Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 27, 2019

٢٢ واں روزہ۔۔۔۔۔٢٢ واں سبق۔۔۔۔۔۔۔رمضان المبارک کے موقع پر سلسے وار تحریر۔

رمضان.  آحیاء سنت کا بہترین موقع۔
تحری  شیخ عائض القرنی
ترجمہ وصی اللہ سدھارتھ نگر۔یو پی۔صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اما م العا لمین ،قدوۃ الانا م، حضر ت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آخر ی اور ابدی شریعت ہے،دنیا وآخر ت کی سعا دت ونیک بختی کا راز آپ کی اتبا ع میں مضمر ہے، فو زو فلا ح آپ ؐہی کے طریقہ ٔکا ر میں ہے ، ارشا د خداوندی ہے: ’’اَلَّذِیْنَ یَتِّبِعُوْنَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَ أَلَّذِيْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِيْ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ، یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ‘‘ (الأعراف: ۱۵۷) اگر کوئی انسا ن دنیا میں سکو ن واطمینا ن کی زندگی اور مرنے کے بعد جنت کا خواہش مند ہے، تو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ ٔ کارکے بغیر چا رہ نہیں ، سنت نبو ی کی مثا ل سفینۂ   نوح کے مانند ہے، کہ حضرت نو ح علیہ السلام کی کشتی میں جو شخص بھی داخل ہوا اسے نجا ت ملی ، اور جو اس میں داخل ہو نے سے رہ گیا ،ہلا کت وبر با دی اس کا مقدر بن گئی: ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ‘‘ (الأحزاب: ۲۱)اسی لیے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنی سنت پر عمل پیرا ہو نے اور بدعا ت سے بچنے کا حکم دیا ہے: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ مِنْ بَعْدِيْ، عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ‘‘ایک دوسری حدیث میں طریقۂ سنت سے عدو ل کرنے والوں سے برأت کا اظہا ر کیاگیا ہے، فر ما یا !’’مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ‘‘ایک اور مقا م پر سنت سے ہٹ کر زندگی گزا رنے والو ں کے اعمال وافعا ل کو مر دود قر ار دیتے ہوئے فر مایا !’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصریحا ت اور آپ کے فر مو دا ت مسلما ن کو دعوت فکر دے رہے ہیں ، سا تھ ہی قر آن کریم بھی اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے بتا ئے ہوئے راستو ں اور فیصلو ں سے اعر اض کو نا جا ئز قر ار دیتا ہے: ’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ ‘‘ (الأحراب: ۳۶)اسی طرح قرآن نے ایک دوسرے مو قع پر اللہ اور رسو ل کے علا وہ کسی او ر کے طریقہ کو اپنا نے کو بہت وا ضح الفا ظ میں منع کیا ہے؛نیز تقو ی کا بھی حکم دیا ہے، فر ما یا ! ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ‘‘ (الحجرات: ۱)ما ہ رمضا ن سنت ِمطہر ہ پر عمل پیراہو نے کا بہتر ین مو سم ہے، انسا ن چاہے تو اس مبا رک ما ہ میںخود اپنی ذات پر بھی نبو ی طریقوں کو نا فذ کر سکتا ہے،اور اپنے گھر اورمعا شرہ میں بھی ، ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ایسی ہی عا م سنتیں نقل کی جا رہی ہیں ؛جن سے ہما را معاشرہ اعراض کا شکا ر ہے،ایک روزہ دا ر؛بلکہ ہر مسلما ن کو ہر وقت اس پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے:ایک حدیث میں آپ ﷺارشا د فر ما تے ہیں ، دس چیزیں فطر ت سے متعلق ہیں ، مو نچھ کا ٹنا ، داڑھی بڑھا نا:ناک صا ف کر نا ، نا خو ن تر اشنا ، جو ڑو ں کو دھلنا، بغل کے با ل اکھاڑنا ، موئے زیر نا ف صا ف کر نا ، پا نی کم استعما ل کرناایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کو لٹکا نے سے منع فرمایا کہ اللہ اس شخص پر شفقت کی نظر نہیں ڈالیں گے جو تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑاگھسیٹتا ہے، (مسلم )
ایک دووسرے مقا م پر فر ما یا !
