Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 22, 2019

أٸی ایم اے کی گھناونی چال، علمإ کی أڑ میں ملت کا استحصال!!!


تحریر/احساس نایاب (صداۓوقت)
.....................................................
تمام سیدھی باتیں تیڑھی ہونے لگیں
بنا ہڈی کی زبانیں اپنے تیور بدلنے لگیں
حال ہی کی بات ہے لگ بھگ 4 سے 5 ماہ ہوئے ہونگے جب آئی ایم اے کو لے کر اڑتی اڑتی خبر  کانوں سے ٹکرائی کہ یہ ایک پونزی اسکیم ہے جو کبھی بھی ہیرا گروپ کی طرح سرمایہ داروں کو چکما دے کر فرار ہوسکتی ہے اُس وقت ہمیں یقین نہ آیا.

 ویسے یقین آتا بھی تو کیسے آخر اس کی تائید میں اپنے ہی کئی سارے مسلم بھائی جو کھڑے تھے ہمیں اُن اڑتی ہوئی باتوں سے زیادہ اپنے ان دیندار بھائیوں پہ یقین تھا لیکن ایک دن اچانک ایک صحافی  کے ذریعے  پتہ چلا کہ یہ کمپنی سچ  میں فراڈ ہے اور کبھی بھی سرمایہ داروں کا سرمایہ ڈوب سکتا ہے اُس وقت ہم حرکت میں آئے اپنے قریبی دوست احباب رشتے داروں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی  لیکن  بنا کسی شواہد کے حقیقت بھی افواہ بن کر رہ گئی ………..
دراصل آئی ایم اے 13 , 14 سال یا اُس سے پرانہ ادارہ تھا جو سرمایہ داروں کو اچھے ریٹرنس کی لالچ دلاکر اُن کا اعتماد حاصل کرچکا تھی.
 ایسے میں ہماری باتوں پہ کون یقین  کرتے ؟ ………..
باوجود اس کے ہم نے کچھ سرمایہ داروں سے بات کرنی چاہی لیکن وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا. کوئی یقین کرنے کے لئے تیار  نہ ہوئے کئی کا یہ کہا تھا کہ آئی ایم اے کو لے کر ہم مطمئن ہیں کیونکہ وہ صحیح تاریخ پہ ہمیں اچھا خاصہ منافع دے رہی ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں پہ ہمارا سرمایہ محفوظ ہے رہی بات اُس کمپنی کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کی  تو الحمدللہ ایک چینل کے ذریعے ہمیں اُس کی تمام اپڈیٹس موصول ہوتی رہتی ہیں اور ہم نے آئ ایم اے کے ڈائریکٹر منصور خان کا انٹرویو بھی دیکھا ہے انٹرویو لینے والے صحافی اور منصور خان دونوں شخصیات نیک دیندار لگتے ہیں ہمیں نہیں لگتا اس افواہ میں کوئی سچائی ہوگی.
 اس طرح سے ہماری ساری باتیں بےبنیاد ہوگئی……..
اسی دوران ایک قریبی رشتے دار نے احتیاطً اپنا پیسہ واپس لینے کا ارادہ کیا اور کمپنی کے اصول و ضوابط کے مطابق 2  ڈھائی ماہ پہلے ہی  رقم واپس نکالنے کے لئے عرضی دے دی تو انہیں رقم کی واپسی کے لئے  15 جون کی تاریخ ملی جس سے وہ اور دیگر سرمایہ دار بےفکر ہوگئے اس خوشفہمی میں کہ کمپنی گھاٹے میں نہیں ہے اور جب چاہیں پیسہ واپس مل جائیگا لیکن کیا پتہ تھا  یہ بےفکری و اطمینان زیادہ دیر تک راس نہیں آئیگا اور 15 جون کے آنے سے پہلے ہی 8 جون کو وہ منحوس خبر آگئی جو سونامی کی طرح پل بھر میں پوری قوم کو اپنی چپیٹ میں لے
چکی تھی ………..

