Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 14, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔

*بریلی کے بازار میں*
(قسط اول)
_________________________
بقلم: مولانافضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے واقفینِ احوال جانتے ہیں کہ میری شادی بریلوی خاندان میں ہے۔ 10 جون کو اسی خاندان کے ایک فرد جناب احسن رضا  کی شادی تھی۔ یہ جامعہ نوریہ رضویہ بریلی کے نوجوان فاضل ہیں۔ کچھ ہوں نہ ہوں، بقلمِ خود علامہ و مولانا بھی ہیں۔ اختلافِ عقائد و نکات و نظر کے باوجود مجھ سے تعلقات بنائے رکھنے میں کامیاب بھی ہیں۔ کئی سال پہلے سے ہی مجھ سے کہہ چکے تھے کہ *میری شادی میں آپ کی شرکت ناگزیر ہے، ورنہ میں شادی ہی نہیں کروں گا* اور آخر تک ان کا اصرار قوی تر رہا۔ چناں چہ عدمِ شرکت کی انتہائی کوششوں اور بہانوں کے باوجود مجھے شریکِ تقریب کرنے میں کامیاب رہے۔
*بانس بریلی کا سفر*
جس نوجوان کی شادی تھی وہ بریلی کے جامعہ نوریہ میں بدعت آموزی کرنے کے ساتھ وہیں کسی محلے کے معبد کا امام بھی تھا۔ اس معبد کے مقتدیوں میں سے ایک صاحب سے اس کے تعلقات پختہ تر ہوتے گئے اور یہی پختگی باہمی رشتے کا سبب ٹھہری ۔ 10 جون کو نکاح ہونا تھا۔ میں ایک دن پہلے پہونچ چکا تھا۔ 9 کو اسکارپیو سے بریلی کے لیے روانہ ہونا تھا، چناں چہ ہم لوگ 9 ویں جون کو 11 بجے کے آس پاس گھر سے نکلے۔ گاڑی بس ایک ہی تھی اور کارواں ڈرائیور سمیت صرف نو نفوس پر مشتمل۔ گاڑی مظفر پور کے راستے سے چمپارن ہوتے ہوئے یوپی میں داخل ہوئی اور اگلی صبح یعنی 10 جون کو پانچ بجے بریلی شہر میں داخل ہو گئی۔
*معبد خواجہ غریب نواز میں*
نوجوان یوں تو رسومات و خرافات کی پوری ادائیگی کے بعد دولہا بن کر گھر سے روانہ ہوا تھا۔ سفید کرتے پاجامے کے ساتھ گلابی رنگ کا عمامہ بھی۔ اس پر سر سے پیر تک گلِ یاسمین سے پرویا ہوا سہرا، جو پوری پیشانی کو محیط اور وہاں سے پیر تک پھولوں کے پردے میں۔ پھر اس پر تیز گلابی رنگ کے کپڑے کا ایک طول طویل ٹکڑا، جو سہرے سے کچھ چھوٹا تھا۔ سہرے اور ٹکڑے نے ہاتھی کی سونڈ کا سماں باندھ دیا تھا، لیکن سفر طویل تھا، اس لیے مظفر پور سے پہلے ہی انہیں اتار دیا گیا تھا اور نوجوان صرف سادے لباس میں تھا۔ صبح 5 بجے بریلی پہونچے تو فیصلہ ہوا کہ یہیں کہیں ٹھہر کر سب کو از سرِ نو تیار ہونا ہے۔ نہانا دھونا ہے۔ دولہے کو بھی یہیں سے نہا دھلا کر تیار کرنا ہے۔ گاڑی بھی یہیں سجانی ہے۔ یہ فیصلہ قلعہ کے قریب ہوا۔

سب لوگ اتر گئے اور مناسب جگہ کی تلاش شروع ہو گئی۔ مجھے فجر کی نماز پڑھنی تھی۔ پاس میں ہی ایک معبد پر نظر پڑ گئی۔ بریلویوں کے عبادت خانے کو میں مسجد کے بجائے معبد سے یاد کرتا ہوں۔ دولہے نے مجھے پہلے ہی مشورہ دے دیا تھا کہ کہیں کچھ بولنا نہیں ہے۔ آپ بولیں گے تو مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ آپ پہچان لیے جائیں گے اور سخت برے احوال سے گزرنا پڑے گا۔ یہ مشورہ میرے ذہن میں تھا، مگر سب بالائے طاق۔

