تاریخ وفات- ٤ ؍مئی؍ ١٩٦٣*/ صدائے وقت۔
*مزاحیہ افسانہ نگار، اخبار نویس، کہانی نویس اور معروف شاعر” شوکت تھانوی...*
*شوکتؔ تھانوی* نام *محمد عمر، شوکتؔ* تخلص۔ *۳ ؍فروری ۱۹۰۴ء* کو *بندرابن ، ضلع متھرا (یوپی)* میں پیدا ہوئے۔بچپن ریاست بھوپال میں گزرا جہاں ان کے والد انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کے والد لکھنو آگئے۔ *شوکت تھانوی* کو زمانہ طالب علمی ہی میں شعروسخن سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ *مولانا عبدالباری آسی* سے مشورہ سخن کرتے تھے۔اخبار نویسی سے ذمہ دارانہ زندگی کی ابتدا ہوئی۔ روزنامہ *’’ہمدم‘‘* کے عملہ ادارت میں شامل ہوگئے۔ ۱۹۳۰ء میں ان کا مشہور مزاحیہ افسانہ *’’سودیشی ریل‘‘* شائع ہوا۔ روزنامہ *’’اودھ اخبار‘‘* کے مدیر اعلی کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اخبار نویسی کے۔ مزاحیہ افسانوں کے مجموعے اور ناول وغیرہ پچاس سے زیادہ شائع ہوچکے ہیں۔ *’’گہرستان‘‘* کے نام سے ان کا شعری مجموعہ چھپ گیا ہے۔ *۴؍مئی ۱۹۶۳ء* کوانتقال کرگئے
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
*معروف شاعر شوکتؔ تھانوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...*
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
*معروف شاعر شوکتؔ تھانوی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت...*
![]() |
شوکت تھانوی |
دھوکا تھا نگاہوں کا مگر خوب تھا دھوکا
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی
---
اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا
اک خواب تھا اور خواب بھی تعبیر نما تھا
---
*حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا*
*مرا دل تیرا جلوہ تھا ترا جلوہ مرا دل تھا*
---
رسوا بقدر ذوقِ تمنا نہیں ہوں میں
اپنے عروج پر ابھی پہونچا نہیں ہوں میں
---
*جو ہم انجام پر اپنی نظر اے باغباں کرتے*
*چمن میں آگ دے دیتے قفس کو آشیاں کرتے*
---
انہیں کا نام محبت انہیں کا نام جنوں
مری نگاہ کے دھوکے تری نظر کے فریب
---
*دیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بت خانے میں ہے*
*ڈھونڈھتا ہوں جس کو میں وہ میرے کاشانے میں ہے*
---
صاف تصویریں نظر آتی ہیں حسن و عشق کی
تجھ کو میرے عجز میں اور مجھ کو تیرے ناز میں
---
وفا میں ہے وفائی ہے وفائی میں وفا کیسی
وفا ہو تو جفا کیوں ہو جفا ہو تو وفا کیوں ہو
---
*یہاں جزا و سزا کا کچھ اعتبار نہیں*
*فریب حد نظر ہے عروج دار نہیں*
---
پست ہوتی ہے جہاں اہل دلا کی ہمت
اس جگہ کام غریبوں کی دعا آتی ہے
---
مذاق شکوہ اچھا ہے مگر اک شرط ہی اے دل
یہاں جو یاد کر لینا وہاں جا کر بھلا دینا
---
*عبرت فزا ہے اہل زمانہ کے واسطے*
*شوکتؔ وہ داستاں جو کسی نے سنی نہیں
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی
---
اب بعد فنا کس کو بتاؤں کہ میں کیا تھا
اک خواب تھا اور خواب بھی تعبیر نما تھا
---
*حقیقت سامنے تھی اور حقیقت سے میں غافل تھا*
*مرا دل تیرا جلوہ تھا ترا جلوہ مرا دل تھا*
---
رسوا بقدر ذوقِ تمنا نہیں ہوں میں
اپنے عروج پر ابھی پہونچا نہیں ہوں میں
---
*جو ہم انجام پر اپنی نظر اے باغباں کرتے*
*چمن میں آگ دے دیتے قفس کو آشیاں کرتے*
---
انہیں کا نام محبت انہیں کا نام جنوں
مری نگاہ کے دھوکے تری نظر کے فریب
---
*دیر میں ہے وہ نہ کعبہ میں نہ بت خانے میں ہے*
*ڈھونڈھتا ہوں جس کو میں وہ میرے کاشانے میں ہے*
---
صاف تصویریں نظر آتی ہیں حسن و عشق کی
تجھ کو میرے عجز میں اور مجھ کو تیرے ناز میں
---
وفا میں ہے وفائی ہے وفائی میں وفا کیسی
وفا ہو تو جفا کیوں ہو جفا ہو تو وفا کیوں ہو
---
*یہاں جزا و سزا کا کچھ اعتبار نہیں*
*فریب حد نظر ہے عروج دار نہیں*
---
پست ہوتی ہے جہاں اہل دلا کی ہمت
اس جگہ کام غریبوں کی دعا آتی ہے
---
مذاق شکوہ اچھا ہے مگر اک شرط ہی اے دل
یہاں جو یاد کر لینا وہاں جا کر بھلا دینا
---
*عبرت فزا ہے اہل زمانہ کے واسطے*
*شوکتؔ وہ داستاں جو کسی نے سنی نہیں