دراصل اس فراڈ سے جتنا نقصان قوم کا ہوا ہے شاید ہی اس سے قبل کبھی ہوا ہو کیونکہ اس بار  مسلمان آپس میں بٹ گئے , ایک دوسرے کو لے کر بدظن ہوگئے ہیں جس کے چلتے سوشیل میڈیا پہ طنز, بدزبانی و بہتان تراشی کی جارہی ہے,
سبھی اصل گنہگاروں کو نظرانداز کر ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں
اور یہ سلسلہ 8 جون کو سوشیل میڈیا پہ ایک آڈیو کے وائرل ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا ,  جس میں یہ دعوی کیا جارہا تھا کہ آڈیو میں جو آواز ہے وہ منصور خان کی ہے اور یہ آڈیو اُس فریبی انسان کی خودکشی کی افواہ لئے گھوم رہی تھی اس کے علاوہ اس میں اور کئی دعوے کئیے جارہے تھے جیسے روشن بیگ اور چند سرکاری آفسرس پہ بلیک میل کرنے, رشوت لینے اور غنڈوں کے ذریعے منصور خان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دئے جانے کے کئی  الزامات لگائے گئے جس کی حقیقت اللہ بہتر جانتے ہیں اور اس آڈیو کا خلاصہ کرنا یہاں پہ اتنا ضروری بھی نہیں ہے ………..

بہرحال اس آڈیو کو سننے کے بعد سرمایہ داروں کے ہوش اڑ گئے اُن کے پیروں تلے زمین کھس گئی ایک ہی پل میں اُن کی زندگی کی جمع پونجی لٹتی ہوئی نظر آئی تو لوگوں میں افراتفری مچ گئی بینگلور اور آس پاس مقیم کئی سرمایادار  بےساختہ آئی ایم اے دفتر کی جانب دوڑنے لگے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پہ ایک بڑا ہجوم جمع ہوگیا جسے منتشر کرنے کے لئے پولس کو ہلکی سی لاٹھی چارچ بھی کرنی پڑی اور اس پورے سانحہ کے بعد کئی لوگ جن میں کثیر تعداد میں خواتین بزرگ موجود تھے سارے بھوکے پیاسے سڑکوں پر آگئے ہر چہرے پہ ماتم تھا ہر آنکھ اشکبار تھی اپنی  ساری جمع پونجی کھونے والوں کے گھروں میں قیامت سا منظر تھا بظاہر تو سبھی زندہ نظر آرہے تھے لیکن اپنوں پہ جو اعتبار کرنے کا صلہ ملا تھا اُس سے وہ پوری طرح سے ٹوٹ گئے تھے
بینگلور کے علاوہ بھی دیگر شہروں میں رہنے والوں کا یہی حال تھا کوئی فون کالس پہ تو کوئی سوشیل میڈیا کے ذریعہ سچائی جاننے کی کوشش کررہے تھے تو بیچارے کئی مصلے پہ بیٹھ کر اس فریبی بھگوڑے منصور خان کی لمبی عمر کی دعاؤں میں لگے تھے آخرکار اُس منصور خان کے پاس ان معصوموں کی زندگی بھر کی جمع پونجی جو تھی اور اُس کی خیریت سے ان کی خیریت وابستہ تھی.
 بہرکیف ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اطمینان حاصل کرنے میں لگ گیا جن میں ایک ہم بھی تھے .
