Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 22, 2019

زکوٰة ادا کرنے کے لئیے تحقیق ضروری۔۔۔۔۔۔۔اصحاب خیر کے لئیے چند تجاویز


پروفیسر محسن عثمانی ندوی / صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
     رمضان کے مبارک مہینہ میں ایک فرض کا ثواب 70فرض اد ا کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی ستر گنازیادہ ثواب ملتا ہے اسی لئے لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی اسی مبارک مہینہ میں کرتے ہیں تا کہ ان کے آخرت کے اکاؤنٹ میں بینک بیلنس زیادہ سے زیادہ ہو اور قرآن میں ہے کہ میزان آخرت میں جس کا پلڑا بھاری ہوجائے گا وہ آسودگی والے عیش میں ہوگا، زکاۃ ایک اہم عبادت ہے زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت اس کی تحقیق ضرور کرلینی چاہیے کہ جس کوزکوٰۃ دی جارہی ہے وہ واقعۃ اس کا مستحق ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بے پرواہی برتنے اور تحقیق نہ کرنےٍ کی وجہ سے زکاۃ ادا نہ ہو اور ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ زکاۃ ادا ہوگئی ۔ اہل نظر کا کہنا ہے کہ دولت کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا دولت کو صحیح مستحق زکوٰۃ تک پہونچانا مشکل ہے۔ رمضان میں دیکھا گیا ہے کہ ہزاروں اشخاص سیکڑوں رسیدیں چھپوا کر ہر گھر اور ہر در پر ہر مکان اور ہر دکان پر مدرسہ کے نام پر چندہ مانگنے پہونچ جاتے ہیں اور مالک مکان اور مالک دکان بھی کسی تحقیق کے بغیر اپنی جھولی خالی کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض اور زکوٰۃ کا قرض ادا کردیا اور ’’ ہم بھی فارغ ہوئے شتابی سے ‘‘ حالانکہ اس طرح کے اسکینڈل سامنے آئے ہیں کہ مدرسہ کا وجود اقلیدس کے نقطہ کی طرح فرضی تھا یا مدرسہ مسجد کے حجرہ میں ایک چٹائی پر تھا اور اس کی اپنی کوئی عمارت بھی نہیں تھی اور اس کانام جامعہ یعنی یونیورسٹی دے دیا گیا تھا۔ یہ دجل و فریب بہت عام ہے۔ یہ اہل ثرورت کی ذمہ داری ہے کہ پوری تحقیق کے بعد زکوٰۃ کی رقم ادا کریں۔ زکوٰۃ غریب رشتہ داروں کو اور خستہ حال لوگوں کو ان کا پتہ چلا کر دینی چاہیے اور اگر زکوٰۃ مدرسہ اور ادارہ کو دینی ہے تو جب تک اس کے حقیقی وجود کا اطمینان نہ ہوجائے اور کوئی معروف شخص اس کی ضمانت نہ دے ، صرف رسید دیکھ کر نہیں دینی چاہیے، اور مدرسہ میں بھی درجہ بندی ہونی چاہیے جو مدرسے مشہور ہیں اور طلبہ کی بڑی تعداد وہاں علم دین حاصل کرتی ہے اور ان کی خدمات کارکارڈ ہے ،وہ زیادہ مستحق ہیں اور ان میں بھی وہ مدرسے زیادہ مستحق ہیں جہاں دینی علوم کے ساتھ انگریزی پڑھائی جاتی ہے اور عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں کیونکہ ایسے اداروں کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور وہاں کے تعلیم یافتہ زیادہ بہتر دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ نصاب تعلیم اور صداقت نامے دیکھ کر ہی کسی بڑی رقم کو دینے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ زکوٰۃ ہر مانگنے والے کو دینے سے نہیں ادا ہوتی ہے ۔ اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جس شخص کو زکوٰۃ دی جارہی ہے وہ مستحق زکوٰۃ ہے یا وہ جس مدرسہ کے لئے زکوٰۃ کی رقم مانگ رہا ہے زمین کے اوپر اس کا حقیقی وجود ہے۔ 

      حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ صرف ان دینی اداروں کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے جہاں غریب طلبہ کے ہاسٹل کا انتظام ہے۔ایسے مدرسہ میں زکات دینے سے جہاں غریب طلبہ کے لئے دار الاقامہ نہ ہو زکات نہیں ادا ہوتی ہے کیونکہ زکاۃ مستحق غریب کو دینے کے لئے ہوتی ہے نہ کہ تعلیم کے لئے ہوتی ہے ۔انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فرضی تملیک کا نظام ایک ڈھو نگ اور دھوکہ دہی ہے اس سے پورے طور پر بچنے کی ضرورت ہے ۔
      یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ مدرسہ قائم کرنے والے اور چلانے والے مدرسہ کے مقام اور مرتبہ کو سمجھ نہیں سکے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ دینیات کی کتابیں پڑھانے اور ہوسکے تو مولویوں کوکسی یونیورسٹی کی ڈگری دلانے والے ادارہ کا نام مدرسہ ہے یا مدرسہ کا کام یہ ہے کہ وہ صرف مسجد کے لئے امام اور خطیب تیار کرے، یہ ذہنیت مدرسہ کے لئے ازالہ حیثیت عرفی کے مرادف ہے۔
      بہت زمانہ سے افکار و نظریات کی دنیا میں عالمی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور حق و باطل کے درمیان معرکہ برپا ہے ، اس معرکہ میں ایک فکر، فلسفہ ، نظریہ اور عقیدہ غالب بھی ہوتا ہے اور مغلوب بھی ہوتا ہے فاتح بھی ہوتا ہے مفتوح بھی ہوتا ہے۔ مدرسہ اس ادارہ کا نام ہے جہاں اس عالم گیر نظریاتی جنگ میں حق کا ساتھ دینے والے افکار و نظریات سے لیس مجاہدین تیار ہوتے ہیں ، جہاں موثر اور طاقتور اسلوب میں بات کرنے والے اور خطاب کرنے والے اور لکھنے والے ، جدید علم کلام سے واقف ، عصری افکار سے لیس، عصری اسلوب سے مسلح دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں۔ مدرسہ اس ادارہ کا نام ہے جہاں اسلامی تہذیب کو غالب اور کار آفریں بنانے کے لئے اور مخالف اسلام تہذیبوں کا مقابلہ کرنے کے لئے علمی فکری اور ذہنی انتظامات کئے جاتے ہیں ، اس کے لئے دنیا کی دوسری تہذیبوں سے معاصر افکار و نظریات و واقعات سے واقفیت ضروری ہے۔ خاص طور پر اس وقت اسلام کی مخالفت کا طوفان اسلامی تہذیب کے فصیل تک آپہنچا ہے حرم کی سرزمین تک اس کا خطرہ پہونچ گیا ہے ۔
       اصحاب ثروت کو زکوٰۃ دیتے وقت ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور زکوٰۃ کی کوئی بڑی رقم دیتے وقت مدرسہ کے علمی اور تعلیمی اور ذہنی معیار کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور آنکھ بند کرکے زکوٰۃ کی بڑی رقم ہر مدرسہ کو نہیں دینی چاہیے۔ بہتر ہے کہ مدرسہ کا معیار متعین کرنے کے لئے پوائنٹس بنالیے جائیں اور سب سے زیادہ پوائنٹس جس ادارہ یا مدرسہ کو ملیں اس کو زیادہ رقم دی جائے۔
۱۔ طلبہ اور اساتذہ کی تعداد
۲۔ عمارت اور رقبہ زمین اور طلبہ کے اسپورٹس کا انتظام
۳۔ فارغین کی دینی علمی خدمات کا رکارڈ
۴۔ عصری زبان اور عصری تعلیم اور مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے کورس کی نصاب میں شمولیت
۵۔ ایک اچھی لائبریری ۔طلبہ کے لئے خارجی مطالعہ کا لازمی انتظام جس میں سیرت و تاریخ اور جدید علم کلام کی کتابیں شامل ہوں۔
۶۔ عربی زبان و ادب کی کتابوں کی عربی زبان کے ذریعہ تعلیم اور عربی انشاء کی مشق
۷۔ طلباء کی دینی ، اخلاقی ، علمی اور دعوتی تربیت کا انتظام
۸۔ مدرسہ میں شفافیت اور شورائیت : یعنی مدرسہ میں مجلس شوریٰ ہونی چاہیے اور آمد و خرچ کا گوشوارہ اس کے سامنے پیش ہونا چاہئے تا کہ کسی غبن اور اسکینڈل کا اندیشہ نہ رہے۔
۹۔ غریب طلبہ کے لئے اقامت خانہ۔ زکات کی ادائیگی کے لئے لازمی شرط ہے
ادارہ کے ذمہ داروں سے جب وہ چندہ کے لئے آئیں توان سے سوالات کئے جائیں اور جہاں تک ممکن ہوسکے تحقیق کی جائے ، جس ادارہ کو زیادہ پوانٹس مل جائیں اس کو زیادہ بڑی رقم دی جائے ۔جب زکاۃ اہم عبادت ہے تو اس کا پورا اہتمام کرنا چاہئے -