 معبد میں اولاً میں داخل ہوا اور میرے ساتھ رفقائے سفر میں سے ایک۔ مہاراشٹر کے معابد میں باہر ہی ایک بورڈ پر اعلان آویزاں ہوتا ہے: *یہ سنی بریلوی مسجد ہے، یہاں وہابی، دیوبندی، تبلیغی اور اہلِ حدیث کو آنے کی اجازت نہیں، ورنہ پانچ ہزار روپے کے جرمانے کے ساتھ پوری مسجد بھی دھونی پڑے گی* ۔ یہ ہدایات بھی مجھے تازہ تھیں۔ معبد میں داخل ہوتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا، کہیں یہاں بھی مجھ پر جرمانہ عائد نہ ہو جائے اور لات گھونسوں سے میری نوازش نہ ہونے لگے۔ خیر! ہمت کر کے معبد میں داخل ہوا۔ ایک مولبی صاحب لنگی بنیان میں ملبوس کوئی برتن دھو رہے تھے۔ سر پر ہرے رنگ کی پلاسٹک کی جالی دار ٹوپی۔ معبد بھی اندر باہر سے مکمل سبز۔ میں نے انہیں آواز دی۔ وہ آئے ۔ میں نے ان سے نماز کا وقت معلوم کیا۔ انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا، گفتگو سے معلوم ہوا کہ یہی اس معبد کے امام ہیں۔ میرا موبائل چارج نہیں تھا، میں نے انہیں چارجنگ کے لیے موبائل دیا، وہ اسے لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے استنجے سے فراغت پا کر نماز ادا کی۔ نماز سے پہلے پنکھا چلایا تو پورا معبد صندل کی بو سے بھر گیا۔ نماز کے بعد میں لیٹ گیا۔ رفیقِ سفر نے کہا: کہ مولانا سے اجازت لے کر یہیں سب لوگ نہا لیں اور یہیں سے تیار ہو کر محفلِ نکاح میں جائیں۔ بات آپ ہی کیجیے۔ میں نے امام صاحب کو بلایا،  نرم و نازک لہجے میں ان کے سامنے مدعا رکھا۔ انہوں نے فوراﹰ ہامی بھرلی۔ دولہے سمیت نو آدمیوں نے نہایا، دھویا اور یہیں نوشاہ کو امتیازی حالت میں پہونچا دیا گیا۔ اس پورے عمل میں گھنٹہ بھر صرف ہوا۔ میں نے سب سے اخیر میں تیاری کی۔ اس اثنا میں کہ رفقائے سفر نہا دھو رہے تھے، میں نے موقع غنیمت جان کر امام صاحب سے گفت و شنید کا طویل سلسلہ شروع کر دیا۔ پتہ چلا کہ وہ بہار کے ہی ہیں۔ مجھے تھوڑی انسیت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس معبد کے امام میرے استاذ ہیں جو مدرسہ منظرِ اسلام بریلی میں پڑھاتے ہیں۔ میں بھی وہیں کا طالب علم ہوں اور جلالین کی جماعت میں ہوں۔ اس وقت استاذ اپنے وطن میں ہیں، اس لیے سرِدست میں ہی یہاں امامت کر رہا ہوں۔ مدرسہ منظرِ اسلام بریلی کا نام پہلے سے سن چکا تھا، امام صاحب کے منہ سے سنا تو مجھے تفصیلات کا اشتیاق ہوا۔ ساری باتیں میرے علم میں آئیں، میں سراپا گوش بر آواز رہا۔ استفہامات و سوالات کا سلسلہ دراز تر کرتا رہا۔ دولہے میاں ہماری گفت و شنید سے بڑے گھبرائے ہوئے تھے۔ میرے پاس آئے اور اشارے سے کہنے لگے کہ یہ سلسلہ بند کریں۔ فتنہ ہو جائے گا۔ میں ان سنی کرتا رہا اور مکالمہ جاری رہا۔ امام صاحب کی عمر 17، 18 سال رہی ہوگی۔ بے ریش و بروت۔ خوب صورت رنگ و روپ۔ خوش مزاج و شگفتہ دماغ۔ متین و سنجیدہ۔ نہا دھو کر ہم لوگ گاڑی پر سوار ہوئے اور محفل کی طرف چل پڑے۔ رفقا کہنے لگے کہ مولانا نے امام صاحب سے مکالمہ شروع کیا تو ہم ڈر گئے تھے کہ کہیں دیوبندیت و بریلویت کی جنگ نہ چھڑ جائے، مگر الحمدللہ ایسی نوبت نہیں آئی۔گاڑی کم و بیش 15 منٹ چلی ہوگی کہ منزل آگئی۔ ہم اترے اور ناشتہ واستہ کر کے نکاح کی تیاریوں میں لگ گئے۔
*بریلوی تہذیب و تمدن پر براہِ راست پہلی نظر*
محفل میں پہونچا اور آنے جانے والوں کو دیکھا تو ان پر ہندوانہ تہذیب کا رنگ غالب تھا۔ چہرے بشرے دہقانوں سے۔ لباس و وضع بھی غیرمسلموں جیسے۔ کلائیوں میں دھاگے۔ دسترخوان کا نام شاید انہوں نے سنا بھی نہیں ناشتہ بستر پر ہی لگا دیا اور بالکل روکھے پھیکے انداز میں۔ کوئی لہک چہک نہیں۔ نمازی کوئی بھی نہ لگا۔
*میاں بیوی کا جھگڑا*
ناشتے سے فارغ ہوئے تو پتہ چلا کہ نکاح میں ابھی تھوڑا سا وقت ہے۔ میں تفریح کے لیے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ قریب ہوا تو پتہ چلا کہ میاں بیوی جھگڑ رہے ہیں۔ میاں اپنی بیوی کو اپنی گاڑی پر کہیں لے جانا چاہتا ہے، جب کہ بیوی کہتی ہے کہ یہ میرا شوہر نہیں، میں اس پر حرام ہوں، میں اس کے ساتھ کیوں بیٹھوں؟ شوہر آتا ہے، گھسیٹتا ہے، مارتا ہے، مگر بیوی نہیں مانتی اور اپنا دکھڑا سناتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں آگے بڑھ گیا۔
[جاری]