Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 18, 2019

اردو صحافت!!!! جادو جو چڑھ کر بولے !!

از / ڈاکٹر ظفر الاسلام/ صدائے وقت۔
___________________________
            اردو میڈیا میں فیک نیوز (جھوٹی خبر) اور پیڈ نیوز (پیسے دے کر چھپوائی گئی خبر) کا خوب تذکرہ ہوتا ہے، جیسے اردو اخبارات دودھ کے دھلے ہیں اور صرف انگریزی وہندی اخبارات اس مرض میں مبتلا ہیں۔ہندی اخبارات کے بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن انگریزی اخبارات کی بہ نسبت حقیقت ہے کہ اردو اخبارات اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں اور روز ہی اس کی مثال آتی رہتی ہے۔ سنیچر (18 مئی) کو اس کی بڑی مثال ایک بڑے کارپوریٹ اخبار نے پیش کی کہ ایک ہی شمارے میں مسلسل پہلے، تیسرے اور پانچویں صفحات پر شاہ سرخی کے ساتھ بڑی بڑی خبروں سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ممتا بنرجی اگلی وزیر اعظم ہوں گی۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو یا نہ ہو، البتہ اس طرح کی غیر ضروری مصنوعی رپورٹنگ سے ضرور معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
            ہمدرد کے مالکین کی لڑائی کی وجہ سے بحران زدہ ”روح افزا“ کے بازار سے غائب ہونے ہونے پر ایک غیر معروف یونانی ادارے کے مشروب کا اشتہار خوب اردو پرچوں میں پچھلے دنوں دیکھا گیا اور جلد ہی یہ سلسلہ کمپنی کے مالک کے ساتھ انٹرویوز میں بدل گیا جو ہر اردو اخبار میں نظر آرہے ہیں۔ واضح ہے کہ یہ پیڈ نیوز ہے لیکن انگریزی پرچوں کے برخلاف یہ احتیاط بھی نہیں کی گئی ہے کہ کسی کونے میں ”ایڈورٹوریل“  (اشتہاری مواد) چھوٹے حروف میں لکھ دیا گیا ہوتا۔
   
      

  ہمارے پرچوں کی گراوٹ کی حد ہے کہ وہ امریکی ، اسرائیلی اور بعض عرب سفارت خانوں سے جاری کئے گئے مضامین اور خبریں چھاپنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ یہاں ایک اردو پرچہ ایران کے ساتھ کھڑا ہے تو دوسرا سعودی عرب اور امارات کے ساتھ۔ یہ بھی پیڈ نیوز ہی کی ایک شکل ہے۔
            پچھلے دنوں اردو پرچوں میں آرایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ کے بی جے پی کی تائید میں چھپنے والے اشتہارات بھی دیکھنے کو ملے۔ حالانکہ کوئی بھی عزت نفس رکھنے والا ایڈیٹر ایسے اشتہارات کو اپنے پرچے میں جگہ نہیں دے گا۔خود کو اسلامی تحریک سے قریب دکھانے والے ایک پرچے نے تو حد ہی کردی کہ مسلم راشٹریہ منچ کا پورے صفحے پر مشتمل اشتہارآخری صفحے پر شائع کر دیا! ایک دوسراپرچہ اس حد سے بھی گرگیا کہ اس نے اپنے صفحۂ اول پر اس اشتہار کے مضمون کو خبر کی شکل دے دی! اگر یہ چلن عام ہوگیا تو وہ دن دور نہیں کہ اردو قاری ان اخبارات کو خریدنا بند کردے گا۔ آخری اشتہار پڑھنے کے لئے کون اخبار خریدے گا۔ ایسے اشتہاری اخبارات تو مغربی ملکوں میں مفت بٹتے ہیں!                                                      
۔_________________
ڈاکٹر ظفرالاسلام  خان                                          نئی دہلی