حقیقت جاننے کی غرض سے ہم نے ایک صحافی سے بات کی جنکا چینل دیگر اخبارات وہ پورٹلس سے کئی گنا زیادہ آئی ایم اے کی تائید کرتے ہوئے وہاں کی اپڈیٹس نشر کرتا تھا
جب ہم نے اُن سے حالات کے بارے میں سوالات کئے تو انہونے ہمیں اس بات کا یقین دلایا کہ سرمایہ داروں کا پیسہ محفوظ ہے
اور جب ہم نے اُن سے یہ سوال کیا کہ آپ کے چینل پہ اس کے متعلق کیوں کوئی خبر شائع نہیں کی جارہی جب کہ اس کی تائید میں سب سے زیادہ آپ ہی کے چینل پہ بتایا جاتا رہا ؟
ہمارے اس سوال پہ اُن کا جواب کچھ یوں تھا کہ ادارے کی کچھ مجبوریاں ہیں اور منصور خان کی اور سے فی الوقت کچھ کہنے سے منع کیا گیا ہے
ان کا یہ جواب ہمارے ذہن میں کھٹکنے لگا تو ہم نے فوراً ہی پوچھا کہ  وہ کیوں نہیں چاہتے ؟
اس پہ انہونے کہا تھا کہ ادارہ اگر کچھ کہتا ہے تو سیاسی لیڈر ادارے کو روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں , یہاں پہ غورطلب بات یہ ہے کہ خود کو آزاد ادارہ کہنے والا کیوں کسی کے حکوم کی تکمیل کررہا تھا وہ بھی ایسے فریبی بھگوڑے انسان کی جس نے قوم کو سڑک پہ لاکھڑا کردیا یہاں تک کہ علماؤں کو دھوکے و فریب میں رکھ کر اُن کے نام کا غلط استعمال کیا جس کے چلتے مسلمان علما سے بدظن ہونے لگے ہمارے  درمیان انتشار  پیدا ہوگیا………….
خیر اتنی سی بات پہ  کسی کو شک کی نگاہ دیکھنا درست نہیں تھا اس لئے ہمیں لگا شاید ان کی ٹیم منصور خان سے رابطہ میں ہے اور  وائرل آڈیو میں جو کہا گیا تھا شاید وہ سچ بھی ہوسکتا ہے تبھی  یہ اتنے وثوق سے کہہ رہے ہیں یہ سوچ کر ہم نے بات آگے نہ بڑھاتے ہوئے وہیں پہ ختم کرنا مناسب سمجھا
لیکن اُسی شام کی رپورٹ میں دوبارہ آئی ایم اے کی تائید کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو ہی موردالزام ٹہرایا گیا یہ کہتے ہوئے کہ قوم وقت نہیں دے رہی, جناب منصور خان صاحب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کررہی  وغیرہ ……….. جبکہ اس میں کہیں پر بھی کوئی سچائی نہیں تھی سرمایہ دار کی نظر میں منصور خان اب بھی معصوم, نیک, فرشتہ صفت انسان تھا جس کے لئے لوگوں میں ابھی بھی ہمدردی , عزت,  احترام, اعتماد سب کچھ باقی تھا جس کے چلتے کوئی ایک سال کا وقت دینے کے لئے تیار تھے تو کوئی اُس سے زیادہ کا ہر کوئی کسی نہ کسی طرح سے منصور خان کا تعاون کرنے کے لئے تیار تھے,  مسلم قائدین سے لے کر,   علما سبھی ان ناگہانی حالات میں ساتھ دینے , تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلاتے نہیں تھک رہے تھے ایسے میں چینل پہ کیا گیا خلاصہ کچھ ہضم نہیں ہوپایا اور یونہی افراتفری و پریشانیوں میں 2 سے 3 دن گذر گئے کئی سرمایہ دار اس آس اس انتظار میں تھے کہ بھگوڑا منصور  واپس آئے گا لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا اسی درمیان یہ خلاصہ ہوا کہ منصور ہندوستان سے فرار ہوچکا ہے وہ دبئی میں ہے اور اس کی گاڑی ایرپورٹ کے قریب ملی ہے اُس وقت لوگوں کے صبر کا باندھ ٹوٹنے لگا ان کے آگے برداشت کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ایسے میں پریشان حال بھوکے پیاسے دھوکہ کھائے ہوئے لوگوں کا غصہ علما و قائدین پہ برس پڑا وہ علما کو ذمہ دار ماننے لگے جبکہ پس منظر کچھ اور ہی تھا حقیقت کچھ اور ہی تھی اور کئی حقائق پہ پردہ پوشی کی جارہی تھی یہاں سبھی کا ماننا تھا کہ اس فریب میں ضرور سیاستدان اور چند لالچی قسم کے مفاد پرست شامل ہیں جنکی مدد سے اتنا بڑا فراڈ کا کھیل کھیلا گیا لیکن افسوس کہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی خود کو بےقصور ثابت کرتے ہوئے اپنا اپنا پلہ جھاڑنے لگے اور قوم کے لئے جھوٹی ہمدردی کا ڈرامہ رچ کر خود ہمدرد غم خوار بن کر بیانات و انٹرویوس دیتے رہے کئی میٹنگس کی گئی اور کچھ یوں ہوا شاعر کے اشعار کی طرح
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
اور آج بھی اس فریب میں کئی راز کھلنے باقی ہیں, کئی چہروں پر سے شرافت کے موکھوٹے اترنے باقی ہیں جس پہ مٹی ڈالی جارہی ہے.
