Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 16, 2019

بوٸے خوں أتی ہے اس قوم کے افسانوں سے !!

    از//  شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی۔۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اقتدار کی ہوس جب حواس پر چھا جاتی ہے،تخت وتاج جب زندگی کا واحد مقصد قرار پاتاہے، حکومت کا حصول جب اصل نصب العین بن جاتا ہے،
تو امانت ودیانت بے حیثیت اور اخلاق و کردار بے معنیٰ ہوجاتے ہیں، حق وانصاف بے وقعت اور اخوت وانسانیت بے جان ہوجاتی 
ہیں۔
شرف الدین عظیم قاسمی۔

حصول اقتدار اور تخت حکومت کی راہوں پر چلنے والوں نے ہمیشہ انسانیت کو شرمسار کیا ہے ،اصول وضوابط کو
پامال کیا ہے، انصاف ودیانت کا خون کیا ہے'اور انسانیت کے انہیں کرداروں کی لاشوں پر حکمرانی کے محلات تیار کئے ہیں'۔
ملک عزیز ہندوستان کی اہم شناخت مذہبی رواداری جو صدیوں سے جاری تھی اور امتیازی شان بے داغ جمہوریت تھی جو آزادی کے بعد سے ترقی کی راہوں پر گامزن تھی، مگر ملک کے افق پر جمہوریت کے آفتاب کو اس وقت گہن لگ گیا جب 2014میں مخصوص نظریہ کی حامل شدت پسند جماعت نے عوام کی رائے پر شب خون مارا، انصاف ودیانت کا خون کیا، اور مذہب کی سوداگری و نفرت کی تجارت کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوگئی ۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سیکولر مخالف علمبرداروں نے سادہ لوح عوام کو روشن مستقبل کے بے شمار سبز باغ دکھائے، ترقی وخوشحالی کے وعدے کئے، سیکولر ازم اور رواداری وانصاف کی دہائیاں دیں، اپنی قوم میں نفرت وتعصب کے شعلے بھڑکا کر سیکولر نظام کے خلاف متحد کیا،
سنہرے مستقبل کی اشاعت کے لئے میڈیا کو بڑے پیمانے پر خریدا گیا، جھوٹے پراپیگنڈے کی اشاعت کے لئے عربوں روپئے پانی کی طرح بہادئے گئے،سچائی پر پابندیاں عائد کردی گئیں، ان تمام انتظامات اور منصوبہ بندی کے بعد بھی جب صورت حال میں غیر یقینی کی کیفیت نظر آئی تو الیکشن کمیشن کو قبضے میں لے کر جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی۔ اور الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے پورے ملک پر فتح کا پرچم صرف تیس فیصد ووٹ کے باوجود نصب کردیا گیا۔ انصاف ودیانت کا خون کردیاگیا، مخصوص نظریہ کاحامل ڈکٹیٹر شب جیت گئی ،جمہوریت تار تار ہوکر رہ گئی،ملک  اضطراب کے سمندر میں ڈوب گیا۔حسرت ویاس کی تاریکیاں ہر سو پھیل گئیں، ایام خوف ودہشت اور راتیں کربناک اندیشوں میں گذرنے لگیں، اختیارات حکمرانی کے کچھ ہی دنوں بعد اندیشے حقیقت کی صورتوں میں ظاہر ہونے لگے، وسوسے مجسم ہوگئے، ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھنے کی آرزو کا اظہار کرنے والے کی قیادت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمان مسافروں مزدوروں،پر دن دھاڑے حملے شروع ہوگئے۔سیکڑوں مسلمان نوجوانوں کو گائے کے نام پر مار دیا گیا، دہشت گردی کی آڑ میں بہت سے معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا،مسلم بستیوں پر متشدد انتہا پسند ہجوم کی لوٹ مار ایک عام بات ہوگئی،فرضی سرجیکل میں سیکڑوں جوان زندگی سے ہار گئے
چونکہ اس جماعت کے پاس ملک کی ترقی کا  کوئی منصوبہ تھا،نہ ہی کوئ شعور۔معاشی اور سیاسی لحاظ سے کوئی پلاننگ تھی اور نہ ہی معاشی دنیا کے اصول و ضوابط کے بارے معلومات،ان کا ایجنڈا قوموں کے درمیان منافرت پھیلانے کا عزم تھا سو وہ کررہے تھے،

اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت تھی پس اس سلسلے میں ان کی کوششیں تیز رفتار تھیں،
