Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 17, 2019

موجودہ نٸی حکومت اور مسلمان!!!

صداٸے وقت۔پروفیسر ضیإ الدین اصلاحی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارلیمانی الیکشن اختتام پزیر ہوا اور نتائج موجودہ حکومت کے نہ صرف حق میں بلکہ کامیابی کی شرح میں کافی اضافہ بھی ہوا اس کامیابی کے عوامل کچھ بھی رہے ہوں لیکن جمہوری نظام میں کسی حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا یہی غماز ہے اس لئے اس فیصلے کا بلا تفریق مذہب و ملت خیر مقدم کیا جانا چاہئے حکومت کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ اس کی کامیابی و کامرانی کی شبھ کامنا بھی کرنی چاہئے خصوصا امت مسلمہ کے ارباب حل وعقد کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے نیز اپنے مسائل کے لئے مشترکہ وفد کے زریعہ رابطہ بھی کرنا چاہئے
ہمیں توقع کرنی چاہئے دوسرے عہدنی پالیسیوں میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پزیر ہونگی کچھ مثبت اقدامات ضرور ہونگے خصوصا مسلمانوں تعلق سے بھی ماضی کے کے رحموں کے انرمال کی کوشش لی جائے گی چنانچہ وزیراعظم صاحب نے اپنے پہلے ہی خطاب میں بڑی واضح اور جامع بات کہی کہ مسلمانوں کے ساتھ چھل ہوا ہے اور اس چھل میں چھید کرنا ہے
آزادی کے بعد پرفریب اقدامات کی تاریخ رہی ہے اور مسلمانوں کو جس طرح کھلونے دیکے بہلایا جاتا رہا ہے اس کی اس سے بڑھ کے تعبیر ہو ہی نہیں سکتی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کے تعلق سے وزیراعظم نے ایک ماہر نبض شناش طبیب کی طرح تشخیص کرلی ہے جس کے بعد صحیح علاج کی توقع کی جاسکتی ہے ہمیں توقع ہے کہ وزیراعظم صاحب نے لفظ چھل کو کافی وسیع تناظر میں محسوس کیا ہوگا
پہلا چھل جو ماضی کی سرکار کرتی رہی ہے انگنت فسادات، نت نئے پریشان کن قوانین، مختلف مذہبی متنازع امور، بابری مسجد جیسے قضیہ کو زندہ و جاوید بناکر خوف و دہشت طاری کرنا ہے نیز ریزرویشن بل پاس کرتے وقت مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ انکے حسن سلوک کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے زخم دینا پھر اس پر مرہم لگانا تاکہ انکی نیک نیتی کا بھرم قائم رہے اور سیکولزم کا مکھوٹا بھی برقرار رہے ۔
مخالف سیاسی جماعت کا خوف و دہشت بٹھانے کا بڑا کامیاب تجربہ کیا مسلمانوں کے لئے انکو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا
راز کھل جاتے نہ کہیں ساقی کی تہی دستی کا
جام خالی سہی ہونٹوں سے لگائے رکھتے
کیونکہ تقسیم ہند کا مکمل گناہ گار اسی کو برقرار دیا گیا جو کہ تاریخی حقائق کے سراسر منافی ہے لیکن اسی بے جا احساس گناہ کے باعث زہر کو امرت سمجھ کر پینے میں عافیت سمجھی اور اپنے بیشتر ہم وطن کو وسیع پیمانے پر حقیقت کو باور کرانے میں ناکام رہا ۔
کام اب کوئی نہیں آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بندس سب کوجہ قاتل کے سوا
ان حالات میں اپنے جرم بے گناہی کے بوجھ تلے انتخاب میں اپنے سیاسی حقوق کو یک طرفہ استعمال کرتا رہا اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ، مجارٹی کا خوف ماننارٹی میں پیدا کرنے  میں ایسی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا کہ بے گناہی کی مجرم قوم کے دل و دماغ پر یہ تصور مسلمہ حقیقت کی طرح غالب رہا کہ
میں سب کہونگا پھر بھی ہار جاونگا
وہ جھوٹی بولے گا اور لا جواب کے دے گا
دوسرا چھل اس سے بھی نصیحت خیز اور حیرت انگیز کہا جاسکتا ہے جس کا بڑی کامیابی سے تجربہ کیا گیا پہلا چھل کسی قدر ممکن تھا اور اس کی منطقی گنجائش تھی کہ مجارٹی کا خوف ماننارٹی پر ہو لیکن دوسرے چھل کی منطقی گنجائش بھی نہیں مستقبل کا مورخ شاید اسے تاریخ کا بہت بڑا لطیفہ ہی قرار دے گا کہ ماننارٹی کا خوف مجارٹی میں پیدا کردینا اس تصور نے ہم وطنوں کی بڑی تعداد کو حد درجہ متاثر کیا بلکہ انکے دلوں میں ایسا کامل یقین ہوگیا کہ عنقریب سلطنت مغلیہ آیا چاہتی ہے یا ملک کی مزید تقسیم کا وقت قریب آچکا ہے فن تاریخ کا طالب علم جب بھی اس موڑ پر پہچے گا اور اپنے ہم وطنوں کے شعور اور فہم و فراست پر غور کرے گا تو اسکی گردن شرم سے جھک جائے گی اور اسے محسوس ہوگا کہ ملک کی تاریخ کا یہ بدنما داغ کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا کہ ایک کمزور ناتواں ، جرم بے گناہی کے خوف تلے قوم کا خوف ؟
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے وزیراعظم  کی نگاہ اس چھل پر بھی ہوگی اور کافی وسیع تناظر میں غور وفکر کے بعد ہی آپ نے یہ اظہار کیا ہوگا اور توقع ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ چھل کو ہر چھل سے اوپر اٹھ کر محسوس کیا ہوگا جب آپ نے مخصوص سب سے بڑی اقلیت کی پسماندگی کو اتنی گہرائی سے محسوس کیا ہے تو آئندہ مجارٹی اور مائنارٹی کے درمیان دونوں قسم کے چھل کو بیخ دہن سے اکھاڑ پھینکیں گے اور بہت سے مفسد عناصر جو آپ کی شبیہ کو داغدار کرنے کے درپے ہیں چاہے جھوٹے گئورکشا ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ جیسے ادارے پر نظر بد ڈالتے ہوں یا مائنارٹی کے بجٹ کو کم یا ختم کا مطالبہ کرنے والے ہوں یا اندورن خانہ گھس کر ذاتی کھان پان کی تلاشی کرنے والے اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے ہوں امید ہے وزیراعظم صاحب ان چیلینچز کو بخوبی محسوس کررہے ہونگے اور ان جیسے مسائل پر قابو پانا ایسے عبقری انسان کے لئے بہت آسان ہے ہم امت مسلمہ کو مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ انکی کامیابی کی شبھ کامنا بھی کرنی چاہئے
پروفیسر ضیاء الدین اصلاحی
طبیہ کالج بیناپارہ اعظم گڑھ