Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 27, 2019

ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ ” مہوا“ کی ایوان میں پہلی زبردست تقریر۔

نٸی دہلی /نماٸندہ خاص/ صداٸے وقت۔
...................................................
"میں مولانا ابوالکلام آزادکی تقریر کے ایک اقتباس سے اپنی تقریر کا آغاز کرتی ہوں، مولانا ابوالکلام آزاد، جن کا مجسمہ اس عظیم ہال کے باہر نصب ہے،انھوں نے ایک دفعہ اس ملک کے حوالے سے کہا تھا کہ: ”ہندوستان کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ ہوچکاہے کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں،مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل ہے۔ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گودنے سب کے لیے جگہ نکالی…..ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھر دیاہے۔ہماری زبانیں،ہماری شاعری،ہماراادب،ہماری معاشرت،ہمارا ذوق،ہمارالباس،ہمارے رسم و رواج،ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں،کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے،جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ گئی ہو“۔
یہی وہ آئیڈیل اور نمونہ تھا، جس کے سانچے میں آئین کو ڈھالا گیا اور یہی وہ آئین ہے،جس کی حفاظت کاہم حلف اٹھاتے ہیں،آج اسی آئین پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں"۔

ایوانِ پارلیمان میں ٹی ایم سی کی ممبرپارلیمنٹ مہواموئتراکی تاریخی تقریرکااردوترجمہ ملاحظہ فرمائیں
فاشزم کی سات علامتیں اورموجودہ ہندوستان
(ایوانِ بالا میں ممبر پارلیمنٹ مہوا مویترا کی تاریخی تقریر، جس نے مودی حکومت کے بخیے ادھیڑدیے)
عزت مآب اسپیکر صاحب!
میں موشن کی مخالفت میں کھڑی ہوئی ہوں اور یہ بتانے کے لیے کہ میں اپنی جماعت کی جانب سے کی گئی تبدیلیوں کی حمایت کرتی ہوں۔سب سے پہلے بڑی عاجزی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کرتی ہوں کہ اس حکومت کو عوام نے بہت بڑا مینڈیٹ دیاہے، لیکن اس مینڈیٹ کی اغلبیت واکثریت کا فطری تقاضا ہے کہ آج کے دن ہمیں سنا جائے، آج کے دن اختلاف کی آوازسنی جائے۔ اگر مینڈیٹ اتنا بڑا نہ ہوتا، تو حالات دوسرے ہوتے، رائے عامہ میں ایک طبعی اعتدال ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہاؤس کا تعلق حزبِ مخالف سے ہوتاہے، لہذا ہمیں جو اختیارات دیے گئے ہیں، انہی کی بازیافت کے لیے کھڑی ہوئی ہوں۔
میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک اقتباس سے اپنی تقریر کا آغاز کرتی ہوں، مولانا ابوالکلام آزاد، جن کا مجسمہ اس عظیم ہال کے باہر نصب ہے،انہوں نے ایک دفعہ اس ملک کے حوالے سے کہا تھا کہ: ”ہندوستان کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ ہوچکاتھا کہ اس کی سرزمین انسان کی مختلف نسلوں،مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل ہے۔ابھی تاریخ کی صبح بھی نمودار نہیں ہوئی تھی کہ ان قافلوں کی آمد شروع ہوگئی اور پھر ایک کے بعد ایک سلسلہ جاری رہا۔اس کی وسیع سرزمین سب کا استقبال کرتی رہی اور اس کی فیاض گودنے سب کے لیے جگہ نکالی…..ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھر دیاہے۔ہماری زبانیں،ہماری شاعری،ہمارا ادب،ہماری معاشرت،ہمارا ذوق،ہمارا لباس،ہمارے رسم و رواج،ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں،کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے،جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ گئی ہو“۔
یہی وہ آئیڈیل اور نمونہ تھا، جس کے سانچے میں آئین کو ڈھالا گیا اور یہی وہ آئین ہے،جس کی حفاظت کاہم حلف اٹھاتے ہیں،آج اسی آئین پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
یقینا آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے دن آئیں گے اور اس ہندوستانی سلطنت پر،جسے موجودہ حکومت بنانا چاہ رہی ہے، کبھی سورج غروب نہیں ہوگا،مگرآپ کچھ علامات کو نظر انداز کر رہے ہیں، آپ اپنی آنکھیں کھولیں گے،تو ہر چہار جانب آپ کو نظر آئےگا کہ اس ملک کے شیرازے بکھررہے ہیں۔میں ان چند منٹوں میں جو مجھے ملے ہیں،ان خطرناک علامات کی نشاندہی کر دینا چاہتی ہوں۔
پہلی علامت:
ایک مضبوط اوردائمی وطن پرستی ملک پر تھوپی جا رہی ہے، یہ ایک سطحی قسم کی وطن پرستی ہے، یہ نفرت اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔اس میں اتحاد کا منشا نہیں ہے، عام شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالا جارہا ہے اور انہیں غیر قانونی شہری کہا جا رہا ہے، جو لوگ پچاسوں سال سے اس ملک میں رہ رہے ہیں، انہیں خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے ایک کاغذ کا ٹکڑا دکھانا پڑے گا، ایک ایسے ملک میں جہاں وزرا اپنی ڈگریاں نہیں دکھا پا رہے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے گریجویشن کیا ہے، وہاں آپ یہ امید کرتے ہیں کہ غریب عوام ہندوستانی ہونے کے کاغذات دکھائیں!
