Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 17, 2019

ہاں!میں محمد مرسی ہوں!!


نازش ہما قاسمی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں میں محمد مرسی ہوں، جی مصر کا جمہوری طور پرمنتخب کیا ہوا سابق صدر، اخوان المسلمون کا راہنما، ہزاروں دلوں کی دھڑکن، عزیمتوں کا استعارہ، بلند حوصلگی کی عمدہ مثال، عزائم کا پختہ انسان، عزیمتوں کا نشان محمد مرسی ہوں۔ میری پیدائش ۲۰؍اگست ۱۹۵۱ کو شرقیہ مصر میں ہوئی۔ میری اہلیہ کا نام نگلہ علی محمود ہے،میرے پانچ بچے ہیں۔ میرا مادر علمی قاہرہ یونیورسٹی ہے جہاں سے میں نے بی ایس انجینئرنگ ، ایم ایس میٹالر جیکل انجینئرنگ کی۔ اس کے بعد میں نے کلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ اور وہیں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کچھ دنوں تک درس وتدریس سے وابستہ رہا۔ ۱۹۸۵ میں میں مصر آیا اور شرقیہ کی ایک یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دی۔ ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۵ تک مصر کی پارلیمنٹ میں مصر کی سیاسی پارٹی اخوان المسلمون کا ممبر رہا، ۲۰۰۵ کے انتخاب میں مجھے شکست ہوئی اور ۲۰۰۶ میں بطور سیاسی قیدی کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا۔ ۲۰۱۱ میں میری قیادت میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی قائم ہوئی۔ ۲۳؍۲۴؍مئی ۲۰۱۲ میں مصر میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا الیکشن منعقد ہوا جس میں مَیں اور مصر کے سابق صدر احمد شفیق نے سب سے 
زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 

