Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 23, 2019

بریلی کے بازار میں ۔۔۔۔قسط نہم۔(9 ویں قسط).


مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
.....................................................
*مدرسہ اشاعت العلوم بریلی*
مدرسہ کاشف العلوم سے ہم جوں ہی نکلے، اسی محلہ سرائے خام میں برطانوی دور کا ایک دروازہ نظر آیا، مدرسہ کاشف العلوم کی مسجد کے بالکل سامنے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے بھائی جناب اکبر علی نے نگر نگم میں اپنے عہدے کے دوران سڑکوں اور مہمان خانوں کی تعمیرات کرائی تھیں۔ ان کے نقوشِ قدم آج ہمارے سامنے تھے۔ دروازے سے داخل ہوئے تو سوا سو قدم کے فاصلے پر ایک مسجد نظر آئی، جس پر لکھا تھا: *مدرسۃ الاسلامیہ العربیۃ اشاعت العلوم* ۔ اسے دیکھ کر میری مسرت کا 
کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ 

یہی وہ ادارہ ہے، جہاں خانقاہِ رائے پور کے عظیم بزرگ حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ تعلیم پا چکے ہیں۔ عظیم مصنف و مناظر حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ اپنے قیامِ بریلی کے دوران یہاں گاہے بگاہے آیا کرتے۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ یہاں زانوئے تلمذ تہ کر چکے ہیں۔ خود حضرت تھانویؒ یہاں فروکش رہ چکے ۔ دارالعلوم کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا شریف صاحب بھی یہاں مسندِ تدریس بچھا چکے ہیں۔ یہ ادارہ ہمارے اکابر کا سرمۂ نگاہ رہا ہے۔ یہ 1890 میں قائم ہوا، اس کے بانی حضرت مولانا محمد یاسین سرہندی تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور ابتدائی فارغین میں شامل۔ زبردست عالم اور بہترین مناظر۔ شیخ الہندؒ کے تلمیذِ خاص تھے اور انہیں کے ایما پر بریلی تشریف لائے تھے۔ حضرت تھانویؒ کے خلیفۂ اجل حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے استاذِ خاص۔ مولانا جالندھری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے گئے، وفاق المدارس پاکستان کے موجودہ ناظم مولانا حنیف محمد جالندھری انہیں کے بیٹے ہیں۔ مدرسہ اشاعت العلوم کی بنا مولانا یاسین سرہندی کا بڑا کارنامہ ہے۔ یہاں رہ کر انہوں نے حشمت علی پیلی بھیتی جیسے دریدہ دہن بریلوی سے مناظرے کیے تو ساتھ ہی اشاعت العلوم کے ذریعے بدعات کی بیخ کنی میں بھی جم کر حصہ لیا۔ یہ مجدد الفِ ثانیؒ کے وطن *سرہند، پنجاب* سے تعلق رکھتے۔ مولانا مرحوم جب تک حیات رہے اس کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں رہی، مرحوم ہو گئے تو اس کا نظام ان کے فرزند مولانا عبدالعزیز صاحب کے ہاتھ میں گیا۔ اس وقت اس ادارے کو 130 سال ہو رہے ہیں۔ اس کی داستانِ عروج و زوال نہایت درد ناک ہے۔ ماضی قریب تک یہاں دورۂ حدیث تک کی تعلیم تھی۔ تربیتِ افتا کا بھی یہاں انتظام تھا۔ یہ ادارہ رجال سازی کا مرکز تھا۔
*اشاعت العلوم کا عروج و زوال*
