Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 24, 2019

بریلی کے بازار میں ۔۔۔قسط 11..


مولانافضیل احمد ناصری
۔__________________
*بریلی کے دیوبندی مسلمان*
شہر بریلی میں کلمہ گو (مسلمان) کم اور غیر مسلم زیادہ ہیں۔ زیادہ ہی نہیں، بلکہ بہت زیادہ ۔ عربی فارسی والے ناموں کی تعداد صرف 35 فی صد ہے، جب کہ غیر مسلموں کی تعداد 65 فی صد ۔ اس پر طرفہ یہ کہ عربی فارسی والے ناموں میں شیعہ بھی ہیں، سنی بھی۔ بریلوی بھی ہیں، دیوبندی بھی۔ نیازی بھی ہیں، مداری بھی۔ ثقلینی بھی ہیں اور عطاری بھی۔ ان میں سے کچھ فرقے ہمارے بعض قارئین کے لیے نئے ہیں، ان شاء اللہ *بریلی کے غیر رضا خانی فرقے* کے نام سے ایک الگ قسط پیش کروں گا۔
جیسا کہ پچھلی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ کسی دور میں وہاں دیوبندیوں کا غلبہ رہا ہے، لیکن شدہ شدہ نوبت بایں جا رسید کہ اب دیوبندیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدی کی کاوشوں کے باوجود ہماری مسجدیں صرف 22 ہیں اور غیر دیوبندیوں کی 400 سے زیادہ۔ 22 مساجد میں سے چار مسجدیں تو حال ہی میں تعمیر ہوئیں۔ مسجدوں کی قلت اور کثرت سے دیوبندیوں اور غیر دیوبندیوں کی قلت و کثرت صاف آشکارا ہے۔ ماضی بعید میں ہماری مسجدوں پر قبضے ہوئے سو ہوئے ہی، خان زادوں نے حالیہ چند برسوں میں بھی چار مسجدیں ہتھیا لی ہیں۔ کتب خانہ بازار کی مرکزی مسجد بھی انہوں نے ہم سے چھین لی اور ہم منہ تکتے رہے۔
*دیوبندی مسلمانوں میں خوف و ہراس*
دیوبندی مسلمان وہاں جتنے بھی ہیں، خوف و دہشت کے سائے میں ہیں۔ دیوبندیوں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو بظاہر بدعتی بن کر زندگی گزارتی ہے۔ اسے دکھانا پڑتا ہے کہ وہ بدعتی ہے، دیوبندی نہیں۔ رشتہ داریاں اور دیگر تعلقات اسے کھلنے نہیں دیتے۔ علما سے ملاقات کے وقت یہ لوگ اپنی دیوبندیت ظاہر کرتے ہیں اور وہ بھی دائیں بائیں دیکھ کر۔ صدمہ ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر کی انتھک محنتوں اور عظیم خدمات کے باوجود ایسا اندھیرا کیوں ہے؟ سچ کہوں تو بریلی ہم سے چھنا نہیں، بلکہ ہم نے اسے گنوایا ہے۔
*دینی تعلیم میں دیوبندیوں کی سستی*
غفلت اور مسلسل غفلت نے بریلوی دیوبندیوں کا وہ حشر کیا ہے کہ کیا بیاں کیجے۔ دیوبندیوں کے وہاں تین تین مدارس ہیں: اشاعت العلوم، اشفاقیہ اور کاشف العلوم، مگر دینی تعلیم سے بیزاری اس درجہ ہے کہ علما کی کھیپ نظر ہی نہیں آتی۔ بریلی سے ملحق علاقوں میں دو چار فضلا ضرور ہیں، لیکن شہر بریلی کے اپنے فضلا کتنے ہیں؟  دو ، جی ہاں! صرف دو : ایک کاشف العلوم کے مفتی اسجد قاسمی اور دوسرے سنبھل میں مقیم مفتی جنید قاسمی۔ مولانا محمد میاں اور مولانا یونس صاحبان بھی فاضلِ دارالعلوم ہیں، مگر وہ پرانے ہیں۔ اتنے بڑے شہر سے نوجوان علما صرف دو ہیں اور کوئی نہیں، اس پر ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے؟
اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مدارس والوں نے زمینی محنت نہیں کی۔ مقامِ غم ہے کہ اپنی فضا میں تربیت پانے والے بچوں کو وہ اس قابل نہ کر سکے کہ وہ اپنے حلقے کے بڑے بڑے اداروں میں جائیں اور وہاں سے فراغت حاصل کریں۔
بعض مدارس کے بارے میں سنا کہ وہاں اساتذہ کی کوئی عظمت نہیں۔ مدرسین کو ٹکنے ہی نہیں دیا جاتا۔ معلمین اس طرح بدلے جاتے ہیں، جیسے گرمیوں میں کپڑے۔ تنخواہیں اچھی دیتے ہیں، مگر ان کے ساتھ رویہ ایسا کہ زر خرید غلام شرما جائے۔ انہیں شہر میں کہیں جانے نہیں دیتے۔ کسی سے ملنے نہیں دیتے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اساتذہ چمک جائیں گے۔ ان کا تعارف ہو جائے گا۔ ان کی گرفت ہو جائے گی۔ پھر ہمیں گھاس کون ڈالے گا؟ نتیجتاً وہاں کے مدارس طلبہ کو ترس رہے ہیں۔ تعلیم زوال پذیر ہے۔ سنیت منہ کے بل گر چکی اور بدعت سر اٹھا رہی ہے۔
*جماعتی جھگڑا، کریلا اور نیم چڑھا*
دیوبندیت کے فروغ میں وہاں اور رکاوٹیں تو تھیں ہی، جماعتی جھگڑے نے بھی ان پر برا اثر ڈالا۔ مولانا الیاس کاندھلویؒ نے جس جماعت کو اتحاد و یگانگت کے لیے برپا کیا تھا، وہی 100 برس کے اندر ہی باہمی نزاعات کا اس طرح شکار ہو گئی کہ اب ان کے خاتمے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ۔ اس کی خانہ جنگیوں نے ہر جگہ اس کے دو لخت کر دیے۔ ایک ٹکڑا نظام الدین بنگلے والی کے زیرِ انتظام ہے اور دوسرا ٹکڑا شورائیوں کے زیرِ نگیں۔ ملک بھر میں دونوں کے مراکز علحدہ ہیں، حالاں کہ  دونوں کا بانی ایک ہے۔ منزل ایک ہے۔ طریقِ کار ایک ہے۔ نعرے ایک ہیں۔ مشن ایک ہے، مگر اختلاف اور شقاق ایسا کہ اپنے مرکز میں ایک دوسرے کو گھسنے نہیں دیتے۔ یہ صورتِ حال کہیں اور ہوتی تو اتنی خرابی نہ پھیلتی، جتنی کہ بریلی کی جماعتی تقسیم اور جھوٹے جھٹول نے پھیلائی ہے۔ بدعتی طبقہ اس سے مزید پختہ ہوا۔ دیوبندی اور کمزور ہوئے اور سنیت کی ردا اور بھی چاک چاک ہوئی۔ خدا کرے کہ جماعتی اختلاف فوری ختم ہو اور ملتِ اسلامیہ ہندیہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہو سکے۔
*علمائے امت کی ناقدری*
بریلوی دیوبندیوں کا ایک بڑا مسئلہ علمائے امت کی ناقدری ہے۔ یہی وہ روش ہے جس نے علمائے حق کو وہاں جمنے نہیں دیا۔ مصباح العلوم مٹ گیا، اشفاقیہ ٹمٹما رہا ہے، پرانا اشاعت العلوم بھی باقی نہ رہا۔ بڑے بڑے علما شمعِ حق روشن کرنے کے لیے وہاں مقیم رہے، مگر سب کو الٹے پاؤں نکلنا پڑا۔ مناظرِ اسلام حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ بھی ایک عرصے رہ کر واپسی پر مجبور ہوئے۔ کاش مدارس والے اس جانب توجہ دیں اور عوام و علما میں موجود خیلیجیں پاٹنے میں اہم کردار ادا کریں تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔ کام تو بہت مشکل ہے، مگر ناممکن قطعی نہیں۔
[جاری]