۱۶؍۱۷؍جون ۲۰۱۲ کو صدارتی انتخابات کے دوسرے دور کا الیکشن ہوا۔ مصر کے قومی الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ میں نے اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرکے سابق وزیر اعظم احمد شفیق کو شکست دے دی ہے۔ میں نے انتخاب جیتنے کے بعد اخوان المسلمون اور فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا، صرف یہ ظاہر کرنے کےلیے کہ میں بطور صدر تمام مصریوں کی نمائندگی کروں گا کسی ایک پارٹی کا راہبر ورہنما نہیں؛ بلکہ پوری مصری قوم کا صدر ہوں۔ ۳۰؍جون ۲۰۱۲ کومیں نے مصر کے پہلے جمہوری صدر کا حلف لیا۔ جیسے ہی میں نے صدر کا حلف اُٹھایا باطل قوتیں خوفزدہ ہوگئیں، ایوان باطل میں کہرام مچ گیا، وہ سہم گئے، ڈر گئے؛ کیوں کہ حسن البناء شہید کا خواب پورا ہورہا تھا، مصر میں صلاح الدین ایوبی کی فوجیوں کی طرح فوج کی تشکیل کی جارہی تھی، جو اقصیٰ کی بازیابی کےلیے امریکہ واسرائیل سے لڑنے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتی؛ لیکن وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، مصری قوم فراعنہ مصر کے خوف سے ہمیشہ دبی ہی رہی، میں نے جو ابھارنے کی کوشش کی تھی، جو اسلامی حمیت کا چراغ جلایا تھا، جو خلافت کی راہ دکھائی تھی وہ معدوم ہوگئی اور پھر میرے خلاف بغاوت کی گئی، اسرائیل کی شہ پر مصر کے موجودہ صدر سیسی نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی عوام کو ورغلا دیا، طاقت کے بل بوتے پر ان کی دیوار توڑ دی، ٹینکوں کاسہارا لے کر کمزور و نہتے عوام کو روند ڈالا ۔ ۳۰ جون ۲۰۱۳ میرے اقتدار کی پہلی سالگرہ کا دن تھا، لیکن وہ دن میرے اقتدار کاآخری دن بھی ثابت ہوا، اس دن عوام الناس کے ذہن کو ورغلایا گیا، امریکہ نے اپنا سفارت خانہ بند کردیا اور فوج کو اُکسادیا کہ وہ ہمیں معزول کرکے اقتدار ہاتھ میں لے لے، فراعنہءِ مصر کی روح فوج میں حلول کرگئی، تحریر اسکوائر پر سالگرہ کا جشن منانے والے عوام کو دھوکہ میں رکھ کر فوج نے ۳؍جولائی ۲۰۱۳ کو اقتدار پر قبضہ کرلیا، اس کے بعد سے اخوان المسلمون پر قہر سیسی نازل ہوا جہاں جدھر بھی اس کے اراکین نظر آئے انہیں یا تو مار دیا گیا یا پھر جیل کی اندھیری کوٹھری میں قیدی تنہائی میں ڈال دیاگیا۔ وہ خواب جو حسن البنا شہید نے دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ، فراعنہ مصر نے اسلامی حکومت کو گوارا نہیں کیا، امریکہ واسرائیل کی شہ پر مصر کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا، وہ اتنے طاقتور تھے کہ میرے مادر علمی جامعہ ازہر تک کو اپنے قبضے میں لے لیا، وہاں کے مفتی اعظم سے اپنے حق میں بیان تک دلوایا ۔ 
ہاں میں وہی محمد مرسی ہوں جس پر اور جس کے ۱۴ اخوانی ساتھیوں پر قتل وغارت گری پر اکسانے کا مقدمہ درج کیاگیا، غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کےتعاون ، مصر میں دہشت گردی پھیلانے اور ملکی دفاعی راز افشا کرنے کا الزام عائد کیاگیا۔ ۲۱؍اپریل ۲۰۱۴ کو عدالت نے مجھے صدارتی محل کے باہر اشتعال انگیزی پھیلانے اور فسادات کے الزام میں ۲۰؍سال کی قید کی سزا سنائی اور ۱۶؍ مئی ۲۰۱۵ کو مصر کی عدالت نے مجھے ۲۰۱۱ میں جیل توڑنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی وجہ سے سزائے موت دی۔ ۱۶؍جون ۲۰۱۵ کو مصر کی اعلیٰ عدالت نے سزائے موت کی اپیل کو مسترد کر دیا اور سزا کو برقرار رکھا اور جاسوسی کے الزامات کے تحت عمر قید کی اضافی سزا سنا دی۔اب میں جیل میں ہوں، کال کوٹھری میں ہوں، قید تنہائی میں ہوں، رمضان جیسے مقدس ماہ میں مجھے تلاوت کرنے کےلیے قرآن نہیں دیا گیا، میں صرف ایک بار اسے چھونا چاہتا تھا، لمس کی حدت محسوس کرنا چاہتا تھا جیل میں رہ کر جو پریشانی تھی شاید اسے دیکھ کر کچھ آسانی ہوجاتی؛ اسی لیے میں نے قرآن طلب کیا؛ لیکن خود کو مسلمان کہنے والے جیلر نے قرآن نہیں دیا ۔ ہاں میں حافظ ہوں، چالیس سال سے قرآن میرے سینے میں ہے ، دین کا علم رکھنے والا ہوں، دنیا کی سب سے بڑی دینی درسگاہ کا پڑھا ہوا انسان ہوں، مجھے بچپن سے ہی صبروتحمل کی تعلیم دی گئی، اعلیٰ اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم دی گئی اسی کی پاسداری کرتے ہوئے میں نے پوری زندگی گزار دی، میں نے بہار عرب کا سہارا نہیں لیا،لوگوں کو ظلم وبربربیت کے لیے اُکسایا نہیں، حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا، عوامی رجحان تھا عوام آمریت سے تنگ آچکے تھے، تبدیلی کی خواہاں تھے، جبھی وہ تحریر اسکوائر پر جمہوری طریقے سے احتجاج کررہے تھے جس کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا میں جمہوری طور پر چنا گیا صدر تھا؛ لیکن دنیا کی آنکھوں میں کھٹکھٹنے لگا، میں اخوان المسلمون کا رہنما تھا، اس سے جڑا ہوا تھا، اس لیے باطل خوف کھاگیا ، اپنے بھی خوف کھاگئے ، وہ لوگ جو جدید اسلام کے خواہاں امریکہ واسرائیل کی دوستی پر یقین رکھتے ہیں ڈر گئے کہ کہیں مصر سے اخوان کی طاقت مضبوط ہوتی گئی تو یہ فلسطینیوں کی دادرسی کرے گا، اسرائیل کا جینا حرام کردے گا غزہ کے لیے رفح گزر گاہ کھول دے گا جس سے حماس کو طاقت ملے گی، القسام کو قوت حاصل ہوگی ان لوگوں نے مجھے نشانے پر رکھا اور مصری قوم میں وفاداری کی کمی ہے وہ ہمیشہ طاقتوں کو سلام کرتی رہی ہے وہ ترکی قوم کی طرح دلیر نہیں؛ اس لیے قوم نے سِپر ڈال دی اور یوں جمہوری طور پر منتخب حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اسرائیل وامریکہ کی امید برآئی، جنرل سیسی ملک کا صدر بن گیا۔ ملک میں اخوان المسلمون کا نام لینا گناہ قرار دیاگیا، حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ، اسرائیل و امریکہ دوست ہوگئے اور قطر دشمن ہوگیا۔ ہاں میں وہی مرسی ہوں جو ۱۷ جون کو کمرہ عدالت میں نقاہت اور ظلم وستم شدید ٹارچر کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوگیا اور ایسا بے ہوش ہوا کہ دوبارہ ہوش نہ آیا اور خالق حقیقی سے جاملا-
انا للہ وانا الیہ راجعون