بصیرت سے خالی اس قیادت نے متوسط سے لیکر پسماندہ طبقات تک نوٹ پر اچانک پابندی کے ذریعے بینک کی لائینوں میں لگا کر ان کی زندگی کے دائرے کو بالکل تنگ کر دیا،جی ایس ٹی،قانون نافذ کرکے بزنس مین اور متوسط تاجروں کے لئے ترقی کی راہوں کو بند کردیا۔
نتیجتاً ملک اضطراب کا شکار ہوگیا،بے چینیاں چاروں طرف پھیل گئیں، فضائیں مکمل زہر آلود ہو گئیں، اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس قوی ہو گیا،
ایک اخلاق کا ابھی زخم بھرتا نہیں تھا کہ دوسرا سانحہ وجود میں آجاتا، عزتوں کی لاشوں کی ابھی تدفین نہیں ہوپاتی کہ آصفہ کی صورت میں دوسرا المناک واقعہ رونما ہوجاتا، معیشت تنزل کی انتہا کو پہونچ گئی، فیکٹریوں کارخانوں اور صنعتی کاروباروں کی ترقیاں یک لخت رک گئیں، بلکہ بے شمار فنا کے گھاٹ اتر گئیں، اشیا کے نرخ آسمان کو چھونے لگے،آتش وآہن کی اس فضا میں اور عدم تحفظ کے اس ماحول میں جمہوریت کی لاش پر اور ہٹلر ومسولینی کی اس رہ گذر پر ملک نے پانچ سال کا سفر اس حال میں طے کیا کہ ملک کے سیکولر نظام کا تانا بانا بکھر چکا تھا، معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تھی،اچھے اچھے سرمایہ دار فٹ پاتھ پر آگئے،نفرت تعصب، اشتعال انگیزی، مآب لینچینگ اور اجتماعی حملوں کے باعث پوری فضا لہو لہو تھی،خصوصا مسلم اقلیت کے حق میں اس ملک کے ایام ظالم اور راتیں سفاک ہوچکی تھیں،۔اورپھر پانچ سال کے صبر آزما لمحات کے بعد جب 2019، کا انتخاب آیا، تو لوگوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی کہ شاید کھویا ہوا امن واپس ہوجائے، گمشدہ انصاف کو اپنا مقام مل جائے،لہو لہو جمہوریت کے اجسام کو دوبارہ تحفظ حقوق کا مرہم حاصل ہوجائے،
زبان وقلم کی مسلوب آزادیاں تانا شاہی کی زنجیروں سے آزاد ہوجائیں۔کہ موجودہ حکومت کی سیاسی معاشرتی اور معاشی ہر لحاظ سے ناکامیاں سورج کی روشنی کی طرح وضاحت کررہی تھیں کہ ملک کا عام شہری اصحاب اقتدار سے نالاں ہے'،ان کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا ناقد ہے'، ان کے طرز حکمرانی کا شدید مخالف ہے'۔
انھیں امیدوں کی روشنی میں پورے اہتمام اور جذبے سے عوام نے حق رائے دہی کا استعمال کیا،بی جے پی کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ملک کے اکثر یتی طبقے نے بھی اپنی کوششیں صرف کردیں۔۔
مگر جب ریزلٹ آیا تب یہ راز کھلا کہ ملک کے تمام مرکزی محکموں کی جڑوں میں فرقہ پرست جماعتوں کی قوتیں اس طرح پیوست ہیں کہ اب ووٹنگ اور انتخابات کی حیثیت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا سے لیکر الیکشن کمیشن تک تمام ادارے حکمراں جماعت کے زرخرید غلام بن چکے ہیں،
ایک طرف میڈیا نے فرقہ پرستی کی حمایت،اسکی حفاظت،اور اس کے سیاہ کرداروں پر جھوٹ کا پردہ ڈال کر اپنے فرض سے انحراف کیا ہے تو دوسری طرف ،عدل وانصاف کے علمبردار الیکشن کمیشن نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بند طریقے پر انتخابات کو مخصوص جماعت کے لئے فکس کرکے جمہوریت کا نہ صرف خون کیا بلکہ اس شعبہ کو اپنے سیاہ کرداروں سے مجروح بھی کرڈالا۔پورا ملک چیختا رہا کہ ای وی ایم مشینوں میں خرد برد کا امکان بہت زیادہ ہے
اس لیے انتخابات بیلیٹ پیپر کے ذریعے ہوناچاہیے لیکن احتجاج کی ساری صدائیں بے اثر ہوگئیں اور مشینوں نے وہ کام کردکھایا جس کے لیے انہیں لایا گیا تھا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں ان مشینوں کا وجود ہوا وہاں تو یہ ناقابل اعتمادٹھہریں لیکن انھیں کے نقش قدم پر چلنے والا یہ ترقی پذیر ملک جو ابھی ان سے نصف صدی پیچھے ہے'ہزار اعتراضات اور تحفظات کے باوجود اسی کے ذریعے انتخابات کرانے پر مصر ہے'،کھلی ہوئی بات ہے کہ اس کے پیچھے ایک مخصوص پارٹی کے لئے فتح و ظفر کا اہم منصوبہ تھا اور
