Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 1, 2019

تو!! کیا بھارت کو کانگریس مکت ہونا چاہئیے۔؟؟؟


شکیل رشید کی تحریر/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . 
تو ہندوستان کو ’ کانگریس مکت‘ ہوجانا چاہیئے!
اگر ’ کانگریس مُکت‘ نہیں تو کم از کم نہرو اور گاندھی خاندان کی اجارہ داری کانگریس پر سے ختم ہوجانی چاہیئے۔ یہ نعرہ بی جے پی، بالخصوص وزیراعظم  نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کا ہے جو نئے مرکزی وزیر داخلہ بنے ہیں ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ’غیربھاجپائیوں‘ کی ایک  بڑی تعداد بھی ،  جن میں اقلیتیں بھی شامل ہیں ، بالخصوص مسلم اقلیت ، یہ نعرہ لگانے والوں ، یعنی بی جے پی،مودی اور شاہ کی آواز میں آواز ملارہی ہیں ۔ اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ آج کانگریس  اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج سے دوچار ہے ،اسے اپنے وجود اور اپنی بقا کے لئے شدید جدوجہد کرنا پڑرہی ہے 

اور وہ لوگ بھی جو 
کبھی دل ودماغ سے پوری طرح سے کانگریسی تھے، کانگریس سے دور ہوتے جارہے ہیں ، اور یہ سب کانگریس کی اپنی حرکتوں کا ہی نتیجہ ہے لیکن کیا ایک ایسی سیاسی پارٹی کا جس کا ملک کی آزادی میں  اہم ترین کردار تھا ، ختم ہونا واقعی ملک کے لئے بہتر ہوگا ، یا کیا بغیر گاندھی اور نہرو پریوار کے کانگریس واقعی کانگریس کہلائے گی ؟؟ اور اس سے بھی کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ بی جے پی، مودی اور شاہ کیوں ’کانگریس مکت بھارت‘ اور ’ گاندھی نہرو پریوار مکت کانگریس ‘کا نعرہ لگارہے ہیں، انہیں اس نعرے سے یا اس نعرے کی عملی تدبیر سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟
مذکورہ سوالوں کے جواب سے پہلے لوک سبھا چناؤ 2019 کے انتخابی نتائج کے حوالے سے چند باتیں ضروری ہیں ۔ بی جے پی کی یہ جیت ، جسے ’ عظیم الشان‘ قرار دیا جارہا ہے ، اس لئے ممکن ہوئی کہ اس نے کئی علاقائی پارٹیوں سے ’ انتخابی سمجھوتے ‘ کئے اور ذات پات کی  بنیاد پر جنہیں حاشیئے پر پہنچادیا گیا تھا انہیں اپنے ساتھ جوڑ کر کئی علاقائی پارٹیوں کے ووٹ بینکوں میں

کامیاب سیندھ لگائی۔  مثلاً بہار میں نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان سے ’ انتخابی گٹھ جوڑ‘ اگر بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا تو یوپی میں اکھلیش سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کو اس نے یوں ناکام بنادیا کہ یادو ووٹوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا اور ان پچھڑوں کو بھی جنہیں مایاوتی گھاس نہیں ڈالتی تھیں ۔ مغربی بنگال میں اس نے ترنمول کانگریس کے اندر سیندھ لگائی اور مکل رائے جیسے سینئر ترنمول کانگریسی کو اپنے خیمے میں شامل کرکے وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو ، اور ان کی پارٹی کو بھی زبردست چھٹکا دیا ۔ مہاراشٹر میں شیوسینا سے اس کے گٹھ جوڑ نے ’ منسے ’ کے سربراہ  راج ٹھاکرے کی ’ پراثر تقریروں‘ کے جادو کو بے اثر کیا اور این سی پی اور کانگریس کو حاشیئے پر پہنچادیا ۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ بی جے پی نے ’اقتدار کے حصول‘ کے لئے جو مواقع ہاتھ آئے ان سے فائدہ اٹھانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کی ۔ اس نے جہاں خود کو کمزور سمجھا وہاں اپنے وجود کو’طاقت‘ پہنچانے کے لئے دوسروں کے وجود کا استعمال کیا اور جہاں مضبوط تھی وہاں جن کے وجود سے وہ مضبوط یا طاقت ور ہوئی تھی انہیں اپنی شرطوں کو منوانے پر مجبور کیا ۔ جیت کے لئے کہیں ’جھوٹ بولا‘ کہیں ایسے  ’وعدے‘ کئے جو وفا نہیں کئے جاسکتے اور کہیں ’ فریب‘ سے کام لیا۔۔۔ اور اب جب مرکز میں اقتدار حاصل ہوگیا تو بی جے پی نے اپنے حقیقی چہرے کو پھر عیاں کردیا ۔
بہار میں نتیش کمار نے بی جے پی کو کامیاب کرانے کے لئے ایسی محنت کی تھی کہ بی جے پی کو تمام  سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن خود متحد جنتا دل کو 16 سیٹیں حاصل ہوئیں، ایک سیٹ اس نے کھودی ۔ رام ولاس پاسوان چھ کی چھ سیٹوں پر جیتے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سیٹوں کے لحاظ سے نتیش کمار کی پارٹی کو کابینہ میں جگہ دی جاتی پر پاسوان کو جس طرح کابینہ میں ایک سیٹ دی گئی اسی طرح نتیش کمار کی پارٹی کو بھی کابینہ میں ایک  ہی سیٹ پیش کی گئی۔ اب وزیراعلیٰ بہار ناراض ہیں ! یہ ناراضگی آئندہ دنوں میں بڑھ سکتی ہے پر بی جے پی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، اس نے اتنی سیٹیں جیت لی ہیں کہ حلیفوں کے سہارے کے بغیر  اقتدار پر قابض رہ سکتی ہے ۔ 
پاسوان تو مطمئن ہیں ، وہ ناراضگی دکھابھی نہیں سکتے پر نتیش کمار نے اگر سپرڈالا  تو ان کا سیاسی قد بھی کم ہوگا اور ان کی آگے کی سیاسی امیدیں بھی دم توڑیں گی ۔ اور اگر سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو بی جے پی  یہی چاہتی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ’ فرینکنسٹائن ‘ سب کو نگلنے کے لئے تیار  ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
یہ  انہیں بھی نگلنا چاہتا ہے جنہوں نے اس کی پرورش کی ہے ۔ کبھی پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ایک یادوسیٹیں ہوا کرتی تھیں ۔ اٹل بہاری واجپئی تھے اور  کے ایل اڈوانی تھے ، اب اس کی تین سو  سے زائد سیٹیں ہیں ۔ اس مقام تک پہنچنے میں بی جے پی کی اپنی کوششیں تو ہیں ہی لیکن اس میں ان پارٹیوں اور سیاست دانوں کا ہاتھ کہیں زیادہ ہے ، جو گاتے تو سیکولرزم کا  گیت رہے ہیں لیکن ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست جماعت کو ’اقتدار‘ تک  پہنچانے میں انہیں کسی طرح کی شرم وحیا محسوس نہیں ہوئی ہے ۔ این ڈی اے میں شامل  تمام ہی غیر بی جے پی سیاسی جماعتیں اس زمرہ میں آتی ہیں ۔  اس زمرہ میں وہ جنتا پارٹی بھی  آتی ہے جسے ایمرجنسی کے بعد حکومت میں سنگھیوں کو شامل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس میں لوک نائک جے پرکاش نارائن بھی آئے  ہیں اور سارا بایاں محاذ بھی ۔ اور مہاراشٹر کی شیوسینا بھی جو اپنی ابتدائی شکل میں کوئی فرقہ پرست پارٹی نہیں ایک ایسی علاقائی پارٹی تھی جسے دوسروں کے مفادات کے مقابلے مہاراشٹرین عوام کا مفاد زیادہ عزیز تھا ۔ آج  بی جے پی ان سب  کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے ۔ بی جے پی کا منصوبہ کوئی بہت خفیہ نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کا منصوبہ اس ملک میں ایک ایسے نظام  کا قیام ہے جس میں ایک ہی سیاسی پارٹی کام کرے ۔ یعنی بی جے پی ۔