Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 16, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔قسط سوم۔


فضیل احمد ناصری / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بانئ بریلویت کی قبر کا ظاہری حال*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد رضا خاں کی قبر سے تین چار قدم کے فاصلے پر دائیں طرف تین قبریں ہیں، جن میں درمیان میں بانئ بریلویت اور ان کے دائیں مصطفیٰ رضا خاں اور بائیں طرف ریحان رضا خاں عرف رحمانی میاں ہیں۔ یہ تینوں قبریں ایک چبوترے میں ہیں۔ ان قبروں پر پھولوں کی فراوانی ہے، بالخصوص مجدد البدعات بانئ بریلویت کی قبر پر تو مٹی نظر ہی نہیں آتی۔ چبوترے کا دروازہ مجدد البدعات کی قبر کے بالکل سامنے ہے، بلکہ پیر سے ایک دم متصل۔ میں دروازے کے قریب کھڑے ہو کر خان صاحب اور ان کے دائیں بائیں قبروں کے کتبات دیکھنے لگا۔ میرے ہمراہی قبر کے سرہانے تین چار ہاتھ کے فاصلے پر بیٹھ گئے تھے، انہوں نے اشارے سے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ میں بیٹھا تھا اور میرا ذہن خان صاحب کے بدعت نواز کارناموں کی طرف دوڑ رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے آج اس پٹھان بندے کی قبر تھی، جس کی پوری زندگی سنت کے خلاف اور بدعات کی پرجوش حمایت میں گزری، جس کے نتیجے میں ملتِ اسلامیہ ہندیہ کو بریلویت کی صورت میں ایک نئی صف بندی کا زخم جھیلنا پڑا ۔ ندوۃ العلما لکھنؤ اپنے ابتدائی دور میں مدرسہ نہیں، تحریک تھا، اس کے بعض اجلاس میں خان صاحب بھی مدعو تھے۔ ایک اجلاس میں انہیں دعوتِ شرکت دی گئی، وہ گئے، مگر ان کا استقبال ویسا نہ ہوا، جیسا وہ چاہ رہے تھے۔ ناراض ہو کر وہاں سے اٹھے اور بریلی پہونچ کر تحریکِ ندوہ کو سبوتاژ کرنے کی مہم چھیڑ دی۔ اشتہار بازی کی، پمفلٹ لکھے، رسالے تیار کیے، کتابیں قلم بند کیں۔ چھوٹے بڑے رسائل سمیت 100 کتابیں ردِ ندوہ پر لکھیں، مگر ندوہ جوابی کار روائی سے باز رہا، خاموشی، طویل خاموشی، لامتناہی خاموشی۔ ردِعمل نہ ملا تو دیوبند کا رخ کیا اور دھڑا دھڑ کفر کے گولے داغنے لگے۔ دیوبند اسلام کا مضبوط قلعہ اور دین کا غیور سفیر تھا، وہ کیوں خاموش رہتا۔اس نے منہ توڑ جوابات دیے۔ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ نے *الطین اللازب علی الاسود الکاذب* اور ان جیسی درجنوں کتابیں لکھ کر بانئ بریلویت کا وہ حشر کیا کہ آج تک بریلویت اس درد سے بلبلا رہی ہے۔ میں ان کے سرہانے پر بیٹھا رہا اور ان کے 
سیاہ کارناموں کو یاد کرتا رہا۔ 
درگاہ اعلیٰ حضرت

میں سوچتا رہا کہ ان کی نظر بھی کیسی نظر تھی کہ اللہ اور رسولِ خدا تو ایک ذات اور دو روپ نظر آئے اور کمزور تھی تو اتنی کمزور کہ انگریزی دورِ حکومت بھی انہیں دارالاسلام دکھائی دیا۔ عجیب مجموعۂ اضداد تھے۔ ان کے یہ اشعار بار بار یاد آتے رہے:
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے، کدھر گئے تھے