      مدرسوں کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن حالات کا تقاضہ یہ بھی کہ ملک میں ایک انگلش میڈیم مدرسہ قائم کیا جائے۔ ایسے مدرسہ میں ملک کے انگریزی تعلیم یافتہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے لوگ بھی داخلہ لیں گے، اور اس مدرسہ سے انگریزی زبان میں اسلام کے مبلغ اور مقرر اور مصنف تیار ہوں گے۔ ایک بار یورپ سے نو مسلم دین سیکھنے کے لئے ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے ایک مدرسہ میں قیام کیا لیکن وہ استفادہ نہ کرسکے کیونکہ وہاں ذریعہ تعلیم اردو زبان تھی پھر وہ پورے ملک میں کئی اداروں میں گئے کہیں بھی ان کا غنچہ آرزو کھل نہ سکا، پھر وہ واپس چلے گئے۔
     ہندوستان میں مولانا جلال الدین عمری، مولانا محمدرابع حسنی ندوی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا فضل رحیم مجددی، مولانا ولی رحمانی، مولانا الیاس بھٹکلی، مولانا سجاد نعمانی اور مولانا سلمان حسینی وغیرہ جیسے باشعور علماء کی علمی اور تعلیمی قیادت سے اس ملک میں اچھی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں مفید کام انجام دیے ہیں نصاب تعلیم اور تعلیمی نقطہ نظرسے اور مذکورہ بالا معیار کے اعتبار سے ندوۃ العلماء اور الاصلاح ، جامعۃ الفلاح جامعہ دار السلام عمرآباد، جامعہ الہدایۃ، المعہدالاسلامی، دار الامور بنگلور، جامعہ البنات حیدرآباد، مدرسہ اسلامیہ بھٹکل، مدرسۃ العلوم الاسلامیہ علی گڑھ اور دیگر ان تمام اداروں کو جو نصاب میں اصلاح کے قائل اور اس فکر پر عامل ہیں دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ ان اداروں میں نسبتاً بہتر شعور پایا جاتا ہے ، اگر چہ مزید اصلاحات کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ ہوش گوش رکھنے والے اداروں کو جن کی دینی خدمات کار کارڈ ہے ترجیح دینے کی ضرورت ہے،ایسا نہ ہو کہ بہت چھوٹے ادارے اور مدرسے زکات کی رقم سے مالدار ہوجائیں اور بڑے مدرسے جن کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں محروم ہوجائیں ۔ایسے مالیاتی ادارے جو فقراء ومساکین پر خرچ کرتے ہیں ان کو بھی زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے زکات ادا کرنے والوں کو توازن کا خیال رکھناضروری ہے۔
     زکوٰۃ کی سب سے زیادہ رقم مدرسوں کو ملتی ہے لیکن کچھ اور بھی ملی ضرورت کے کام ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس ملک میں تمام شہروں میں اسلامک ہوسٹلس کا جال بچھانے کی ضرورت ہے ، بالکل اس طرح جیسے فائیو اسٹار ہوٹل کے چین مختلف شہروں میں ہوتے ہیں۔تا کہ ان ہوسٹلوں میں عصری تعلیمی اداروں کے لاکھوں غریب مسلم طلبہ کی فکری او ر دینی تربیت اور کردار سازی ہوسکے۔ عام طور پرچھوٹے شہروں اور قصبات سے اعلی تعلیم کے لئے لڑکے شہروں میں آتے ہیں اور ان کا کوئی نگراں نہیں ہوتا اور وہ بگڑجاتے ہیں منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں ان کی نہ کردار سازی ہوتی ہے اور نہ ذہن سازی ۔ کوئی ہے ایسا عبقری ، نابغہ وقت جو ان کاموں کے لئے کھڑا ہوسکے اور اسلامی ہوسٹلس کی تحریک لے کر اٹھے؟ زمانہ کو انتظار ہے، ’’ مردے از غیب بروں آید وکارے بکند‘‘ دینی مدارس کی طرح اس طرح کے تعمیری کاموں کے لئے بھی صدقات و خیرات کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے بشرطیہ وہاں غریب طلبہ کے رہنے اور کھانے پینے کا بھی انتظام ہو ۔ یہ واضح رہے کہ زکات کی رقم غریب طلبہ پر خرچ کی جاسکتی ہے خواہ وہ عصری تعلیم حاصل کریں یا دینی تعلیم ۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
