Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 16, 2019

فلسطین۔۔۔۔۔مودی یاہو قربت کا مطلب۔!!


از۔۔شکیل رشید/ صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کی اسرائیل سے قربت کے کیا معنیٰ ہیں؟


اقوام متحدہ کی معاشی وسماجی کونسل میں ایک فلسطینی این جی او ’ شاہد‘ کو مبصر کی حیثیت دینے کے خلاف ہندوستان کے اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے ، یا باالفاظ دیگر اسرائیل کے حق میں ووٹ کرنے کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ یہ اسرائیل کی سمت ہندوستان کا دوستی کا ایک مثبت قدم ہے ۔ مثبت اس معنیٰ  میں کہ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان نے فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کی حمایت  میں کوئی ووٹ دیا ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان ’ کھلے طور ‘پر نہ سہی  پر’ ڈھکے چھپے تعلقات‘ تو کئی دہائیوں سے رہے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان نے 1947 میں اسرائیل کے قیام کی اور 1948 میں اقوام متحدہ میں اس کی شمولیت کی مخالفت کی تھی لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ 1962 میں چین سے جنگ کے بعد ہندوستان نے ہتھیاروں کے سلسلے میں اسرائیل سے ہی مدد لی تھی ۔  وہ نہ بی جے پی کا زمانہ تھا اور نہ ہی نریندر مودی کا بلکہ کانگریس کا دور تھا ۔ اور یہ کانگریس کی نرسمہاراؤ والی مرکزی سرکار ہی تھی جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرکے یہ صاف صاف اعلان کردیا تھا کہ اسرائیل اب ہندوستان کے لئے ’ پرایا‘ نہیں رہا ہے ۔ لیکن اب وزیراعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے استحکام میں جو تیزی آئی ہے وہ غیر معمولی ہی کہی جائے گی ۔ مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے نہ صرف پہلے ہندوستانی وزیراعظم بنے بلکہ اب اقوام متحدہ میں ان کی سرکار نے فلسطین کے خلاف ووٹ دے کر گویا کہ یہ اعلا ن بھی کردیا کہ ہندوستان اب  اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتا رہے گا ۔ 2014ء میں مودی سرکار کے قیام کے بعد  2015 میں ہندوستان اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے کمیشن میں اسرائیل کے خلاف ووٹنگ کے موقع پر غیر حاضر رہا ۔۔۔ اس ’ غیر حاضری‘ کے بعد ہی وزیراعظم مودی اسرائیل گئے اور تین روز تک وہاں رہے ۔ حالانکہ اس کے بعد ہندوستان نے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کی مخالفت میں ووٹ دیا ۔ لیکن چونکہ اب اسرائیل کی حمایت میں ووٹ دے کر ہندوستان نے پہلے کی مخالفت کا ازالہ کردیا ہے  اس لئے دونوں کے تعلقات میں نئی گرمجوشی آگئی ہے ۔ ہندوستان کا یہ عمل اسرائیل کی نظر میں کتنی اہمیت کا حاملِ  ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتین یاہو نے بذات خود وزیراعظم مودی کا شکریہ ادا کیاہے  ۔
ہندوستان اور اسرائیل یا مودی اور یاہو کی یہ قربت آج کے دنوں میں اس لئے بھی موضوع بحث ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حملوں کی رفتار تیز کردی ہے ۔ فلسطین میں ظلم وجبر کا ایک نیا باب کھول دیا گیا ہے ۔ لہٰذا اس موقع پر ہندوستان کی حمایت اسرائیل کے لئے ایک طرح سے ’ اس کا پیٹھ تھپتھپانا‘ ہی ہے ۔ اسرائیل کے جبر کی دو بے حد بھیانک مثالیں حال ہی میں سامنے آئی ہیں ۔ ایک مثال پانچ سالہ عائشہ لولو کی ہے اور دوسری مثال سترہ سالہ محمد حسنین کی ہے ۔ عائشہ لولو کینسر کی مریضہ تھی۔ تھی، اس لئے کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے ۔ غزہ کا جو غیر انسانی محاصرہ اسرائیل نے کررکھا ہے ، یا اگر یہ کہا جائے تو کہیں زیادہ صحیح ہوگا کہ اسرائیل نے غزہ  کو جو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے ، اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غزہ میں اشیائے  خوردونوش کے ساتھ ادویات کی قلت ہوگئی ہے ۔ پانچ سالہ عائشہ کو جب دماغی کینسر ہوا تب وہ غزہ پٹی کی البریج پناہ گزین  کیمپ میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ عائشہ لولو کو یروشلم کے اسپتال بھیج دیا گیا لیکن اس کے والدین کو یروشلم نہیں جانے دیا گیا کیونکہ غزہ کے محاصرے کی وجہ سے فلسطینیوں کا یروشلم میں داخل ہونا ،ممکن نہیں ہے ۔ عائشہ لولو کی سرجری ہوئی اور جب وہ آپریشن تھیٹر سے باہر نکلی تو اس کی زبان پر ’ اما ں اور ابّا‘ کی رٹ تھی لیکن اس کے والدین غزہ میں محصور تھے ۔ جب عائشہ لولو کی حالت بگڑگئی تو اسے غزہ واپس بھیج دیا گیا جہاں وہ ایک ہفتے بعد چل بسی ۔ عائشہ لولو کے والد وسام لولو کا کہنا ہے کہ’ ’ میری بیٹی کو طبّی سہولیات تک مہیا نہیں ہوسکیں ، میری بچی کے ساتھ جو ہوا وہ دنیا میں کسی بچے کے ساتھ نہ ہو۔‘‘
پر کیا کیا جائے کہ غزہ میں تو ایک ایسا المیہ جنم لے رہا ہے جو بے حد ہولناک بھی ہے اور مہذب دنیا کے لئے بے حد شرمناک بھی۔ غزہ کے اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بیمار بچے جان سے  جارہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سالِ رواں میں مریضوں کے ساتھ اہل خانہ کے  اسپتالوں میں جانے  اور ساتھ رہنے کی جو درخواستیں اسرائیلی  حکام کو موصول ہوئی ہیں ان میں سے نصف سے زائد رد کردی گئی ہیں ۔ لہٰذا ، کوئی چھ سو مریض جن میں درجن بھر اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچے ہیں بغیر والدین کے یا بغیر کسی عزیز اور رشتے دار کے تن تنہا علاج کے لئے یروشلم جانے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ اسرائیل غزہ کے محاصرے کو لازمی قرار دیتا ہے ، اس کا کہنا ہے کہ اگر محاصرہ نہ کیا گیا تو حماس کے کارکنان کو مسلح ہونے کا موقع مل جائے گا ۔
مسئلہ صرف مریضوں کا ہی نہیں ہے ، جبر کا ایک اور طریقہ ہے گرفتاریاں بالخصوص بیماروں کی گرفتاریاں۔
محمد حسنین کی مثال لے لیں ۔۔۔ محمد حسنین کی گرفتاری 15 مئی 2019 ء کو ہوئی تھی ۔ وہ روزہ افطار کرنے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ شمالی البیرہ شہر کے اپنے گھر سے باہر نکلا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے اس پر اور اس کے دوستوں پر اندھا دھندگولیاں برسادیں ۔ اس کی ایک ٹانگ بری طرح سے زخمی ہوگئی ، وہ گرپڑا اور زخمی حالت میں اسے اسرائیلی فوجیوں نے نا معلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ محمد حسنین کے والد ابوانس کا کہنا ہے کہ اگر اس کے بیٹے کا علاج نہ کیا گیا تو اس کی ٹانگ ضائع ہوسکتی ہے ۔ اسرائیلی جیلوں میں ایسے فلسطینیوں کی، جنہیں زخمی کرکے یا گھروں میں گھس کر گرفتار کیا گیا ، بہت بڑی تعداد ہے اور ان میں بہت سارے بیمار بھی ہیں ۔ نسرین ابو کیمل  ایسی ہی ایک بیمار اسیر ہے ، اسے کینسر ہے ، اس کی حالت ابھی کچھ پہلے تک بے حد تشویش ناک تھی ۔ اسراء ادھیڑ عمر کی ہیں ، یہ بھی بیمار ہیں اور اسیر زنداں ہیں ۔ سیری المصری کو کینسر ہے ۔ وہ بھی زندان میں پڑے ہیں ۔ یہ تو بس چند نام ہیں ورنہ ایک بڑی تعداد  میں بیمار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ، انہیں طبی سہولیات مہیا نہیں ہیں ، جیل انتظامیہ ان پر جبر الگ کرتی ہے اور جبر بھی ایسا کہ اسیر جیلوں میں شہید  بھی ہوجاتے ہیں ، مثال عامر جلاد کی لے لیں ، جو اسرائیلی جیلوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں میں سے ایک ہے ۔