بی جے پی کی ان تمام خطوں میں اکثریت سے کامیابی جہاں اس کی حمایت کا کوئی نشان بھی نہیں تھا۔بتارہی ہے کہ فرقہ پرستی کے حاملین اپنے مقصد میں مکمل کامیاب ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ بی جے پی نے اقتدار اعلیٰ کے حصول کے لیے ان تھک محنتیں کیں، عوام کی ذہن سازیوں میں بے دریغ سرمایہ خرچ کیا، میڈیا کے سہارے صداقت کا گلا گھونٹ کر نیشنل پیمانے پر جھوٹ،فریب،اور کذب و افتراء کی اشاعت کی، عدلیہ کو ماتحت کیا،الیکشن کمیشن کا سودا کر کے مشینوں کو ایک نشان کے لئے خاص کیا۔
تاہم اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کانگریس نے اپنی ناقص پالیسی، قیادت کی نااہلی، سیاسی شعور کے فقدان کے باعث انتہا درجے کی بے بسی کا ثبوت دیا ہے، موروثیت،
شخصیت پرستی، اقدامی پوزیش سے بے خبری، بصیرت مندانہ قیادت سے محرومی کی وجہ سے حقیقت یہ ہے کہ سیکولر نظریہ اور جمہوری نظام پر یقین رکھنے کے باوجود کانگریس اس وقت چراغ سحر کے مانند ہوگئی ہے،
ایسی صورت حال میں بی جے پی کے سامنے نیشنل پیمانے پر کوئ سیاسی محاذ باقی نہ رہ سکا اور مذہب کے نام پر فرقہ پرست جماعت پورے ملک کی فضا پر چھا گئی،
ان کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی ساری راہیں کھل گئیں،اور ہر وہ چہرہ خیانت کی سیاہی سے داغدار تھا حکومت میں آگیا۔ہر وہ فرد جس کا کردار نفرت وتعصب کے ڈوبا ہوا ہے نمائندہ بن گیا،ستم یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگین ہیں وزیر بن گئے،
چنانچہ ملک کی جمہوریت اور اس کے خوبصورت اقدار وروایات کا جنازہ اس وقت نکلا جب ملک کا اہم ترین منصب وزارت داخلہ امت شاہ کو سپرد کر دیا گیا،
امت شاہ ملک کی وہ شخصیت ہے'جس کا پورا وجود بے گناہ نوجوانوں کے خون میں غرق ہے'،انہیں فرضی انکاؤنٹر،
قتل وخون،کا ماسٹر کہا گیا ہے،گجرات کے بہت سے پولیس کو موت کی گمنام وادیوں میں ڈالا ہے،سہراب الدین اور کوثر بی اور عشرت جہاں اور اس جیسے نہ جانے کتنے لوگ اس کے کردار پر موت کے کوئیں میں ہمیشہ کے لیے چلے گئے،
ظلم وجبر کی علامت سمجھے جانے والے اس شخص کے ہاتھوں میں قلمدان وزارت کو سپرد کرکے اہل ملک کو درحقیقت یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب یہاں جمہوریت،سیکولر ازم،اور مذہبی رواداری کے پرندوں کی تلاش بے سود ہے'،اب ملک اور اس کا نظام صرف چند لوگوں کی کنیز ہے'،ان کا عمل اس کا نظام اور ان کا حکم آخری فیصلہ ہے'،
حالات کی سنگینی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اگر ملک کی سالمیت عزیز ہے'،جمہوریت کا تحفظ درکار ہے،اپنا تشخص پیارا ہے اپنے مذہب اور اپنے اقدار کے جینے کی تمنا ہے۔تو ضرورت ہے کہ مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے،منظم منصوبہ بندی کی جائے، ایک عظیم قیادت کے سائے میں تحفظ کی راہیں تلاش کی جائیں۔تنزل کے اسباب کا ادراک کیا جائے،تعلیمی راہوں کا صحیح انتخاب کیا جائے اور سول محکموں داخلے کے راستے ہموار کئے جائیں۔
ملک کے اس سلگتے ماحول میں وقت کی آواز کا ادراک نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہاں اقلیتوں کے لیے اپنے تشخصات کے ساتھ جینا ناممکن ہوجائے گا۔پرسنل لا کا خاتمہ ہوجائے گا،زندگی کے تمام معاملات میں یکساں نظام اور مخصوص قانون نافذ ہوجائے گا،ملک کی بڑی اقلیت فرقہ پرستوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گی۔۔۔