Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 12, 2019

مروڈ جنجیرہ کا ایک یادگار سفر۔۔۔۔۔۔

از۔۔شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہاراشٹر میں خطۂ کوکن حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے امتیازی شان رکھتاہے ،اسی خطہ کا ایک خوبصورت علاقہ مروڈ جنجیرہ ضلع رائے گڈھ و ہے'ممبئی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ پورا شہر ساحل سمندر پر آباد ہے'، ممبئی میں قلابہ کی سمت سے یہ شہر بہت قریب ہے'درمیان میں سمندر حائل ہے'گیٹ وے آف انڈیا سے اسٹیمروں کے ذریعہ علی باغ ہوتے ہوئے فاصلوں کو سمیٹا جا سکتا ہے۔

اس بار عید الفطر کے دن رفقاء کا منصوبہ ہوا کہ کہیں تفریح کے لیے جانا چاہیے۔
راقم الحروف تاریخی آثار سے ابتدا ہی سے دلچسپی ہے،
کہ ان میں ملت اسلامیہ ہند کی عظمت رفتہ کی تصویریں عمارتوں کے آئینے میں نگاہوں کے سامنے آجاتی ہیں،
جنجیرہ کا نام کئی سال پہلے علامہ شبلی کے خطوط میں پڑھا تھا ، اسی سرزمین پر نواب جنجیرہ کا محل واقع ہے جہاں ہندوستان کی مایہ ناز تعلیم یافتہ خاتون عطیہ فیضی پیدا ہوئیں،اور اسی محل کو شبلی نعمانی کی میزبانی کا شرف حاصل ہے،
ان وجوہات کی بنا پر ہماری رائے ہوئی کہ اسی علاقے کا سفر ہوناچاہیے،چنانچہ کل بروز اتوار اپنے رفقاء سفر مولانا اسعد قاسمی،محترم عارف اعظمی،انصار احمد اعظمی ،حفیظ اللہ بستوی پر مشتمل ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ بذریعہ کار صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے، نیو بامبے ہائی وے سے ہوکر پہاڑی علاقوں میں داخل ہوئے ،سمندر کے ساحل پر اور کبھی پہاڑیوں پر ہماری گاڑی چلتی رہی،ایک طرف سمندر دوسری طرف سبز پوش پہاڑوں کے سلسلے،اور ناریل وسپاری کے درختوں کے جھنڈ بہت خوب صورت منظر پیش کررہے تھے۔
ایک بجے مروڈ شہر میں داخل ہوئے مکانات کے طرزِ تعمیر اور عالیشان مساجد سے اندازہ ہوا کہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے' مکانات اور ان کے دروازوں پر آویزاں تختیوں پر مسلم ناموں کو دیکھ کر طبیعت میں ایک طرح سے فرحت کا احساس پیدا ہوا،شہر کے درمیان سے گذرتے ہوئے ہم جنجیرہ کی سمت نکل گئے،غالبا بیس کلومیٹر کے بعد سطح سمندر سے تقریباً ساٹھ فٹ کی بلندی پر ٹیڑھی میڑھی لکیروں کی طرح بنی ہوئی رہ گذر ہماری گاڑی چلتی رہی۔
اوپر تاحد نگاہ پہاڑیوں کی بلندیاں اور نیچے سمندر کی لہریں،کبھی کبھی دلوں میں خوف پیدا کرجاتیں۔

