Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 17, 2019

رمضان کے آخری عشرے و لیلة القدر کی فضیلت ، احادیث نبوی کی روشنی میں۔

محمد عباس دھالیوال،
مالیر کوٹلہ، پنجاب / صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اسلامی کیلنڈر میں رمضان المبارک کو جو متبرک و مقدس مہینہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کی مثال نہیں ملتی یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ رحمتوں برکات اور بخششوں سے بھرپور ہے. لیکن تیس یا انتیس دنوں پر مشتمل اس مہینے کو خصوصی طور پر تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے .
مختلف احادیث مبارکہ کی روشنی میں رمضان المبارک کے مہینے کو جن تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے یہ تینوں مختلف خصوصیات و فضیلت کے حامل ہیں یعنی ہر ایک کا اپنا ایک خاص رنگ و آہنگ رکھتا ہے. ایک جگہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کاہے، دوسرا عشرہ مغفرت کااور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔
محمد عباس دھالیوال

مختلف روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیچ میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آ جاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آ جاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی ( مسجد ہی میں ) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آ جانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس ( دوسرے ) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہر ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہئے۔اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے اور مجھے یہ رات ( شب قدر ) دکھائی گئی لیکن پھر بھلا دی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ ( کی طاق راتوں ) میں تلاش کرو۔ میں نے ( خواب میں ) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ( چھت سے ) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں رات کا ذکر ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی
اس وقت ہم یہاں رمضان المبارک کے آخری عشرے کے ضمن میں اپنی بات مختلف احادیث کی روشنی میں رکھنا چاہتے ہیں .
 
رمضان کے آخری عشرہ کے فضائل کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و اذکار میں محو رہتے تھے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک جگہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے.
دیگر احادیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے عشرے کے حوالے سے روز مرہ معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیسا کہ ایک جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے۔ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول ہمیشہ ہی رہا ہے. لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔ یہ مضمون حضرت عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ (سنن نسائی ،حدیث : 1336)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد میں بہ نیت عبادت قیام اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف جو کہ کسی بھی مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی یہ پوری اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف میں عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ اسی ضمن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا. مختلف احادیث کے توسط سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عشرہ اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری ،حدیث : 1880 )
حضرت ا بوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اورہم نے بھی کیا۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد بھلادی گئی ۔یاد رکھو لیلة القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 771 )
ایک اور مشہور روایت ہے جس کا مفہوم ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتا دوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش ( آخری عشرہ کی ) نو یا سات یا پانچ ( کی راتوں ) میں کیا کرو۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی، ارشاد ہوا: ”ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔“ (سورة القدر)
شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے۔ نیز، اسی رات اللہ تعالی نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی۲۳سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوتا رہا۔ انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومربتہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر ومنزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمارآیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص شب قدر کو ایمان اوراجروثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1768 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، حدیث : 1634، معجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 1500)
اس رات کو رمضان اورخاص کراس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1880 ) اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ،باقی نو رہ جائیں تو ان میں، باقی سات رہ جائیں توان میں ، باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ ( صحیح بخاری، حدیث : 1881) پھر احادیث کی روشنی میں شب قدر کے آخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں وقوع کا زیادہ امکان معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1878 ) جب کہ بعض احادیث میں ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی بات بھی وارد ہوئی ہے۔جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ ( سنن ابوداود ، حدیث : 1178، مسند احمد وغیرہ)
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں تھے کہ آپ کی بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اعتکاف میں تھے۔ پھر جب وہ واپس ہونے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ ( تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے ) آئے۔ ( آتے ہوئے ) ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑی، تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا، کہ سنو! یہ ( میری بیوی ) صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ( سفیان نے ہی صفیہ کے بجائے بعض اوقات «هذه صفية» کے الفاظ کہے۔ ( اس کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی ) کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عني ) اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے ) (سنن ترمذی ، حدیث : 3435، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ وغیرہ)۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
محمد عباس دھالیوال۔۔۔۔۔۔رابطہ۔۔۔
Mail..abbasdhaliwal72@gmail.com.
Mob..9855259650