Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 24, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔قسط دہم (دسویں قسط).

✏ فضیل احمد ناصری / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*مدرسہ اشفاقیہ زوال کے بھنور میں*
بریلی کے دیوبندی مدارس میں ایک بڑا نام *مدرسہ اشفاقیہ* بھی تھا، جو اس کے بانی مولانا محمد اشفاق صاحبؒ کے نام سے منسوب تھا۔ مدرسہ مصباح العلوم کے بعد سب سے قدیم اور سب سے معتبر ۔ 1875 میں قائم ہوا اور روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ مولانا اشفاق صاحب دین و دنیا ہر دو دولت سے مالا مال تھے۔ بڑے زمین دار اور باغات کے مالک تھے۔ شہر میں معزز حیثیت رکھتے۔ علمِ دین بھی ان کی زنبیل میں بہت تھا۔ ان دونوں حیثیتوں نے اشفاقیہ کو بہت جلد چمکا دیا۔ یہاں دورۂ حدیث تک کی تعلیم رہی ہے۔ حضرت مولانا افضال الرحمن ہردوئی مدظلہ کے والد حضرت مولانا بشارت علی صاحبؒ سلطانپوری یہیں سے فارغ تھے۔ مشہور مصنف و محدث اور ممتاز ادیب و شاعر حضرت مولانا نسیم فریدی امروہویؒ یہاں شیخ الحدیث رہ چکے ہیں۔ مولانا ہردوئی کے عمِ مکرم مولانا رونق علی صاحبؒ نے بھی اس کا اہتمام سنبھالا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اس کے سرپرست ہوا کرتے تھے ۔
پھر یوں ہوا کہ اسے کسی کی نظر لگ گئی۔ عروج کا زمانہ رفتہ رفتہ ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا، اب یہ ادارہ خستہ حالی کا شکار ہے، اس وقت یہاں صرف دوم تک کی تعلیم کا نظم ہے، مدرسہ سرکار سے وابستہ ہے۔ حکومت کا ہاتھ مدارس کے لیے ہمیشہ ہی برا شگون رہا ہے۔ اشاعت العلوم کو اسی الحاق نے ڈبویا تھا۔ اشفاقیہ بھی اسی کی زد میں پڑ گیا۔
ادارے کے مہتمم اس وقت مولانا یونس صاحب ہیں۔ فاضلِ دیوبند ہیں۔ کوشاں ہیں کہ اس کا قرنِ اول لوٹ آئے، لیکن حالات ان کے حق میں نہیں۔ بیگانہ ہوائیں ان کے خلاف تو ہیں ہی، اپنی فضائیں بھی ان سے متصادم ہیں۔
*انجمن خدام السنۃ بریلی*
یہ انجمن کسی زمانے میں بدعات کے خلاف شمشیرِ بے نیام تھی۔ حضرت مولانا نورالحسن بستوی صاحب اس کے بانی و مہتمم تھے۔ مشہور مجاہدِ آزادی حضرت مولانا سید احمد شہید رائے بریلی کے خانوادے سے ۔ بڑے فعال اور جی دار۔ ہمت کے دھنی۔ جسارت کے غنی۔ ادارہ دعوۃ الحق ہردوئی کی شاخ یہاں *محلہ کپّے والان* میں قائم تھی، وہ اس کے کامیاب مدرس تھے اور روحِ رواں بھی۔ یہیں رہ کر انہوں نے *انجمن خدام السنۃ* کے نام سے ایک تنظیم کی بنا ڈالی اور اس پلیٹ فارم سے دینِ حق کی اشاعت کا زبردست کام لیا۔ جری اتنے کہ اجلاس کے اشتہارات مجددِ بدعات کی درگاہ پر بھی لگوا دیتے۔ انجمن کے زیرِ اہتمام اکابرِ امت کو دعوت دی اور ان سے بیانات کروائے۔ اپنے دور کے مناظرِ اسلام حضرت مولانا نور محمد ٹانڈویؒ ان کی دعوت پر بریلی میں دھاڑ چکے ہیں۔ جناب پالن حقانی گجراتیؒ مولانا نہیں تھے، مگر استدلالی خطابت میں علما کے لیے تعجب خیز۔ بریلویت کے خلاف ان کی زبان خوب چلتی۔ انجمن نے انہیں بھی بریلی مدعو کیا اور جگہ جگہ تقریریں کرائیں۔ بریلویت کے رد میں *شریعت یا جہالت* انہیں کی کتاب ہے اور کیا لاجواب ہے!!
بعد میں مولانا نورالحسن صاحب نے بریلی چھوڑ دیا، تو دعوۃ الحق ہردوئی کی شاخ بھی ٹوٹ گئی اور انجمن خدام السنۃ بھی کفن پوش۔ اس وقت مولانا اپنے وطن میں ہیں اور ان کی مرحوم کاوشیں پھر کسی فرہاد کی منتظر۔
*جمعیۃ علمائے ہند*
سفرِ بریلی کے دوران میں نے جمعیۃ علمائے ہند کے نقوش بھی دیکھے۔ پتہ چلا کہ جمعیۃ یہاں بھی کام کر رہی ہے۔ مرکزی تقسیم کا اثر یہاں بھی نظر آیا۔ جمعیۃ الفی کے بریلوی صدر مولانا محمد میاں صاحب ہیں اور جمعیۃِ میمی کے صدر مولانا یونس قاسمی۔ جمعیۃ علمائے ہند کے کئی اجلاس اجمیر میں ہو چکے ہیں، جن کے اچھے ثمرات بھی سامنے آئے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر بریلی میں بھی اسی طرح کے اجلاس منعقد کیے جائیں!!
*جماعتی مرکز میں حاضری*
مولانا محمد حنیف صاحب نے مجھ سے تاکیداً کہا تھا کہ دورانِ سفر تبلیغی مرکز ضرور دیکھ آئیں، اس لیے مولانا شکیل صاحب کے ہمراہ وہاں بھی گیا۔ یہ ایک بڑی اور دو منزلہ مسجد ہے۔ اعظم نگر میں واقع۔ اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ لوہے کی کھڑکیاں تیار کی جا رہی ہیں۔ تین چار آدمی ایک جگہ اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور مسجد کی تعمیر پر نظر کرنے لگا۔ ان میں سے دو صاحب کو خبر لگ گئی کہ یہ دیوبند سے آئے ہیں۔ خیر مقدم کے لیے دوڑے۔ مسجد کے تمام حصوں کا معائنہ کرایا۔ دوڑ کر ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ یہ دونوں بھائی تھے، ایک کا نام یاسین تھا اور دوسرے کا یعقوب۔ انہوں نے بتایا کہ بانئ جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے دور سے ہی اسے جماعت کی مرکزیت حاصل ہے۔ بانئ جماعت کے رفیقِ کار مولانا عبدالوہاب صاحبؒ بھی یہاں تشریف لا چکے ہیں۔ یہ مسجد ایک زمانے تک متحدہ جماعت کی مرکز تھی۔ جماعت میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو بنگلے والی نظام الدین کی شاخ بن گئی۔ شوریٰ والے کچھ دنوں اشاعت العلوم کی مسجد سے مرکز کا کام لیتے رہے، جب ان کا قافیہ یہاں بھی تنگ ہوا تو بدھولیا کی ایک مسجد کو مرکز بنا رکھا ہے۔ شوریٰ والے آج تک مضبوط نہ ہو سکے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: بریلی کے دیوبندی مسلمان، مولانا منظور نعمانیؒ اور ان کا رسالہ الفرقان وغیرہ]