ایک جانب یہ جبر ہے ، دوسری  جانب مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کوکمزور کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، تیسری جانب فلسطینی آبادیوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے ناپاک منصوبے پر عمل ہے اور چوتھی جانب  اسرائیلی جبر پر تقریباً ساری دنیا کی خاموشی ہے ۔ امریکہ ،صدر ٹرمپ کی قیادت میں کھل کر صہیونی ریاست کی حمایت  میں اترآیا ہے ۔  غزہ پٹی پر ہونے والے حملوں کے خلاف اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندوں کی آوازیں دبائی جارہی ہیں ۔ اور سب سے اہم بلکہ بے حد تشویشناک امر یہ ہے کہ ساری دنیا کی خاموشی کے ساتھ مسلم ممالک جن میں عرب ممالک بھی شامل ہیں ،منہ سیئے ہوئے ہیں ۔ ترکی اور ایران اور لبنا ن وغیرہ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف آوازیں اٹھتی تو ہیں لیکن مسلم دنیا متحد ہوکر کوئی آواز نہیں اٹھارہی ہے ۔ عمان کے سلطان اپنی اہلیہ کے ساتھ گذشتہ سال اسرائیل گئے اور بنیامن نتین یاہو سے مل آئے تھے! یاہو خوش تھے ، انہوں نے اپنی کابینہ کو خوش خبری دی تھی کہ ایسی ملاقاتیں اب ہوتی رہیں گی ۔۔۔ اور جب وہ یہ خوش خبری دے رہے تھے تب ’مرکز اطلاعات فلسطین‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کھیلوں اور ثقافت کی مرکزی اسرائیلی وزیر میری رجا ابوظہبی میں موجود تھیں اور جوڈو کے ایک بین الاقوامی مقابلے سے محظوظ ہورہی تھیں!  وہاں ایک اسرائیلی کھلاڑی کی جیت پر اسرائیلی قومی ترانے کی دھن بھی بجی جس پر میری رجا کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں ۔۔۔ ٹرمپ عموماًیہ اعلان کرتے نظر آتے  ہیں کہ وہ عرب اسرائیل تنازعے کے خاتمے کے لئے اس صدی کا سب سے بڑا معاہدہ کریں گے ، یہ اعلان فلسطینیوں کی بھی اور فلسطینی کاژ سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کی بھی تشویش بڑھا رہا ہے ۔ کیونکہ لوگوں کو یہ خوب اندازہ ہے کہ معاہدے کا مطلب اپنی بچی کھچی زمین سے بھی فلسطینیوں کی بے دخلی ہوگا۔۔۔۔ اردن اور مصر کی حکومتیں اسرائیل کو تسلیم کرچکی ہیں ۔ پاکستان اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہا ہے ۔۔۔ سعودی عرب کا کردار بے حد مشکوک ہے بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کا ۔ اب اگر ایسے میں ہندوستان  پوری طرح سے اسرائیل کی حمایت میں اتر آتا ہے تو اس میں کوئی بہت حیرانی  کی بات نہیں  ہے ۔
سچ یہی ہے کہ جب ہندوستان نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت میں ووٹنگ کی ہوگی تو نہ وزیراعظم مودی کو عائشہ لولو کی یاد آئی ہوگی اور نہ ہی محمد حسنین کی ۔۔۔ اور یا د آئے بھی کیوں؟ آج کی دنیا میں مودی کے لئے نہ ہی تو عائشہ لولو کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی محمد حسنین کی اور نہ ہی فلسطین کی ۔آج ان کے لئے سب سے اہم دنیا کے ان چوٹی کے لیڈروں کے ساتھ قدم سے قدم ملانا ہے جو ایک طاقت ور صہیونی لابی کی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی کامیابی کی  معراج سمجھتے ہیں ، جنہیں یہ لگتا ہے کہ ترقی انتہائی ضروری ہے چاہے ترقی کے حصول کے لئے کمزوروں کو روندنا ہی کیوں نہ پڑے ۔۔۔ دنیا کے حالات پر جن کی نظریں ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہند ، اسرائیل تعلقات مزید مضبوط ہونگے۔ اور امریکہ ان دونوں ہی ملکوں کے درمیان  تعلقات  کو مستحکم سے مستحکم کرنے میں بڑا ہی اہم کردار ادا کرے گا ۔ رہا غزہ تو غزہ بدستور دنیا کی سب سے بڑی جیل بنارہے گا ، عائشہ لولو اور محمد حسنین جیسے بچے جبر کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے  ۔ ان کی بھینٹ پر سیاست کی نئی بازیاں کھیلی جاتی رہیں گی ،  دنیا کے طاقتور ترین لوگ اپنی جیبیں بھرتے رہیں گے ۔ اور مسلم وعرب ممالک اپنی اپنی دنیاؤں میں مگن رہیں گے ۔۔۔!