مذہب کو پرکھنے کے لیے مذہبی نعروں اور علامتوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، اس ملک میں کوئی ایک نعرہ نہیں ہے، کوئی ایک علامت نہیں ہے، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ فلاں شخص حقیقی وطن پرست ہے، کوئی ایک ٹیسٹ نہیں ہے جناب، کوئی بھی ایک ٹیسٹ نہیں ہے۔
دوسری علامت:
انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی،جس میں ہر سطح پر حکومت ملوث ہے۔2014 سے 2019 کے درمیان نفرت کی بنیاد پر جرائم کی شرح دس گنا زیادہ بڑھ گئی ہے، دس گنا زیادہ۔ جیسے یہ کوئی آن لائن تجارتی اسٹارٹ اپ ہو، اس ملک میں ایسی طاقتیں کام کر رہی ہیں،جو اس شرح کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ دن دہاڑے ہجومی تشدد کے واقعات سے تجاہل عارفانہ برتی جا رہی ہے، گذشتہ سال کے پہلو خان سے لیکر کل کے تبریز انصاری تک یہ فہرست رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
تیسری علامت:
ذرایع ابلاغ پر مکمل کنٹرول اور تسلط۔ہندوستان کی پانچ سب سے بڑی میڈیا تنظیمیں آج یا تو بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک شخص کے قبضے میں ہیں یا اس کی رہین منت ہیں۔ ٹی وی چینلس اپنے نشریات کے بیشتر اوقات حکمراں پارٹی کے پروپیگنڈوں میں صرف کرتے ہیں، اپوزیشن کی ہر جماعت کی کوریج کم کر دی گئی ہے، حکومت اعداد و شمار بتائے کہ اس نے تمام میڈیا ہاوسزپراپنی تشہیر کے لیے کتنی رقم خرچ کی ہے، پیسے کس پر خرچ کیے جا رہے ہیں اور کن میڈیا ہاوسز کو بلاک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔
وزارت اطلاعات نے 120 سے زیادہ افراد کو محض اس کام کے لیے ہائر کر رکھا ہے کہ وہ ہر روز ٹی وی کے مواد پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کہیں کوئی حکومت مخالف خبر تو نشر نہیں کی جارہی۔ جھوٹی افواہیں توعام ہوچکی ہیں، حالیہ انتخابات کسانوں کے مسائل پر نہیں لڑے گئے اور نا ہی بے روزگاری پر؛ بلکہ یہ انتخابات واٹس ایپ پہ لڑے گئے، جھوٹی افواہوں پہ لڑے گئے،لوگوں کے ذہنوں سے کھیلا گیا۔ ہر خبر جو یہ حکومت لاتی ہے، میں دہرا رہی ہوں کہ ہر خبر جو یہ حکومت سامنے لاتی ہے اور ہر جھوٹ جو آپ بولتے ہیں، آپ اسے مسلسل دہراتے ہیں، جب تک یہ سچ نا ہو جائے اور یہی تو گوئبلز کا نظریہ ہے۔
آپ نامدار اور کامدار کی بات کرتے ہیں؟ مجھے کہنے دیجیے کہ ہو سکتا ہے کانگریس نے 1999 سے اب تک پارلیمنٹ میں اقربا پروری کرتے ہوئے 36 ممبران کو داخل کیاہو؛ لیکن بی جے پی کے یہاں کل 31 ہیں۔ہر وقت جب آپ کوئی اعداد شمار لاتے ہیں، جو جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، تو گویا آپ ہندوستان کے تانے بانے کو تباہ کر رہے ہیں۔گذشتہ کل کانگریس کے فلور لیڈر نے کہا کہ با ہمی تعاون کی تحریک بنگال میں فیل ہو گئی، میں ان سے درخواست کروں گی کہ وہ حقائق کی تحقیق کر لیں۔
جس کوآپریٹیوتحریک کا وہ حوالہ دے رہے تھے- مرشدآباد کی بھگیرتھی- وہ آج فائدے میں ہے، ہر چھوٹی سے چھوٹی غلط معلومات جو ہم پیش کرتے ہیں،اس سے ہم اس ملک کے تانے بانے کو توڑتے ہیں۔
چوتھی علامت:
