Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 16, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔قسط چہارم۔


مولانا فضیل احمد ناصری ۔۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*الٹے پاؤں پلٹنے کا ایک واقعہ*
الٹے پاؤں پلٹنے پر ایک واقعہ یاد آیا۔ سات آٹھ برس ہوتے ہیں، یہی احسن رضا میرے ساتھ تھے۔ وہ اس وقت قطب مینار دہلی کے قریب کسی بدعت خانے میں بدعات کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ میری خواہش تھی کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر حاضری دوں۔ یہ تیرہویں صدی عیسوی کے بزرگ تھے۔ 1273 میں پیدا ہوئے اور 1327 میں وفات پائی۔ بڑے باخدا تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے خلیفہ اور بابا فریدالدین گنج شکر کے پیر و مرشد ۔ ان کی شخصیت علوم و معارف کا گنجینہ اور معرفتِ الہی کا دفینہ تھی۔ اپنی وفات کے وقت وصیت ان الفاظ میں کی:
*میری نمازِ جنازہ وہی آدمی پڑھا سکتا ہے جس میں چار شرطیں موجود ہوں*:
1: اس کی تکبیرِ اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
2: عصر اور عشا کی سنتیں اس سے کبھی ترک نہ ہوئی ہوں۔
3: تہجد کی نماز اس نے قضا نہ کی ہو۔
4: غیر محرم لڑکی پر کبھی اس کی نظر نہ پڑی ہو۔
خواجہ کا انتقال ہوا، جنازہ رکھا تھا، ان کا ایک خدمت گار آگے بڑھا اور اعلان کیا: جس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں وہی آگے بڑھے ۔ مجمع میں سے کافی دیر تک کوئی نہ نکلا تو ایک درویش کھڑا ہوا اور اس نے روتے ہوئے کہا کہ: افسوس کہ آج میرا راز فاش ہو گیا۔ مجھ میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہیں۔ یہ درویش کوئی اور نہیں، ہندوستان کے حکمراں سلطان شمس الدین التمش تھے۔ جنازہ انہوں نے ہی پڑھایا۔
ایک دن احسن رضا صاحب مجھے وہاں لے گئے۔ دیکھا تو درگاہ بدعات و خرافات کا مخزن تھی۔ ایصالِ ثواب کیا اور ہم نکلے۔ احسن رضا صاحب کے نکلنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ میں نے پوچھ لیا: جناب! سیدھے جانے اور الٹے پلٹنے کی وجہ؟ تو کہنے لگے کہ یہ اللہ کے ولی کی آرام گاہ ہے۔ سیدھے لوٹ جانا انہیں پیٹھ دکھانا ہے، یہ بڑی بے ادبی ہے۔ میں نے بے ادبی سے بچنے کی غرض سے ایسا کیا۔ فوراً میں نے اعتراض جڑ دیا: جناب! یہ بزرگ زیادہ قابلِ احترام ہیں یا آپ کی ماں؟ کہنے لگے: ماں۔ میں نے کہا: پھر آپ اس طرح وہاں سے کیوں نہیں پلٹتے؟ وہ خاموش رہے۔ پھر پوچھا: آپ مسجد میں جاتے ہیں، وہاں قرآن رکھا ہوتا ہے، آپ کی واپسی وہاں سے اس رنگ کی کیوں نہیں ہوتی؟ پھر ایک طویل خاموشی۔ بے چارے کے پاس آج تک کوئی جواب نہیں۔

*ازہری میاں کی قبر پر*
خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ درگاہِ رضویہ سے باہر نکلا تو دیکھا میرے رہبر احسن رضا صاحب قافلے کے ساتھ بائیں طرف جا رہے ہیں۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ سات قدم کے بعد ادھر درگاہِ رضویہ ختم ہوئی اور دوسری بڑی عمارت میرے سامنے تھی۔ دونوں عمارتوں کے درمیان ایک پتلی سی گلی تھی، جس میں درگاہوں پر چڑھاوے کے لیے لوگ ریڑھیاں لگائے بیٹھے تھے۔ چادریں، اگربتیاں، پھول اور شیرینیاں اور چڑھاوے کے سارے ضروری لوازمات دستیاب و مہیا۔ ہم عمارت میں داخل ہوئے۔ یہ عمارت ایک سال قبل *ازہری گیسٹ ہاؤس* سے موسوم تھی۔ جولائی 2018 میں ازہری میاں کا انتقال ہوا تو اس پورے گیسٹ ہاؤس کو درگاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ پندرہ قدم اندر بڑھے ہوں گے کہ ازہری میاں کی قبر سامنے تھی۔ دو چار مجاورین سر بجیب۔ قبر رنگین اور منقش چادروں سے ڈھکی ہوئی۔ مٹی کا اتہ پتہ نہیں۔ اوپر جھومروں کی کثرت۔ قبر کے سرہانے شیشے سے تیار شدہ ایک گنبد نما ظرف، جس میں چاندی کا بڑا سا تاج رکھا تھا۔ یہ ازہری میاں کے معروف لقب *تاج الشریعہ* کی طرف مشیر تھا۔
ازہری میاں کا پورا نام اختر رضا خاں ہے۔ یہ جناب ابراہیم رضا خاں کے بیٹے، حامد رضا خاں کے پوتے اور بانئ بریلویت کے پرپوتے تھے۔ 1940 میں پیدا ہوئے اور 2018 میں وفات پائی۔ اپنے حلقے کے وہ محدث بھی تھے، مفسر بھی۔ فقیہ بھی تھے، متکلم بھی۔ خطیب بھی تھے، ادیب بھی۔ علم و فن کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس پر انہیں یدِ طولیٰ حاصل نہ ہو۔ خاندانِ رضوی میں سب سے بڑے یہی تھے۔ دنیائے بریلویت میں انہیں کا سکہ چلتا تھا، جسے وہ کافر کہہ دیں، کسی بریلوی کی مجال نہیں کہ اسے مسلمان باور کر لے۔ منظرِ اسلام سے مستفید، جامعہ ازہر مصر کے تعلیم یافتہ اور تاج الشریعہ کے لقب سے ملقب۔ ایک بار انہیں روپیوں میں بھی تول دیا گیا تھا۔ ان کی قبر دیکھی تو اندازہ ہوا کہ بدعتیوں کے عام مزارات کی طرح یہ بھی کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ عمارت وسیع و عریض تھی۔ خوب صورت اور پرکشش بھی تھی۔ یہاں بھی میں نے کوئی دعا وغیرہ نہیں کی اور چار پانچ منٹ ٹھہر کر نکلنے کی راہ لی۔ نکلتے ہوئے خیال آیا کہ مجددِ بدعات کے مقبرے کا فوٹو ممانعت کی بنا پر نہ لے سکا تھا، یہاں شاید وہ سختی نہ ہو، لہذا ایک عدد تصویر تو لے ہی لی جائے۔ پھر خیال آیا کہ غلہ پر ایک صاحب بیٹھے ہیں، ان سے اجازت لے لی جائے۔ انہوں نے اجازت نہیں دی۔ ان کی بغل میں بانئ بریلویت کی قائم کردہ تنظیم *جماعت رضائے مصطفےٰ* کا قدِ آدم اشتہار تھا، اس کی تصویر کشی کی اجازت چاہی، وہ مل گئی اور میں تصویر لے کر باہر نکل آیا۔
*مدرسہ منظرِ اسلام بریلی میں*