 یہاں پہ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک مسلمان بار بار دوسرے مسلمان کے ہاتھوں ہی دھوکہ کھارہا ہے جبکہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ مسلمان ایک ہی بل سے بار بار ڈسہ نہیں جاتا
لیکن ملک میں اسلام دشمن جماعتوں کی اور سے مسلمانوں کے خلاف کی جارہی سازشوں کے مدنظر ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ ہم اپنوں پہ یقین نہ کریں تو اور کس پہ کریں ؟ کیونکہ یہ منصور خان پہلا مردود نہیں ہے جس نے قوم کو دھوکا دیا. اس سے پہلے بھی حیدرآباد میں ہیرا گروپ کی آپا نوہیرا شیخ جو خود کو عالمہ کہا کرتی تھیں انہونے نے بھی اسلام اور شریعت کو ڈھال بناکر مسلمانوں کو لوٹا ان کے علاوہ بھی ایسے کئی فراڈ چارسو پیس آئے اور ملت کو لوٹ کر رفوچکر ہوگئے یہاں تک کہ حال ہی میں آئی ایم اے کا گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد دو کمپنیاں فرار ہوچکی ہیں جن میں سے ایک ٹمکور کی ” ایزی مائنڈ مارکیٹنگ انڈیا پرائویٹ لمیٹیڈ نامی کمپنی کا مالک محمد اسلم مسلمانوں کو زیادہ نفع کا لالچ دلاکر 600 کروڑ سے ذائد رقم لے کر فرار ہوچکا ہے
اور تحقیق کے دوران جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ ہمیشہ کی طرح ماضی کے فریب سے میل کھاتی ہیں اور ایسے میں مسلمان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں, ہماری رقومات ہمارا سرمایہ لے کر فرار ہوئے بھگوڑوں اور اُن کا ساتھ دینے پشت پناہی کرنے والے منافقوں کو نظرانداز کر ایک دوسرے کو موردالزام ٹہرانے میں لگ جاتے ہیں جیسے ابھی ہورہا ہے اہل علم کا ایک بڑا طبقہ بیچارے مجبور و مظلوم اپنا سب کچھ گنواچکے سرمایہ کار کو لالچی, ہوسی,  بیوقوف جیسے القاب سے نواز کر اُن کا مذاق اڑارہا ہے تو دوسری جانب دیگر کئی جماعتیں دو,  چار کی غلطی,  لاپرواہی کو وجہ بناکر علما کو بدنام کرنے میں لگی ہیں جو  مسلمانوں کے مستقبل کے لئے بیحد  خطرناک ثابت ہوگا ایسے میں اللہ سبحان تعالیٰ ہی امت مسلمہ کی مدد فرمائیں اور اس طرح کے دھوکے, فریب, حادثات سے ہماری حفاظت فرمائیں آمین
ورنہ اللہ نہ کریں ہمارے آپسی اختلافات کی قیمت ہماری آنے والی نسلوں کو چکانی پڑے گی
ویسے بھی اس مردود کی وجہ سے غیر مسلمان ہمارا مذاق بناتے ہوئے مزہ لے رہے ہیں, کئی میڈیا چینلس پہ اہل علم حضرات کو بدنام کیا جارہا ہے,  ایک دو کی لاپرواہی مفاد پرستی یا نادانی جو بھی کہیں اس کی وجہ سے سبھی کی عزت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں, ہمارے درمیان پھوٹ ڈالنے آپس میں لڑوانے کی کوشش زور و شور کی جارہی ہے اور ان تمام حالات کی وجہ وہ خبیث منصور ہے کیونکہ اُس شیطان صفت انسان نے جس شاطرانہ طریقے سے جال بچھایا تھا اُس میں عوام کے ساتھ ساتھ اہل علم حضرات, مسلم قائدین و میڈیا  بھی پوری طرح سے پھنس چکے ہیں.
