Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 28, 2019

أڑ میں ایک بہت بڑا کھیل!!!!!

خصوصی نماٸندہ/صداٸے وقت۔
________________________
ذرا ان بچوں کو غور سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ان بچوں کی عمر ہے کہ یہ اپنے گھر سے کوسوں دور جاکر تعلیم حاصل کریں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ خود ان کے گھر کے قرب وجوار میں سینکڑوں کی تعداد میں مدارس چل رہے ہیں...

دراصل یہ تصویر ہمیں ایک خبر سے ملی جس میں درج تھا کہ یہ بچے ایک استاذ کے ساتھ ارریہ سے باندہ کے کسی مدرسے میں پڑھنے جارہے تھے جنہیں اناؤ اسٹیشن پر جی آرپی والوں نے پکڑلیا لیکن جمعیۃ علماء کی مدد سے یہ آزاد کرالیے گئے، ابھی دو دن قبل مدھوبنی سے اسی طرح کی ایک خبر آئی تھی جس میں تقریباً 400 بچوں کو جئے نگر اسٹیشن پر پولس نے پکڑلیا تھا اور یہ تمام بچے بھی ارریہ سے تعلق رکھتے تھے، اس کے علاوہ تقریباً ہرسال اس طرح کی خبریں آتی ہیں کہ پولس نے فلاں اسٹیشن پر اتنے بچوں کو پکڑ لیا اور فلاں اسٹیشن پر اتنے بچوں کو، پھر مقامی زمہ داروں یا تنظیموں کی مداخلت کے بعد انہیں چھڑا لیا جاتا ہے اور آخر میں یہی ایک بات سامنے آتی ہے کہ وہ تمام بچے ارریہ کے تھے..
آخر ایسا کیوں؟ اس طرح جھنڈ کے جھنڈ صرف ارریہ کے ہی بچے کیوں پکڑے جاتے ہیں اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک استاذ ہوتا ہے،

دراصل یہ بہت بڑا کھیل ہے جو دینی تعلیم اور دینی مدارس کی آڑ میں کھیلا جارہا ہے، مدرسہ کے نام پر دوکان چلانے والے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں، جن لوگوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی قوم کی زکوٰۃ کھانا ہوگیا ہے وہ مختلف علاقوں میں جہاں مدارس کی قطعی ضرورت نہیں ہے وہاں مدارس کھول کر بیٹھ گئے ہیں، دراصل یہ مدارس نہیں ہوتے ہیں بلکہ چندہ کے دھندے اور دوکانیں ہوتی ہیں، اب زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے زکوٰۃ کے مستحقین کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں یہ حضرات بہت ہی پر کشش اعلان کرتے ہیں اور چونکہ ارریہ پورنیہ کشن گنج وغیرہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے وہاں مسلم بچے بڑی تعداد میں حاصل ہوجاتے ہیں، یہ مدارس والے ان علاقوں کے اساتذہ کو اپنے یہاں بحال کرلیتے ہیں اور ان کی پہلی شرط ہوتی ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ بیس بچے پچاس بچے وغیرہ وغیرہ لانے ہیں، یہ مدارس والے پورے بچوں کا کرایہ بھی ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی فی بچہ جتنے پر معاملہ طے ہوجاتا ہے اتنی رقم وہ ادا کرتے ہیں، یہ کھیل برسوں سے کھیلا جارہا ہے، ہر سال اسٹیشن پر بچوں کو پکڑا جاتا ہے لیکن ہم ان بچوں کو چھڑا کر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کا کام کرلیتے ہیں لیکن کبھی بھی اس کے پس منظر میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں،
کیا ایسا تو نہیں کہ ارریہ میں مدارس نہیں ہیں؟ بہار میں مدارس نہیں ہیں؟ ارریہ میں تو گھر گھر اور گاؤں گاؤں مدرسے قائم ہیں، ان میں سے اکثر مدرسہ والے بین الاقوامی سطح پر چندہ وصول کرتے ہیں، بعض نے تو دہلی ممبئی وغیرہ میں اپنی رہائش رکھی ہے اور مستقل ارریہ پورنیہ کے مدارس کے نام پر چندہ کرتے ہیں، یاد رکھیں! جب تک مدرسہ کے نام پر یہ خودساختہ دوکانیں بند نہیں ہوں گی یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا اور دین اور دینی تعلیم کی آڑ میں یہ سب دھندے عروج پاتے رہیں گے.....