Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 20, 2019

ہماری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی۔

روز نامہ راشٹریہ سہارا شمارہ مورخہ 20 مئی کے پہلے پیج پر شائع ایک اشتہار پر تبصرہ۔
صدائے وقت/ڈاکٹر شر ف الدین اعظمی/ مورخہ 20/ مئی 2019۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
روزنامہ راشٹریہ سہارا شمارہ 20 مئی 2019 اعظم گڑھ ایڈیشن کے پہلے صفحہ پر نصف پیج کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔یہ اشتہار " ویٹ ہیر ریمور کریم  ( veet hair removal cream) سے متعلق ہے۔اس اشتہار میں جو تصوریں تقریباً ایک درجن عورتوں کی دی گئی ہیں وہ سب نقاب پہنے ہوئے ہیں یا اسکارف پہنے ہوئے ہیں اور سبھی کے چہروں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ / خوشی ہے ۔۔ایسا لگتا ہے کہ سبھی مسلم عورتیں ہیں۔

ظاہر ہے اردو اخبار ہے تو مسلم عورتیں ہی پڑھیں گی۔اسی لحاظ سے مسلم عورتوں کی تصویریں دی گئی ہیں۔جو غیر ضروری لگتی ہیں۔اردو اخبار عام طور پر گھروں میں پوری خاندان کے لوگ پڑھتے ہیں۔اس طرح کی تصویروں یا اشتہارات سے عریانیت جھلگتی ہے۔اور کم ازکم مسلم تعلیم یافتہ  خاندانوں میں اس طرح کی عریانیت کی ابھی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ہمیں اپنی تہذیب کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرنا چاہئیے ۔بات جسم کے غیر ضروری بالوں کو صاف کرنے کی ہے ۔۔۔شاید اتنا لکھ دینا کافی ہوتا کہ اس کریم کا استعمال کیا ہے  تصویردکھانے کا کوئی مطلب نہیں بنتا ہے۔.   (انگریزی اخباروں و میگزین میں تو بغل کے حصے کو کھلے عام دیکھاتے ہیں)۔ کم ازکم اردو اخباروں کو ایسے اشتہارات سے بچنا چاہئیے جس سے عریانیت یا بے شرمی کی بو آتی ہو۔۔۔اگر اخبار کے ذمے داران نے اس طرف دھیان نہیں دیا تو شاید اخبار کی فروخت پر اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
میرے ممبئ قیام کے دوران مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مرحوم ظ۔انصاری صاحب کچھ عرصہ کے لئیے " بمبئی انقلاب " کے ایڈیٹر بنائے گئے تھے۔۔۔ظ انصاری صاحب کے نظریات سے سبھی اردو صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگ واقف ہوں گے۔انقلاب جیسے صاف ستھرے اخبار کو فلمی اخبار بنادیا گیا تھا۔۔۔فلموں کی نیم عریاں تصویروں سے اخبار کے صفحات بھرے ہوتے تھے۔۔۔ظاہر ہے اس سے اخبارکو ایک اچھی رقم ضرور ملتی رہی ہوگی مگر نتیجہ یہ ہوا کہ اس اخبار کی خریداری پر اثر پڑ گیا اور عوام انقلاب کے بجائے اردو ٹائمس کو ترجیح دینے لگے۔اتنی تنقید ہوئی کہ ان کو اخبار چھوڑنا پڑا۔۔۔ایک پروگرام میں ظ انصاری صاحب سے عوام نے سوال تک ہوچھ ڈالا اور انھیں کو ان کے سامنے ہی لعنت ملامت کرنے لگے۔

پھر جو بمبئی میں اردو ٹائمس (جو اس وقت دوسرے نمبر کا اخبار تھا) نے اپنا مقام بنایا تو اسکی جگہ کوئی لے نہیں سکا یا یوں کہا جائے کہ انقلاب اپنی ہوری پوزیشن کو حاصل نہیں کر سکا۔اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ اسے بیچ دیا گیا۔
قومی آواز کے بند ہونے کے بعد ریاستی سطح کا کوئی اردو اخبار نہیں رہ گیا تھا۔۔دس سال کے طویل عرصہ کے بعد روزنامہ راشٹریہ سہارا شروع ہوا تو اردو طبقوں میں اپنا ایک مقام بنایا۔" میں نے خود اپنی تقریروں میں کئی بار کہا کہ اتر پردیش میں اگر اردو زندہ ہے تو مدرسوں کیوجہ سے اور اب روزنامہ راشٹریہ سہارا نے بھی اردو کو زندہ کرنے میں اہم کردار نبھا رہا ہے۔"
روزنامہ راشٹریہ سہارا کو آگے  بڑھانے ، خاص طور پر مشرقی یوپی  میں میرا بھی ہلکا سا کردار رہا۔۔اعظم گڑھ ایڈیشن نام دیا گیا میری ہی ضد و کوشش سے۔
کچھ دنوں بعد انقلاب بازار میں آیا ۔انقلاب کو ٰ ہندی دینک جاگرن والوں نے خرید لیا تھا اور ممبئی کیساتھ کئی صوبوں میں شروع ہوا۔جس میں یوپی بھی شامل ہے۔اس اخبار نے سہارا کی فروخت پر کچھ اثر ڈالا۔ڈاکٹر عزیز برنی کے ہٹنے اور سہارا کمپنی کے حالات سے اخبار کبھی کبھی شائع نہیں ہوا ۔۔ورکرس اور اسٹنگرس کی تنخواہیں تک رکی رہیں ہڑتال تک ہوئی جسکی وجہ سے انقلاب اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔
انقلاب ہے تو اردو اخبار مگر جس نظریات کے لوگ اس کے مالک ہیں جسکی جھلک کبھی کبھی اخبار میں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔۔ حس سے اردو داں طبقے میں بیچینی پھیل جاتی ہے ۔ایک بار  پھر اردو داں طبقے نے سہارا کی طرف رخ کیا ہے۔اس وقت سہارا کو پسند کیا جارہا ہے ۔اب اس اخبار کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئیے سہارا اردو کے اعلیٰ ذمے داران کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ایسے اشتہار سے بچنے کی ضرورت ہے جس کو دیکھ کر گھروں میں والدین و اولاد کو شرمندگی اٹھانی پڑے۔۔نہیں تو. .  ۔لفظ کی تبدیلی کے ساتھ  عرض ہے کہ
ہماری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی"
داکٹر شرف الدین اعظمی ۔۔۔
چیف ایڈیٹر ً صدائے وقت " نیوز بلاگ۔
سابق ضلع نمائندہ راشٹریہ سہارا  جونپور۔
سابق ۔۔بیورو چیف راشٹریہ سہارا اعظم گڑھ ایڈیشن۔