مدرسہ مصباح العلوم کے مرحوم ہو جانے کے بعد دیوبندیوں کے لیے سب سی بڑی چھاؤنی یہی تھی۔ سب کی امیدوں کا محور یہی تھا۔ شہر کے سارے دیوبندی اسی سے رجوع کرتے۔ اس کے فتاویٰ کی بڑی اہمیت تھی۔ مولانا عبدالرؤف صاحب بانئ اشاعت کے داماد تھے۔ شہر کی نہایت با اثر شخصیت ۔ جمعیۃ علمائے بریلی کے ذمے دار بھی تھے۔ شہرِ بریلی کے ایم ایل سی بھی رہے۔ بڑے مستعد اور گرمِ عمل۔ مولانا یاسین اور مولانا عبدالعزیز کے بعد یہی اس ادارے کے مہتمم بھی تھے، مفتی بھی اور شیخ الحدیث بھی۔ خدمتِ خلق میں ایسے کھوئے کہ مدرسے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا۔ سفر در سفر۔ دورے پر دورہ۔ اشاعت العلوم میں بس برائے نام آتے۔ نتیجتاً تعلیمی نظام پہلے سستی کا شکار ہوا، پھر مختل ہوا، پھر بدنامیاں ہوئیں۔ طلبہ کی دل چسپیاں بھی کم ہونے لگیں، رجوع کم ہوتا گیا، طلبہ ملنے مشکل ہو گئے۔ اخیر میں ہوا یہ کہ بخاری شریف، جو آخری بار 1996 میں پڑھائی گئی تھی، وہ آخری ہی رہ گئی۔ افسوس یہ کہ یہ سارے سانحات مولانا کے دور میں ہی ہوئے اور انہوں نے ان کی تلافی کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔
*بریلی میں رضا خانیت کیسے پھیلی؟*
بانئ بریلویت کی بدنامِ زمانہ کتاب *حسام الحرمین* 1906 میں آئی، جس کے نتیجے میں احناف کے دو ٹکڑے ہوئے۔ ایک بڑا ٹکڑا دیوبندی کہلایا اور دوسرا چھوٹا بریلوی۔ اس تقسیم کے باوجود بریلویت اگر چہ ہاتھ پاؤں مار رہی تھی اور پورا زور لگا رہی تھی ، مگر اپنے ہی گھر میں ابھی وہ زیادہ مقبول نہ ہوئی تھی۔ دیوبندیت اب بھی فروزاں تھی اور پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر۔ زمانہ گزرا، مجددِ بدعات صاحب بھی آ ں جہانی ہو گئے، ان کی ذریات بھی آں جہانی ہوتی گئیں، پھر بھی بریلویت اپنے استحکام و توسیع میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔
مدرسہ اشاعت العلوم کی مرکزی حیثیت آپ ابھی پڑھ آئے ہیں۔ اس کی مرکزیت ہی کا اثر تھا کہ شہر کی جس مسجد میں بھی امام کی ضرورت ہوتی، اس کی طلب اشاعت العلوم سے کی جاتی، اگر یہاں سے بات نہ بنی تو محلہ سودا گران سے۔ سودا گران کے ملاؤں کو *بڑے حضرت* کہا جاتا تھا۔ مفتی عبدالرؤف صاحب کا حال آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔ جمعیۃ اور سیاست سے حد سے زیادہ دل چسپی نے مدرسے سے ان کی توجہ چھین لی۔ تعلیمی فضا کسل مندی کا شکار ہو گئی۔ طلبہ کا رجوع بری طرح متاثر ہوا۔ مسجد والے امام کی تلاش میں اشاعت العلوم آتے تو خالی ہاتھ واپس جاتے۔ لامحالہ سوداگران سے رابطہ کرتے اور وہ منظرِ اسلام سے کسی نہ کسی کو بھیج دیتے۔ اس طرح بریلویت پھیلتی گئی اور دیوبندیت کی زمین تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی گئی۔
*مدرسہ اشاعت العلوم عہدِ رفتہ کی تلاش میں*
بریلی میں دیوبندیت کی توسیع کے لیے اشاعت العلوم کا استحکام بے حد ضروری تھا۔ یہ ادارہ اہل السنۃ والجماعۃ کے لیے شہِ رگ کی حیثيت رکھتا تھا۔ اس کی لو کا ماند پڑنا دیوبندیت کے لیے سوہانِ روح بن گیا اور آج تک ہمارا رسوخ واپس نہیں آ سکا ہے۔ مدرسہ اشاعت العلوم کا چراغ اگرچہ اب بھی ٹمٹما رہا ہے اور اپنی عظمتِ رفتہ کو آواز دینے میں مصروف، مگر انتظامی کمی کے ساتھ سرکاری الحاق نے بھی اس کی ترقی کی راہ میں بڑی بڑی چٹانیں کھڑی کر دی ہیں۔ اب یہاں سوم چہارم تک کی تعلیم ہے۔ اس وقت اس کے ذمے دار مولانا عبدالرؤف کے بیٹے جناب عبدالسلام صاحب ہیں۔ امید ہے کہ ان کی قیادت میں جلد ہی وہ صبح طلوع ہوگی جس کے لبوں پر سابق اشاعت العلوم کی بازیابی کی نوید ہوگی۔ ہم شدت سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔
[جاری]