چوتھی علامت ہے قومی سلامتی کے تئیں حد سے بڑھے ہوئے جذبات اور دشمنوں کی شناخت۔جب ہم بچے تھے،تو ہماری مائیں ہم سے کہتی تھیں یہ کرو، وہ کرو، ورنہ کالا بھوت آ جائے گا۔بعینہ اسی طرح آج ہم اس ملک میں رہ رہے کسی بے نام اور بے حیا کالے بھوت کے ڈر کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ہر جگہ خوف کا ماحول ہے، فوج کی کامیابیوں کو ایک نام سے منسوب کیا جا رہا ہے، کیا یہ درست ہے؟ ہر دن نئے دشمن بنائے جا رہے ہیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ گذشتہ چند برسوں میں دہشت گردانہ واقعات کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے،کشمیر میں جوانوں کی شہادت میں 160 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پانچویں علامت:
یہ ہے کہ حکومت اور مذہب کو ایک دوسرے میں خلط ملط کرد یا گیا ہے، کیا مجھے اس پر بات بھی کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک شہری کا مطلب ازسرنومتعین کرنے کی کوشش کی ہے؟ NRC اور citizenship bill سے ہم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہAnti-Immigration قوانین کے ذریعے صرف ایک کمیونٹی کونشانہ بنایاجارہاہے، آج کل ممبران پارلیمنٹ کو 812 ملین ایکڑ زمین سے زیادہ فکر 2.77 زمین کی ہے۔ یہ محض 2.77 زمین کا معاملہ نہیں ہے، یہ پورے ملک کی80 کروڑ ایکڑ زمین کو متحد رکھنے کا سوال ہے۔
چھٹی علامت:
جو سب سے خطرناک ہے،وہ ہے فنون لطیفہ اور روشن خیال لوگوں کی تحقیر۔ ہر قسم کے اختلاف کو دبایا جا رہا ہے، آزادانہ تعلیم اور سائنسی رجحانات کے فنڈ کوکم کیا جا رہا ہے، جس کا آئین کی دفعہ51 میں ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں سائنسی رجحانات و نظریات کے فروغ کی بات کی گئی ہے۔ ہم اپنے ہر عمل سے ہندوستان کو پیچھے کی جانب لے جا رہے ہیں، ثانوی درجات کی نصابی کتابوں میں پھیر بدل کیاجا ریا ہے، ان میں تحریف کی جا رہی ہے۔اختلاف تو چھوڑیے، آپ توحکومت سے سوال کوبھی برداشت نہیں کرتے۔
میں ہندی کے عظیم شاعر جناب رامدھاری سنگھ دنکر کے چند اشعار پڑھنا چاہوں گی اور بتانا چاہوں گی کہ اختلاف کی روح ہندوستان کا ایک لاینفک جز ہے،آپ ہمیں خاموش نہیں کر سکتے:
ہاں ہاں دریودھن باندھ مجھے
باندھنے مجھے تو آیا ہے؟!
زنجیر بڑی کیا لایاہے؟
یدی مجھے باندھنا چاہے من
پہلے تو باندھ اننت گگن
سونے کو سادھنا سکتا ہے
وہ مجھے کب باندھ سکتا ہے؟
ساتویں اور آخری علامت:
ہمارے انتخابی نظام سے آزادی کا مفقود ہو جاناہے۔الیکشن کمیشن مسلسل بڑے افسران کو ٹرانسفر کرتارہا۔ اس الیکشن میں 60000 کروڑکا صرفہ آیا،جس میں 50 فیصدحصے داری صرف ایک پارٹی کی تھی،یعنی اس نے 27000 کروڑ روپے صرف کیے۔
2017 میں اقوام متحدہ کے ہولو کاسٹ میموریل میوزیم نے اپنی مرکزی لابی میں ایک پوسٹر نصب کیا تھا، جس میں وہ تمام علامتیں مذکور تھیں جو فاشزم کی ابتدائی علامات تصور کی جاتی ہیں۔ مذکورہ ساتوں علامتیں اس پوسٹر میں مذکور ہیں، ہندوستان میں فاشزم کے ابھرنے کے خطرات ہیں، ہم سب پر لازم ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں، 17 ویں لوک سبھا کے ہم سبھی ممبران یہ فیصلہ کریں کہ ہم تاریخ کے کس جانب کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سب ملک کے دستور کی حمایت میں کھڑے ہونا چاہتے یا اپنے کندھوں پر اس کا جنازہ اٹھانا چاہتے ہیں؟
اس حکومت کو جوبڑی اکثریت ملی ہے،مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے؛لیکن مجھے حق حاصل ہے کہ میں آپ کے اس خیال سے اتفاق نہ رکھوں کہ”نہ آپ سے پہلے کوئی تھا اور نہ آپ کے بعد کوئی ہوگا“۔
اخیر میں راحت اندوری صاحب کے ان اشعارسے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گی:
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی  ہے