Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 25, 2019

کوٸی ہے جو ہماری أواز بنے ؟

صداٸے وقت۔۔۔۔۔۔نماٸندہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوان بیٹے کی موت کا درد کیا ہوتا ، باپ کے کھونے کا غم کیا ہوتا ہے ، آنسو کیا ہوتے ہیں مرنے والے کی بیوی بچے ، ماں باپ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ، لنچنگ میں مارے گئے لوگوں کی جگہ جب خود کو رکھ کر سوچتا ہوں تو دل نہیں روح کانپ جاتی ہے کی اگر یہ حادثہ میرے ساتھ ہو تو میرا خانوادہ اسے کس کلیجے برداشت کرے گا ۔ میرے بچوں پر کیا گزرے گی ، میرے بعد انکی زندگی کیسی ہوگی یہ سوچ کر راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے لیکن مارنے والے کیسے بے رحم اور پتھر دل ہیں کی کسی کی اولاد کو مار کر اپنے اولاد کے ساتھ چَین سے سو جاتے ہیں ۔  یہ سنگ دلی اور بے رحمی اسی وقت ممکن ہے جب کسی کے دماغ سے محبت نکال کر اسکی جگہ نفرت بھر دی جائے 

۔ 
جب حکومت کے معیار دہرے ہوں ، ملک پر نظر رکھنے کےلئے  دو الگ الگ چشمے ہوں ، ِنیّتوں میں کھوٹ ،  ارادوں میں جھول ہو ، دل میں نفرت ، فطرت میں زہر ہو تو  منھ میں شہد رکھ کر بھی بولا جائے تو اثر کم نہیں ہوتا ۔۔۔ اعتماد من کی بات سے نہیں وسعت قلبی سے جیتا جاتا ہے اور افسوس کہ یہ خصوصیت تنگ نظروں کے حصے میں نہیں ۔۔
ملک میں ہورہے بہیمانہ انسانیت سوز واقعات اور حادثات دل میں شک پیدا کرتے ہیں  کہ سب کا ساتھ سب کا وشواس حقیقت نہیں بلکہ نئ حکومت کا نیا اضافی جملہ تھا حقیقت ہوتا تو ملک پر امن ہوتا لیکن اس طرح کی تصویریں اور واقعات حکومت کی نیت ، ارادے ، اشارے ظاہر کرتے ہیں ۔۔ حکومت اور ریاست میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو کوئی شاہ راہ پر تھوک نہیں سکتا خون بہانا تو دور کی بات ، حکومت نے طے کیا کہ الیکشن میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ ووٹ پَر اثر ہوگا تو  پورے الیکشن میں گئو ہتیا اور لنچنگ کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا ،  لیکن الیکشن ختم ہوتے ہی پھر شیطان آزاد ہوگئے بلکہ کھول دیئے گئے جو الیکشن کے زمانے میں سیاسی حرمت والے ایام میں قید تھے ۔ ان شیطانوں سے کیسے بچا جائے ان قید کرنے اور ڈھیل دینے والوں پر اعتماد کرنے کے بجائے خود پر اعتماد کرنا ہوگا  ۔۔۔ 
 
اس موقع پر کچھ سوال سیکولر پارٹیوں سے بھی بنتے ہیں موجودہ الیکشن میں سیکولرازم کے وجود کو مسلمانوں نے تھامے رکھا ، انکے سیاسی قد و قامت ، عزت و وقار کو مجروح ہونے سے بچا لیا ، ان سیکولر پارٹیوں کو آج آکسیجن وہیں سے مل رہی ہے جن مسلم بستیوں میں جانے سے انھیں بو آتی تھی ۔ جنھیں جلسوں اور ریلیوں میں اگلی کرسی دینے میں شرم محسوس ہوتی تھی ، مسلمانوں پر ہو رہے ظلم پر بولنے سے جن کا وجود خطرے میں نظر آتا تھا انھیں مسلمانوں نے اپنوں کو چھوڑ کر انکے وجود کو زندہ رکھا تاکہ جمہوریت قائم رہ سکے ، حق و انصاف ،امن و آمان بحال ہوسکے ۔۔ مسلمانوں نے اپنا حق ادا کردیا ۔۔   کیا اب یہ سیکولر پارٹیاں اپنا حق ادا کریں گیں ؟ کیا وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو اور تحفظات پر کھل کر ہمارے سامنے کھڑی ہونگی ؟ موجو دہ اور آنے والے نا مناسب حالات اور ناانصافی پر کھل کر ہمارے دفع میں سڑک سے سَنسَد تک  کھڑی ہوں گیں ؟ موب لنچنگ ، گئو ہتھیا پر اپنا بیان دیں گیں ، اس طرح پیٹ پیٹ کر مارے جا رہے مسلم نوجوانوں کے حق میں گھروں سے باہر نکلیں گیں ؟ کیا ایسے حالات سے نپٹنے اور اسکی روک تھام کے لئے بھی کوئی محاذ بنے گا اگر آپ اب بھی کچھ نہیں کر سکتے تو یاد رکھیں ہم مجبور نہیں ۔۔