کچھ فاصلے کے بعد سمندر کی سمت میں بڑا خوبصورت محل نظر آیا جو وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے
اس کے عقب میں سمندر اور تینوں طرف خوبصورت باؤنڈری،چھوٹے چھوٹے نفیس منارے،جو اسلامی اور عیسائی طرزِ تعمیر کا سنگم معلوم ہوتے تھے۔اندر جانے کی توفیق اس لیے نہ ہوسکی کہ اس بات کے باوجود یہ محل انتہائی دیدہ زیب پرکشش اور وجاہت سے معمور ۔اندازہ ہی نہ سکا کہ یہی وہ محل ہے'
جو شبلی کی قیام گاہ تھا۔
چونکہ ہماری منزل وہ قلعہ تھا جو عین سمندر میں واقع ہے اس لیے ہم آگے بڑھ گئے تھوڑی دیر کے بعد نیچے ناریل کے درختوں کی قطاریں اور آبادیاں نظر آئیں،گاڑی وہیں روک کر اس خوبصورت منظر سے لطف اندوز ہوئے،وہ راستہ جہاں ہم کھڑے تھے یہاں سے آبادی تقریباً ساٹھ ستر فٹ نیچے تھی مکانات رنگ برنگے چھپر، درختوں کے درمیان خوبصورت سی عمارتیں جو بالکل سمندر کے کنارے دور تک لمبائی میں پھیلی ہوئی تھیں ایسی دلکش اور خوشنما معلوم ہورہی تھیں جیسے حقیقت سے ہٹ کر اسکرین پر کوئی منظر نقش ہوگیا ہو ۔یہ آبادیاں سمندر سے اس قدر قریب ہیں'کہ محسوس ہوتاہے کہ اس کی مچلتی ہوئی لہریں ان مکانوں سے کھیل رہی ہیں'،
ایک لمحے کے لیے فکر ہوئی کہ اتنے نشیب میں کار کس طرح جائے گی مگر روانہ ہوئے تو آسانی کے ساتھ بہت سے موڑ سے گذرتے ہوئے آبادی میں داخل ہوگئے نیچے اترتے وقت ہر موڑ پر اللہ اکبر کی چھوٹی چھوٹی تختیاں لگی ہوئی تھیں جو صاف بتارہی تھیں کہ یہ مکمل آبادی اہل ایمان کی ہے۔
اؤر یہ خیال بالکل صحیح ثابت ہوا جب آبادی میں داخل ہوئے۔اس قدر خوبصورت علاقے میں اہل ایمان کو دیکھ کر جہاں خوشی ہوئی وہیں حیرت بھی ہوئی کہ ٹورسٹ خطوں میں ان کا وجود ایسے ملک میں جہاں نفرت وتعصب عروج پر ہوباعث تعجب ضرور ہے،
کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ان مقامات سے مسلمانوں کو بے دخل کرکے انہیں سرکاری تحویل میں لے لیتی ہیں۔
اب ہم خشکی کے آخری کنارے پر تھے اس کے آگے تاحد نگاہ سمندر کی دنیا ہے' مسافروں کی گاڑیوں کے لئے بالکل سمندر کے کنارے وسیع پارک ہے'اس کا نگران بھی مسلمان ہے'۔مکانوں سے لیکر دکانوں تک تمام چیزیں مسلمانوں کی ہیں یہاں غیر مسلم کا وجود نہیں ہے۔
پارک سے متصل ایک بہت بڑی مسجد ہے،جو پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ اس ساخت طرزِ تعمیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدیوں پرانی ہے اور کسی حکمراں کی توجہ کا نتیجہ ہے مسجد بڑی بھی ہے خوبصورت بھی اور انتہائی مضبوط بھی۔
اس کا ابتدائی حصہ جدید ہے'قیاس ہے'جمعہ میں نمازیوں کی کثرت کے باعث توسیع کی گئی ہے
اندر کے مسقف حصے میں پندرہ چھوٹے چھوٹے قبے ہیں بلکہ پورا مسقف حصہ انہیں قبوں پر منحصر ھے۔
گاڑی کھڑی کرکے یہاں ظہر کی نماز ادا کی گئی۔
ہم نے امام مسجد ملاقات کی کوشش کی تاکہ تاریخی حیثیت کا کچھ پتہ چلے لیکن ملاقات نہ ہو سکی کہ وہ وطن تھے۔ممبر پر مفتی تقی عثمانی کا ترجمہ قرآن اور فضائل اعمال رکھی ہوئی تھی اس سے اندازہ ہوا کہ شافع مسلک کے علاوہ فکر دیوبند کی ترجمان ہے'،
اب ارادہ ہوا کہ قلعہ میں داخل ہوا جائے لیکن یہ آرزو اس لیے پوری نہ ہوسکی کہ قلعہ ساحل سے تقریباً آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر سمندر میں ہے' اس میں داخل ہونے کے لئے کشتیاں رہتی ہیں جو کرائے پر لیکر جاتی ہیں،مگر بارش کے موسم میں سرکاری طور پر بند ہوجاتی ہیں،اور چند روز پہلے سے بند ہوچکی ہیں،سمندر کے ساحل پر کھڑے ہوکر بہت دیر تک اس قلعے اور اس کی پتھروں کی فصیلوں کو ہم دیکھتے رہے اور انسانی عزم و ہمت کے بارے میں سوچتے رہے کہ اس قدرتی سرمائے کے ذریعے انسان کیسی کیسی کائنات کو مسخر کرلیتاہے۔۔۔
(جاری)