اس لئے پہلے علاقائی پارٹیوں کو ختم کیا جائے گا ۔ نتیش کمار کو بہت محتاط رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی مدد سے راشٹریہ جنتا دل کا جنازہ نکال  دیا گیا ہے اب خود ان کی پارٹی کا جنازہ نکالا جاسکتا ہے ۔ یہی حال یوپی میں سماج وادی پارٹی کا ہورہا ہے۔ بی  ایس پی کے خلاف اس لئے بھی ابھی دال بہت  نہیں گل رہی ہے کہ مایاوتی کے ساتھ ان کا ایک بڑا ووٹ بینک ابھی بھی کھڑا ہواہے ۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس  کو ختم  کرنے کی کوشش ہے اور اس کے لئے جہاں ایک  جانب  بی جے پی کی جڑیں پھیلائی  جارہی ہیں وہیں ترنمول میں زبردست توڑ پھوڑ پیدا کی جارہی ہے ۔ پرممتابنرجی چونکہ جارحانہ مزاج والی قائد ہیں اس لئے ترنمول پر جلد قابو پانا آسان نہیں ہوگا ۔  مہاراشٹر میں شیوسینا نے بی جے پی کو دودھ پلایا  پر اب وہ دوسرے نمبر کی پارٹی  بن گئی ہے اور اگر بی جے پی مہاراشٹر میں زیادہ مضبوط ہوئی، جیسا کہ وہ ہورہی ہے ، تو اسے شیوسینا کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں لگے گی ، ویسے اب ریاست  میں کوئی وزیراعلیٰ شیوسینا کا شاید ہی بن سکے ۔ راج ٹھاکرے کی پارٹی ’ منسے‘نے تو دم توڑ ہی دیا ہے ۔ سوچیں اگر راج اور ادھوساتھ ہوتے تب ! تب بی جے پی کی دال قطعی نہ گلتی ۔  اس منظرنامہ میں علاقائی پارٹیوں کی اپنی آپسی رسہ کشی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر بہار  اور یوپی میں تمام علاقائی پارٹیاں متحد ہوتیں اور کانگریس نے  اپنی ’ انا‘ کو قابو میں رکھا ہوتا تو بی جے پی کو خاک چاٹنے پر مجبور ہونا پڑتا ۔ پر لالو اور نتیش اپنی اپنی ’ناک‘ کے لئے لڑرہے  تھے ۔ مایاوتی کو  ’وزیراعظم ‘ بننا تھا۔ اکھلیش یوپی پر قبضے کا خواب دیکھ رہے تھے اور کانگریس کا یہ سپنا تھا کہ بغیر کسی دوسرے کے سہارے کے وہ پہلے ہی کی طرح اقتدار حاصل کرلے ۔ ایک مضبوط بی جے پی کے لئے  علاقائی پارٹیوں سے نمٹنا بہت مشکل نہیں ہوگا ۔ وہ آئندہ یا تو انہیں اپنے ساتھ ملالے گی یا پھر  انہیں اتنا کمزور کردے گی کہ وہ اس کی بات رد نہ کرسکیں ، جیسے کہ شیوسینا ، یا پھر انہیں آپس میں لڑا کر اپنا کام نکال لے گی ۔ اس کے لئے مسئلہ کانگریس ہے ۔
پر کانگریس خود اپنے لئے بھی ایک مسئلہ ہے ۔ راہل گاندھی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کے پاس وہ ’ہتھیار‘ نہیں ہیں جو ایک ’ فرینکنسٹائن ‘ پر قابو پانے کے لئے ضروری ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے بی جے پی مخالف مضبوط پلیٹ فارم بنانے کی کوشش ہی نہیں کی  ۔ راہل گاندھی  اگر بی جے پی کی طرح ریاستوں کی بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملاتے تو آج صورتحال دوسری ہوتی۔ مہاراشٹر  کی مثال لے لیں ، انہوں نے یہاں ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس  اتحاد المسلمین کو قطعی نظرانداز کیا ۔ نتیجہ سامنے ہے ۔  وہ مودی کی پانچ سال کی سابقہ سرکار کی ’ کمزوریوں ‘ اور ’ کوتاہیوں‘ کو اپنی پارٹی کے مفادات میں ’ بھنانے‘ میں ناکام رہے ۔ یہ تو سچ ہے کہ ’ چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ جاندار تھا ،مگر رافل معاملے  پر بغیر  ٹھوس ثبوتوں کے  مودی کے خلاف ان کی یہ مہم بے معنیٰ تھی ۔