مظلوموں اور ضرور ت مندوں کے لیے چندہ جمع کرنا کوئی کمتر چیز نہیں ہے۔ احادیث کریمہ میں ایسا کرنے والے کو ’غازی فی سبیل اللہ اور مجاہد فی سبیل اللہ‘ کہا گیا  ہے (ترمذی)۔ مگرکیا  چندہ جمع کرنا رمضان المبارک کی عبادتوں سے زیادہ افضل ہے یا چندہ جمع کرنا رمضان میں روزہ رکھنے سے زیادہ ضروری ہے، کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ چندہ غیر رمضان مثلاشعبان یا شوال میں جمع کیا جائے؟یہ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو ان دنوں مختلف ذرائع سے سامنے آرہے ہیں۔
اگر جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ سوالات غلط نہیں ہیں،بھلے ہی ارباب مدارس کے پاس سو دلائل ہوں:مثلا دور نبوت میں کئی غزوات رمضان کے مہینے میں ہوئے، اسی طرح امت کے معمولات میں رمضا ن میں کوئی فر ق نہیں ہوتا، لوگ کاروبار وغیرہ اس ماہ میں حسب سابق انجام دیتے ہیں، اس لیے چندہ کو بہانہ بنا کر اگر کوئی عبادت ترک کردیتا ہے تو اس کی کوتاہی ہے، نہ کہ چند ہ کی۔ دوسری بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ رمضان المبارک صدقہ اور خیرات کا مہینہ ہے،  صاحب ثروت حضرات اسی ماہ میں زکوۃ نکالنا پسند کرتے ہیں، ا س لیے اگر اس مہینہ میں سفراء نہ جائیں تو ٹھیک طریقے سے  چند ہ نہیں ہو پائے گا۔
جہاں تک اول الذکر دلیل کی بات ہے تو اسے دور حاضر میں مسلمانوں کے  احوال پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔ صحابہ کرام امت کے بہترین افراد تھے، ان کی ز ندگی جہد مسلسل اور قربانیوں سے عبارت تھی، ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ہے کہ غزوہ خندق میں سخت محنت کرنے کے باوجود کسی صحابی رسول نے روزہ توڑا ہو یا ان کے معمول میں کوئی بڑا فرق پڑا ہو، مگر اس کے برعکس آج کے دور کے افراد چاہے وہ علماء ہی کیوں نہ ہوں، وہ سفر کے جواز کی وجہ سے یا چندہ میں درپیش کلفت کی وجہ سے نہ صرف روزہ توڑنے اور تراویح ترک کر نے پر مجبور ہیں بلکہ کھلے عام کھانے پینے کی وجہ سے رمضان کے بابرکت ماحول کو خراب کرتے ہیں اور لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔بڑے شہروں بالخصوص ممبئی، بنگلور اور دہلی میں یہ ننگی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔جہاں تک رمضان میں اہل ثروت کی بات ہے تو ایک مزاج بن گیا ہے اور یہ مزاج علمائے کرام نے ہی بنایا ہے۔امت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ رمضان میں ہی زکوۃ نکالنا چاہیے، حالاں کہ زکوۃ کا تعلق ایک سال مکمل ہو نے سے ہے، جس کو عربی میں ’حولان حول‘ کہتے ہیں،نہ رمضان میں زکوۃ دیناسنت ہے اور نہ واجب۔ جہاں تک صدقہ الفطر کا معاملہ ہے، تو وہ اپنے اصل کے اعتبار سے بھلے ہی مساکین کے لیے ہو مگر ہدف کے اعتبار سے عید کی خوشی میں غریبوں اور ناداروں کوشامل کرنا ہے۔ اب بھلا کوئی یہ بتائے کہ کیا اہل مدارس اس کے حقد ار ہیں؟عید کے موقع پر کسی بھی مدرسے میں بچے نہیں رہتے، ایسی صورت میں فطرہ لے کر اسے بینک میں جمع کرنے کی کیسے اجازت ہو سکتی ہے، جب کہ وہ ہدف کے اعتبار سے عید کی خوشی میں دوسروں کو شامل کرنے کے لیے ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات کچھ لوگوں کے لیے قابل اعتراض ہو، مگر راقم اس پر بحث کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔اس لیے یہ بھی صاف ہو گیا کہ رمضان کے مہینے میں زکوۃ نکالنا کوئی ضروری نہیں ہے،اگر امت کے علماء اپنے خطاب میں یہ کہہ دیں کہ لوگ شعبان میں ہی زکوۃ نکال دیں تا کہ رمضان کی عبادت میں زکوۃ نکالنے والوں کو بھی رکاوٹ نہ ہو اور نہ ہی زکوۃ لینے والوں کو، تو اس سے بہتر کچھ نہ ہو گا۔
صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے اسلاف کا بھی یہ طریقہ تھا کہ وہ رمضان المبارک سے پہلے ہی اپنی ضرورتوں کو پوری کرلیتے اور رمضان میں زیادہ زیادہ ذکر، عبادت میں لگے رہتے۔ حضرت اسود بن یزید ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہر چیز سے کنارہ کشی کرلیتے اور کلی طور پر تلاوت کلام پاک میں مصروف ہو جاتے، اسی طرح سعید بن جیبر ؓ کاواقعہ ہے۔امام دار الہجرہ حضرت مالک بن انس ؓرمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی ہر چیز سے دست بردار ہوجا تے یہاں تک کہ احادیث مبارکہ کی تدوین وتالیف،بحث و تحقیق اور اہل علم کے ساتھ نشست و برخواست سے علیحدگی اختیار کرلیتے اور تلاوت کلام پاک میں مصروف ہوجاتے۔
دوسری طرف رمضان المبارک میں خود رحمت عالم صلی اللہ نے مزدوروں کے ساتھ روزہ میں کم کام لینے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس نہ کریں۔ اب ایسے میں چندہ کے لیے اپنے ماتحتوں کو مجبور کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کیوں کہ بہت سے اہل مدارس چندہ کے لیے لوگوں کو مجبور کرتے پائے گئے ہیں۔بہر صورت رمضان ا لمبارک جس مقصد کے لیے ہے، اس سے ہٹ کرپ اپنے کو دوسرے مقصد میں جھونک دینا بالکل ہی غیر مناسب ہے۔ پاکستان کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل تو یہاں تک کہتے ہیں کہ رمضان تو علم کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں تعلیم و تعلم بھی بند نہیں ہو نا چاہیے، چنانچہ وہ اپنے قائم کردہ مدرسہ میں رمضان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب بھی اس کے خلاف ہیں کہ رمضان جیسے مبارک مہینہ میں عبادت سے دو رکرنے والا کام کیا جائے، وہ تو اپنی مجالس کو بھی رمضان میں روک دیتے ہیں، یہی معمول ماضی او رحال میں اپنے ملک میں بھی ہمارے اکابر کا رہا ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان میں چندہ کا سلسلہ بند کیا جائے اور اس کا کوئی متبادل حل نکالا جائے۔