وہاں سے نکلے تو احسن رضا نے بتایا کہ یہ تو رہی درگاہِ اعلیٰ حضرت۔ اب یہاں سے متصل بائیں طرف جو عمارت ہے وہ مدرسہ منظرِ اسلام کی ہے اور دائیں طرف اس کی مسجد۔ معبد اور درگاہ کی گلی سے بالکل باہر نکل گئے تو احسن رضا نے پچھم کی طرف قدم بڑھایا، تین چار قدم کے فاصلے پر وہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: یہ مدرسہ منظرِ اسلام ہے اور یہ اس کی مسجد۔ چلیے مسجد میں چلتے ہیں اور مدرسے کی زیارت کرتے ہیں۔ میں نے کہا: چلیے۔ اب ہم زینے چڑھ کر معبدِ منظرِ اسلام میں تھے۔ زینے اس طرح ڈھلان والے کہ بڑی احتیاط سے ہی اترا اور چڑھا جا سکتا ہے، بوڑھا اور کمزور آدمی معمولی لغزش سے اپنے ہاتھ پیر تڑوا لے۔ اس زینے میں کل 11 پیڑھیاں تھیں۔ عبادت خانے کو غور سے دیکھا تو انوار و برکات کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تین چار سو نماز گزاروں کی اس میں گنجائش تھی۔ یہ عبادت گاہ دو منزلہ تھی۔ اس کے دائیں طرف یعنی جانبِ مشرق میں مدرسہ منظرِ اسلام کی سہ منزلہ عمارتیں تھیں۔ احسن رضا نے بتایا کہ مسجد کے چاروں طرف منظرِ اسلام ہی کی عمارتیں ہیں۔ ہرے رنگ سے مزین۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں چھ سات سو طلبا عالَمِ بریلویت کی کمان سنبھالنے کی مشق کے لیے ہر وقت خیمہ زن رہتے ہیں۔ یہی طلبا آگے چل کر بدعات کے سب سے بڑے نقیب اور سنت کے سب سے بڑے حریف بنیں گے۔ جانبِ مشرق دیوار کو دیکھا تو طغرے کی طرز پر اس کا نام اس طرح درج تھا: *مدرسہ اہلِ سنت و جماعت معروف منظرِ اسلام بریلی* ۔ ساری عبارت سمینٹ کو ابھار کر لکھی گئی تھی۔ خط انتہائی خراب اور متلی آور۔ بد ذوقی کا غماز۔
*مدرسہ منظرِ اسلام بریلی کا تعارف*
یہ مدرسہ بانئ بریلویت کا قائم کردہ ہے۔ اس کا سنگِ بنیاد 1904میں پڑا۔ ظفرالدین بہاری کی کوششیں نہ ہوتیں تو شاید اس کا قیام عمل میں نہ آتا۔ پہلے ماہ کے سارے اخراجات بہار کے اسی بریلوی معتقد نے اپنی جیب سے ادا کیے۔ خان صاحب نے انہیں ہی بخاری پڑھا کر مدرسے کا افتتاح کیا۔
نرالے مجدد نے اپنے *دارالتکفیر* کی مسند یہیں سجائی تھی۔ حرمین شریفین، عالمِ اسلام اور دیوبندیت کے خلاف بہت سارے لٹریچر یہیں بیٹھ کر لکھے گئے۔ کفر کے اکثر گولے یہیں نصب کردہ توپوں سے برسائے گئے۔ یہ خان صاحب کی وہ آماج گاہ تھی، جہاں سے ان کے مخالفین پر کفر و الحاد اور فسق و زندقہ کی برچھیاں پھینکی جاتی تھیں۔ میں منظرِ اسلام کی عمارت کو دیکھتا رہا اور 100 برس پہلے کی اس فضا کا تصور کرتا رہا جس میں مجدد صاحب زندہ تھے اور شب و روز کی انتھک کوششوں سے پہلے سے رائج بدعات کو نہ صرف فروغ دے رہے تھے، بلکہ قرآن و حدیث اور اجماع و قیاس سے من گھڑت انداز میں اسے تقویت بھی بخش رہے تھے۔ خان صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ جہاں مسلمانوں کو کافر بنانا ہے، وہیں بدعات و خرافات کو مدلل کرنا بھی۔
یہ مدرسہ آج بھی اپنے تکفیری مشن پر خوب سرگرم ہے۔ نرالے مجدد کی اولادیں اگرچہ آپس میں لڑ رہی ہیں اور مقدمے بازی میں مصروف ہیں، مگر منظرِ اسلام اپنے پرانے ٹریک پر تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے ۔
[جاری]