زمینی مسائل پر انہوں نے توجہ تک نہیں دی ، غربت ، بے روزگاری ، کسانوں کی خودکشیاں ،  فرقہ پرستی، اقلیتوں کی لنچنگ، دلتوں پر مظام ، ملک اور عوام مخالف سرکاری  پالیسیاں، سیکولرزم ، جمہوریت اور آئین کو لاحق خطرات ۔ یہ وہ مسائل  تھے جن کو مدنظر رکھ کر بی جے پی مودی اور  شاہ کو ’دفاع ‘ پر مجبور کیا جاسکتا تھا ۔۔۔کانگریس، بی جے پی کی ’ بی ٹیم‘ کی طرح کام کررہی تھی نتیجے میں مسلم اقلیت اور دلت دونوں ہی اس کی طرف سے مشکوک رہے ۔  کانگریس کی ناکامی کا ایک بڑا سبب اس کے لیڈروں کی ’ آرام طلبی‘ بھی رہی ۔ راہل اور پرینکا گاندھی کی محنت  میں کوئی کمی نہیں تھی لیکن وہ لیڈران جو خود کو ’ سینئر‘ سمجھتے ہیں انتخابی مہم کے دوران ’سست‘ اور ’ لاپروا‘بنے رہے ۔ پارٹی میں زمینی  سطح کے ورکروں کو سرگرم کرنے کے لئے مثبت کوشش  نہیں کی گئی ۔ تنظیمی ڈھانچہ بہت فعال نہیں رہا ۔ یہ  وہ خامیاں ہیں جنہیں دور کئے بغیر کانگریس ایک ’ بے دم پارٹی‘ رہے گی ۔
اب رہی بات ’کانگریس مکت بھارت ‘ یا راہل پرینکا مکت کانگریس‘ کی۔ بی جی پی جیساکہ اوپر تذکرہ کیا گیا اس ملک پر صرف اپنےبل بوتے پر راج کرنے کی ’تمنا‘رکھی ہے‘ اور یہ ’تمنا‘ اگر کامیاب ہوئی تو اس ملک کے عوام جان لیں بے حد ’خطرناک‘ ثابت ہوگی۔ مودی اور امیت شاہ کا ’کانگریس مکت بھارت‘کا نعرہ’ہندوراشٹر ‘بھارت کیلئے ہے۔ کانگریس‘ ’ہندوتوا‘ کی نرم پالیسی تو اپنا سکتی ہے مگر وہ اس پر نہ کبھی راضی تھی اور نہ راضی ہوسکتی ہے کہ بھارت ’ہندوراشٹر‘میں تبدیل ہوجائے ۔ لہٰذا مودی اور شاہ کیلئے بھارت کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرانے کیلئے ’کانگریس مکت بھارت‘ ضروری بلکہ لازمی ہے۔اور بھارت کو کانگریس سے ’مکت‘ کرانے کا ایک طریقہ اسے گاندھی اور نہرو خاندان سے ’مکت‘ کرانا بھی ہے‘ کیونکہ جس طرح بی جے پی کا تصور بغیر آر ایس ایس کے نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سے کانگریس کا تصور بغیر نہرو گاندھی پریوار کےنہیں کیا جاسکتا۔ لہٰـذا وہ ’غیر بھاجپائی‘ جن میں اقلیتیں بشمول مسلم اقلیت بھی‘ شامل ہیں اور مسلم لیڈران بھی جو ’کانگریس مکت بھارت‘ کے نعرے کا جواب اسی نعرے سے دے رہے ہیں وہ ایک طرح سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس رہے ہیں۔ یہ جال ایک پارٹی نظام اور ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کیلئے بچھایا گیا ہے۔ اس سے بچنے اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کیلئے سب سے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنی ’انا‘ کے خول سے باہر نکلے ‘ گھمنڈ اور غرور کو تج دے اور عوامی مسائل کو شدت سےاٹھائے۔ اور اس کیلئے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے اتحاد کرنے میں ذرا بھر بھی نہ جھجھکے۔آئندہ بی جے پی سے جو بھی جنگیں لڑی جائیں وہ ’متحد‘ ہوکر لڑی جائیں۔ اب ان ووٹروں کے سامنے جو کبھی کانگریس کا ’ووٹ بینک‘ تھے متبادل ہیں‘ یوپی میں ہنوز ایس پی اوربی ایس پی متبادل ہیں‘ بہار میںلالو پرساد یادو کی واپسی ممکن ہے‘ مغربی بنگال میں ممتابنرجی ڈٹی ہوئی ہیں‘ مہاراشٹر میں ونچت بہوجن اگھاڑی اور ایم آئی ایم مسلمانوں اور دلتوں کیلئے ایک بہترین متبادل ہیں۔ اگر کانگریس نے اس بار بھی انہیں ٹھکرادیا تو یہ سمجھ لیں کہ وہ ایک طرح سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے بچھائے جال میں پھنس گئی ہے اور اس کا وجود بچنے والا نہیں ہے۔