وہی ہے اول، وہی ہے آخر، وہی ہے باطن، وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے، اسی سے ملنے، اسی سے، اس کی طرف گئے تھے
یعنی شبِ معراج میں حضورﷺ اللہ سے ملنے نہیں گئے تھے، بلکہ اللہ اپنے آپ سے ملاقات کے لیے مکہ سے آسمان پر گیا تھا۔
*اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام* خان صاحب کی وہ کتاب ہے جس نے ان کی انگریز نوازی کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
پانچ دس منٹ کے بعد ہم نے نکلنا چاہا تو میں نے سوچا کہ دیوبندیت کے اس دریدہ دہن حریف کے پائتانے ایک بار پھر جاؤں اور قبروں کے کتبات کو غور سے دیکھوں۔ میں جس وقت چبوترے کے بالکل وسط میں کھڑا تھا تو مجھے ایسا لگا گویا خان صاحب مجھے بھگا دینا چاہتے ہوں اور میرا وجود ان پر گراں گزر رہا ہو۔ ان کی قبر پر پھول اتنے تھے معلوم ہو رہا تھا کہ چالیس پچاس گلشنوں کی آغوش اجاڑ کر لائے گئے ہیں۔ پھول زیادہ تر پیٹ کے حصے پر تھے۔ اس کے نتیجے میں پیٹ کی اونچائی لمبے تڑنگے آدمی کی کمر کو چھو رہی تھی۔ *شکمِ مبارک* کی اونچائی کو دیکھ کر مجھے اچانک ان کے *وصایا شریف* یاد آگئے، جن میں انہوں نے کھانے کی لذیذ انواع و اقسام کی فہرست تیار کروا کر ہفتے میں دو تین بار انہیں اپنی قبر پر بھیجنے کی وصیت کی تھی۔ خان صاحب کی تدفین کے بعد ایک صاحب نے فرمائشی کھانا ان کی قبر پر بھیجا تھا، اب نہیں معلوم کہ وصایا شریف کے اس اہم ترین اور افضل ترین جز پر عمل 
ہو رہا ہے یا نہیں۔
درگاہ کا اندرونی منظر۔

خان صاحب کے دائیں طرف ان کے فرزندِ اصغر لیٹے تھے۔ دس بارہ چمنستان کے پھولوں سے لدے پھندے۔ یہ جناب مصطفیٰ رضا خاں تھے۔ اپنے پیروکاروں میں مفتئ اعظم ہند کے لقب سے معروف۔ درجنوں کتابوں کے مصنف و مرتب، جن کا مرکزی نقطہ وہی فروغِ بدعت ہے۔ ایک کتاب *وقعات السنان* کے نام سے لکھی، ایسی کتاب، کہ عالمِ بریلویت میں دھوم مچ گئی۔ زبان و بیان ایسا کہ تہذیبِ اسلامی کو شرمانا پڑ گیا۔ سب و شتم سے بھرپور اور علم و عرفان سے کوسوں دور۔ یہ 1892 میں پیدا ہوئے اور 1981 میں موت کی چادر اوڑھی۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ ان کی ساری نسلیں بیٹی کی طرف سے ہیں۔
بانئ بریلویت کے بائیں طرف جناب ریحان رضا خاں عرف رحمانی میاں کی قبر ہے۔ یہ بانئ بریلویت کے پرپوتے اور جناب ابراہیم رضا خاں کے فرزند ہیں۔ ان کے احوال معلوم نہ ہو سکے۔
چبوترے کے دائیں طرف مزید دو قبریں ہیں، ایک قمر رضا خان کی، جو ازہری میاں اور منانی میاں وغیرہ کے بھائی ہیں۔ اور دوسری ابراہیم رضا خاں کی، جو ازہری میاں وغیرہ کے وغیرہ کے والد ہیں۔ پھول یہاں بھی کم نہ تھے۔ دونوں قبریں ان سے ڈھکی ہوئیں۔
ابراہیم رضا خان صاحب جناب حامد رضا خاں کے فرزندِ اکبر اور بانئ بریلویت کے پوتے ہیں۔ 1325ھ میں ولادت ہے اور 1385ھ میں وفات۔ یہ اپنے حلقے میں *مفسرِ اعظم ہند* کے لقب سے جانے جاتے ہیں اور جیلانی میاں سے بھی مشہور ہیں۔ یہ اپنے دادا کے دور میں ہی پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر کیا کچھ ہوا، مجدد البدعات کے تلمیذِ اجل جناب ظفرالدین بہاری کی زبانی سنئے:
*حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں صاحب کے برابر لڑکیاں ہی پیدا ہوتیں، اس لیے سب لوگوں کی دلی تمنا تھی کہ کوئی لڑکا پیدا ہوتا تاکہ اس کے ذریعے اعلیٰ حضرت کے حسب و نسب اور فضل و کمال کا سلسلہ جاری رہتا، خداوند عالم کی شان کہ 1325ھ میں مولوی محمد ابراہیم رضا خاں قبلہ کی ولادت ہوئی۔ نہ صرف والدین اور اعلیٰ حضرت، بلکہ متوسلین کو بھی از حد خوشی ہوئی۔ اس خوشی میں منجملہ اور باتوں کے اعلیٰ حضرت نے جملہ طلبائے مدرسہ اہل سنت و جماعت منظرِ اسلام کی ان کی خواہش کے مطابق دعوت فرمائی۔ بنگالی طلبا سے فرمایا: آپ لوگ کیا کھانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مچھلی بھات، چناں روہو مچھلی بہت وافر طریقے پر منگائی گئی اور ان لوگوں کی حسبِ خواہش دعوت ہوئی۔ بہاری طلبہ سے فرمایا: آپ لوگوں کی کیا خ53واہش ہے؟ ہم نے بتایا: بریانی، زردہ، فیرنی، کباب،  میٹھا ٹکڑا وغیرہ، چناں بہاریوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرایا گیا۔۔۔ اس وقت خاص عزیزوں مریدوں کے لیے جوڑا بھی تیار کیا گیا تھا۔ نہایت ہی مسرت کے سے لکھتا ہوں کہ میں بھی ان خاص لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے جوڑا تیار کرایا گیا تھا* [حیاتِ اعلیٰ حضرت، ص47،48]
جیلانی میاں کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ جب وہ چار سال کے تھے تو ان کے دادا بانئ بریلویت نے ان کی بیعت کی اور اسی وقت خلافت و اجازت سے نواز دیا۔
درگاہ میں کل آٹھ قبریں تھیں۔ درگاہ چم چم کر رہی تھی۔ لائٹوں کا معقول انتظام تھا۔ دیواریں اور ستون سفید اور کالے سنگِ مرمر سے مزین، بالکل زیبرا اسٹائل۔ اوپر کالے پتھر کی پتلی ترچھی لائنیں اور نیچے سفید پتھر کی۔ اسی ترتیب سے پوری درگاہ سجی ہوئی۔ مجدّد البدعات کی قبر جس چبوترے میں ہے، پورے کا پورا جھومروں سے بھرا ہوا۔ خان صاحب کی وفات اکتوبر 1921 میں ہوئی ہے، اس مناسبت عرسِ رضوی کی صد سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں۔ چبوترے کی چھت کی طرف دیکھا تو جھومروں کے ساتھ کپڑے کے چھوٹے چھوٹے مزین ٹکڑوں پر *عرسِ رضا* لکھا تھا۔ پوری درگاہ اے سی کی وجہ سے ایک دم سرد تھی، 15، 20 افراد عجیب و غریب ٹوپیوں والے معتکف و خیمہ زن۔ ہر آنے اور جانے والا مجدد صاحب کے پائتانے میں جاتا، سجدہ کرتا، چادر کو چومتا اور الٹے پاؤں واپس لوٹتا۔ ہماری واپسی کا وقت ہوا تو میرے ہمراہی بھی اسی طرح الٹے پاؤں پلٹے اور میں نے اپنے تشخص کے ساتھ سیدھی راہ لی۔ میں درگاہ میں کم و بیش میں دس منٹ رہا، مگر کوئی دعا وغیرہ نہیں کی، کئی ارادت مندوں کو دیکھا کہ وہ مجھے ترچھی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، مگر میں نے ان سب کی پرواہ کیے بغیر وہی کیا، جو کرنا تھا۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: الٹے پیر پلٹنے کا ایک واقعہ اور ازہری میاں کی قبر و دیگر عنوانات]