 سبھی کی آنکھوں پہ اچھائی,  دینداری کا چشمہ پہنا کر وہ اپنا الو سیدھا کرتا رہا جس کے لئے بیشک اُسے چند لالچی سیاستدانوں و منافقوں کی پوری مدد ملتی رہی ہوگی اور اب اپنے آقا کے فرار ہونے کے بعد سارے مریدوں کے انداز بدلے بدلے سے نظر آرہے ہیں اور اُن کے اندر سے مکاری کی روح باہر نکل کر دوبارہ ہمدردی کی روح داخل ہوچکی ہے لیکن “

اب بولو تو کیا ہو وت ہے جب چڑیا چوک گئی کھیت “
اور ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ان غم خواروں  کی تیڑھی, میٹھی, سیدھی باتیں ہمیں کوے کی کائیں کائیں کے مانند لگتی ہیں کیونکہ آج کے انسان کی سچائی محض شاعر کے ان اشعار جیسی ہے
جھوٹی باتیں جھوٹے لوگ
سہتے رہینگے سچے لوگ
ہریالی پر بولینگے
ساون کے سب اندھے لوگ
دو پیسے میں بکتے ہیں
کرداروں کے سستے لوگ
میری گذارش کیا سنتے
اونچے قد کے چھوٹے لوگ
غیر تو آنسو پونچھینگے
دھوکہ دینگے اپنے لوگ
ایک جگہ کہاں ملتے ہیں
اتنے سارے اچھے لوگ …..
ہماری قوم کے تمام رہنماؤں سے دردمندانہ گذارش ہے.
آپ حضرات آگے آئیں, خود کو بےسہارا محسوس کررہی قوم کو حوصلہ دیں, اُن میں نئی امید جگائیں  تاکہ آپ کی ہمدردی, خلوص پاکر فی الحال اُن کے اندر آپ کے لئے جو غصہ شک و شبہہ ہے وہ کم ہوجائے اور اپنوں کے لئے کھویا ہوا یقین دوبارہ لوٹ آئے ورنہ ہمارے اندرونی مسائل ہمیں کھوکھلا کرکے رکھ دینگے ویسے بھی خود کو قوم کے قائد و رہنما کہلانے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے معملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فریبی منصور کے خلاف کاروائی کروائیں اُنہیں واپس ہندوستان لانے کی کوشش کریں تاکہ مظلوموں کو انصاف ملے اور جو کوئی بھی اس فریب میں شامل ہیں ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ آئندہ کوئی اور نوہیرا اور  منصور بن کر لالچی و منافقوں کو استعمال کر قوم کو لوٹنے کی جراءت نہ کرپائے ورنہ اللہ نہ کریں وہ دن دور نہیں جب قوم دشمنوں کے وار  سے پہلے ہی ان منافقوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گی
ویسے بھی تاریخ خود گواہ ہے کسی بھی قوم کی بربادی کے ذمہ دار اتنے دشمن نہیں رہے جتنے منافق تھے …………..