زکوٰۃکی رقم صرف مسلمانوں کو دینی چاہیے،لیکن زکوٰۃ کی صرف ایک مد ایسی ہے جوقرآن میں مذکور ہے اور جو پہلے غیر مسلموں پر تالیف قلب کے لئے ، اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے اور دشمنان اسلام کے شر سے بچانے کے لئے خرچ کی جاتی تھی ۔ قرآن مجید میں جو مصارف زکوٰۃ بیان کئے گئے ہیں ، ان میں مؤلفۃ القلوب کا ذکر موجود ہے، یہ مد تالیف قلب کی غرض سے غیر مسلموں کو دینے کے لئے ہے ۔زکوٰۃ کی اس مد کو حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر ختم کردیا تھا کہ اب اسلام طاقتور ہوگیا ہے اب ہمیں کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہیں ہے، لیکن چونکہ قرآن مجید میں یہ مد منصوص ہے اس لئے ہمیشہ کے لئے اس مد زکوٰۃ کا ختم کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ اب اگر اسلام کی بے کسی اور مسلمانوں کی بے بسی کا زمانہ واپس آجائے تو دشمنان اسلام کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے پسماندہ طبقات میں اسلام کے لئے کشش پیدا کرنے کے لئے اور ان کے درمیان میں ان کے دلوں کو جیتنے کے لئے رفاہی کام کرنے کے لئے مولفۃ القلوب کی مد سے زکوٰۃ کی رقم مسلم جماعتوں کو خرچ کرنی چاہیے ، اس پر جمعیۃ علماء ہند ، جماعت اسلامی ، وحدت اسلامی اور امارت شرعیہ جیسی دوسری تنظیموں کواور علماء کو غورکرنا چاہیے۔ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اس ملک میں آج کے حالات میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت برادران وطن کو ساتھ ملائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور موجودہ دور میں مسلمانوں کے بیشتر مسائل اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی بے زوری اور بے وزنی اور حاشیہ نشینی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تالیف قلب کی مد کا استعمال انفرادی طورپر نہیں بلکہ جماعتوں کے ذریعہ ہونا چاہیے، پہلے بھی ہیڈ آف دی اسٹیٹ کے ذریعہ یہ کام انجام پاتا تھا اگر مسلم علماء اور مسلم تنظیموں کے ذمہ دار اس کا م کو انجام دیں گے اورمولفۃ القلوب کی مد سے دلوں کو جیتنے کا کام انجام دیں گے برادران وطن اور خاص طور پر پسماندہ طبقات سے قریب ہوں گے تو ایمان و اخلاق کی خوشبو بھی پھیلے گی اور پیام انسانیت کی تحریک کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور اسلام سے دوری ختم ہوگی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اس زہر کا تریاق مہیا کیا سکے گا اور اس کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں کو حاصل ہوگا۔ علماء کو اس تجویز پرسنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مؤلفۃ القلوب کے مسئلہ پر علماء سلف مختلف الخیال ضرور رہے ہیں لیکن امام احمد بن حنبل، امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک زکوٰۃ کی یہ مد ابھی تک باقی ہے۔ بعض علماء احناف کی رائے بھی اس رائے کی تائید میں ہے، علامہ ماوردی نے بھی الاحکام السلطانیہ میں یہی بات لکھی ہے ان حضرات کی دلیل بہت مضبوط ہے اور وہ یہ کہ جو چیز قرآن سے ثابت ہو اس کے خلاف کوئی اجماع ہو جب بھی قرآن سے ثابت شدہ چیز ختم نہیں کی جاسکتی ہے۔
         (اس مضمون کی کاپیاں ان تمام اہل ثروت میں تقسیم کی جائیں جو سیم و زر کے انبار میں سے زکوٰۃ کی رقم نکالتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے ہر کس و ناکس کی مراد پوری کردیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا قرض اور زکوٰۃ کا فرض ادا کردیا۔ )