کہ جس شخص کا کپڑا ٹخنو ں سے نیچے ہو گا وہ دوزخ میں ہو گا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ہدا یا ت بہت وسیع ہیں ، یہ اپنے دامن میں اسرا رو حکم رکھتی ہیں، کہ ان کا لطف وہی شخص اٹھا سکتا ہے، جوان پر عمل پیرا ہو! آپ کی سنتیں اسی پر تما م نہیں ہو تیں ، آپ نے انسا نی فطرتو ں کا پاس و لحاظ کیا ہے، حضرت انس ؓکی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے ہو کر پانی پینے سے منع فر مایا ہے، (مسلم، ابو دا ئود ،ترمذی)حضرت جا بر ؓکی روایت ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دا ئیں ہا تھ سے ذکر چھو نے سے منع کیا ہے، (نسائی)حضرت ابوسعید ؓفرما تے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چپل یاایک مو زے میں چلنے سے منع فرما یاہے (مسنداحمد )حضرت سہیل بن سعد ؓکی روایت ہے، کہ آپ ؐنے پا نی میں پھو نک مارنے سے منع فرما یاہے، (طبرا نی ) حضرت انس ؓ فر ما تے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے اور چا ند ی کے بر تن میں کھا نے پینے سے منع فر ما یا ہے، (نسائی )اسی طرح نسا ئی اور مسند احمد اور کئی ایک روا یت کے مطا بق نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے سو نے اور ریشم کے کپڑے مر دوں کے لیے ممنو ع قراردیے ہیں اور عو رتو ں کے لیے مباح قر ار دیے ہیں ، ایک مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو نے کی انگو ٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے، طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے نما ز عشا ء سے قبل سونے سے منع فرمایا ہے اور نما ز عشا ء کے بعد با ت کر نے سے منع فر ما یا ہے،اسی طرح مختلف روایتو ں میں آپؐ نے نوحہ کر نے سے ، سفید با ل اکھا ڑنے سے اور صر ف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے ، گوندھنے اور گو دھوا نے سے بھی منع فر ما یا ہے۔
یہ تو وہ روایتیں تھیں جن میں آپؐ نے امت کو مختلف امو ر سے روکاہے، کتب احادیث میں اس طرح کی صحیح روایتیں بکھری پڑی ہیں، ہمیں ان روایتوں کو سا منے رکھ کر امات کا ، اپنے معا شرہ اور ما حو ل کا جا ئزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کے پہلو بہ پہلو کچھ امور ایسے بھی ہیں جن کا آپ ؐنے حکم دیا ہے، جب کہ وہ چیزیں آپ کے معمولات میں دا خل تھیں ، چنا ں چہ مسواک آپؐ کی سنت ہے، ایک حدیث میںآپ ؐارشا د فرماتے ہیں ! ’’لَوْ أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلاَۃٍ‘‘ یعنی اگر مجھے اس بات کا احسا س نہ ہو تا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا ،تو ہر نما ز کے وقت لو گوں کو مسو اک کا حکم دے دیتا ،
ایک دوسری روایت میں مسو اک کے متعلق فر ما یا !
مسو ا ک سے منہ پا ک وصا ف رہتا ہے، اور رب العزت بھی راضی رہتا ہے ، اسی طرح مسجدمیں داخل ہو نے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دورکعت تحیۃ المسجد آپؐکی سنت ہے، مسجد میں دا خل ہو نے کے وقت سب سے پہلے دایا ں پا ئوں مسجد میں ڈالنااور نکلتے وقت سب سے پہلے بایا ں پا ئوں نکا لنا ، چپل پہنتے وقت دایاںچپل پہلے پہننا اور نکا لتے وقت پہلے با یا ں چپل نکا لنا بھی آپ ؐکی سنت ہے، آپ ؐکا ایک طر یقہ ٔ  کا ریہ بھی تھا کہ کسی کے گھر میں دا خل ہو نے سے پہلے تین مر تبہ اجا ز ت طلب کر تے ،اگر تین مر تبہ میں اجا زت مل گئی تو داخل ہو تے ، ورنہ واپس لو ٹ آتے، مندرجہ با لاسا ری سنتیں صحیح احا دیث سے ثا بت ہیں ، یہ وہ قا بل تو جہ امو ر ہیں جن سے ہر مسلما ن کا روزآنہ واسطہ پڑتا ہے، یا کسی نہ کسی پہلو سے وہ ان سے گز رتا ہے، رمضان المبا رک کے اس با بر کت مہینہ میں ہم ان امو ر کی طر ف تو جہ دے کر اپنی زندگی پا کیزہ بناسکتے ہیں ، کیو ں کہ اس مہینہ میں ، جہا ں اور بہت سے برے کا مو ں سے رُک جا تے ہیں ،وہیں اچھے کا موں کی عادت بھی ڈال لیتے ہیں ؛نیز کو ئی گرانی بھی نہیں ہو تی، اگر ہم ان مذکو رہ پہلوئوں پر بھی تو جہ دے لیں ، اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتنا ب کر لیں ،تویقینا رمضا ن کی بر کت سے بقیہ اور مہینے بھی سنت ِنبو ی کے سا ئے میں بآسا نی گزر سکتے ہیں ، اور اجروثواب اس پر مستزاد ہے۔
خدا یا !ہمیں سنت مطہر ہ پر عمل کی تو فیق مر حمت فر ما !بدعا ت وخرا فا ت سے ہما ری حفا ظت فرما! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
۔۔۔