Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 1, 2019

مولوی کی بیٹیاں ۔۔۔ایک تلخ حقیقت۔۔۔۔۔۔ضرور پڑھیں۔

صدائے وقت/ منقول۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
5 ذی الحج کو بڑی بیٹی نے کہا بابا عید میں پانچ دن رہ گئے ہیں ہم نے کچھ بھی خریداری نہیں کی
مولوی صاحب نے کہا اچھا میرا پتر !!!
ابھی بہت دن ہیں خرید لیں گے چاند رات سے ایک دن قبل سب کچھ لے لیں گے
مولوی صاحب یہ بات کررہے تھے کہ آذان سنائی دی مولوی صاحب جو آنکھیں بیٹی کو جھوٹی تسلی دینے پر شرمندگی سے جھکائے ہوئے تھے انکو موقع مل گیا اور مسجد کی طرف چل دیئے 

عید سے ایک دن قبل جب مولوی صاحب ہر طرف سے ناامید ہوگئے کیونکہ مانگنے سے عزت نفس جاتی ہے اور قرض لینا نہیں کیونکہ واپسی کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں اور خود سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کیونکہ مولوی صاحب کے بچوں کے کون سے دل ہوتے ہیں جو مچلتے ہوں ان کے کون سا احساسات ہوتے ہیں وہ کونسا فیلنگ رکھتے ہیں انہوں نے کونسا باہر نکلنا ہے
تو مولوی صاحب جو کہ تاویلوں کے بے تاج بادشاہ تھے دلیل تو ان کے گھر کی لونڈی تھی سمجھانے میں ماہر تھے جب کوئی انتظام نہ ہوا تو سوچا آج جتنی منطق اور استقراء قیاس پڑھا ہے سب کو بروئے کار لاکر بیٹی کو قائل کروں گا کہ بیٹا بڑی عید پر کوئی کپڑے نہیں پہنتا یہ تو قربانی کی عید ہے لیکن دھڑکا تھا کہ بیٹی بھی تو مولوی کی ہے یہ کہہ دیا کہ قربانی بھی تو آپ نہیں کررہے
خیر سارا علم مستحضر کرکے گھر گیا تو بیٹیاں ہاتھوں میں پرچیاں لیکر منتظر تھیں کہ باباجان نے آج کا وعدہ کیا ہے تو ہمیں مطلوبہ چیزیں لادیں گے
جیسے ہی مولوی صاحب کھنگورا مارتے ہوئے داخل ہوئے بیوی سمجھ چکی تھی کہ بیٹیوں کے دل ٹوٹنے والے ہیں تو وہ جلدی سے پیاز لے آئی کہ پیاز کاٹنے کے بہانے آنسو بہا لے گی کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے اس کے آنسو اولاد کےلئے تو پلکوں کی منڈیر پر ہی بسیرا کرتے ہیں لیکن وہ بیٹیوں کے سامنے شوہر کو اور باپ بیٹیوں کو ٹوٹتا نہ دیکھ سکے
مولوی صاحب بیٹھے تو چھوٹی آنے لگی کہ پرچی تھماؤں
مولوی صاحب نظریں جھکائے جرابیں اتارنے لگے اور ٹوپی لپیٹ کے رکھی جو کہ علامت ہوتی ہے کہ اس کے بعد باہر نہیں جانا کہ اچانک چھوٹی کو بڑی بیٹی بازو سے پکڑتی ہے اور اسے اشارے سے روکتی ہے اس کے ہاتھ سے پرچی لیکر اپنی پرچی میں رکھ کر چپکے سے چٹائی کے نیچے چھپاتی ہے
یہ سب مولوی صاحب کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے لیکن نہ دیکھنے کی کمال فنکاری کررہے تھے ملوانی کے آنسو پیاز کے بہانے سیل رواں بنے ہوئے تھے مولوی صاحب کا سارا علم زیرو ہوگیا اسے لگا جیسے وہ سب سے زیادہ جاہل اجڈ اور گنوار ہے

اس سے پہلے کہ مولوی صاحب کچھ کہتے, بیٹی بولی بابا جان کل ہم نے نئے کپڑے نہیں لینے کیونکہ بڑی عید تو قربانی کی عید ہے اور کل آپ نے چاچو کے دو بچھڑے بھی تو ذبح کرنے ہیں اور ہم نے وہاں آپ کو قربانی کرتے دیکھنا ہے, سارا دن تو قربانی میں لگ جائیں گے ہم کپڑے کس وقت پہنیں گے ؟؟؟
چھوٹی عید کے پڑے ہوئے ہیں وہی پہن لیں گے وہ سارے دلائل جیسے کاپی پیسٹ کئے ہوں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عالم فاضل اور سمجھدار بیٹی ہی لگی
بیٹی کی یہ بات سن کر مولوی صاحب نے نظریں اٹھائیں ایک نظر بیٹی کے چہرے پر ڈالی کچھ دیر کو گردن فخر سے تن گئی اپنی پگ کا شملہ اونچا بہت اونچا محسوس ہوا لیکن اگلے لمحے ہی بچیوں کی معصومانہ خواہشات کا یوں خود کشی کرنا اسکو توڑ گیا اسے اپنا آپ بے تحاشہ ناکام باپ جو عید پر بھی ضرورت کی خواہش نہ پوری کرسکا اس سے یہ برداشت نہ ہوا جلدی سے کمرے میں جاکر سونے کا کہہ کر بستر میں گھس گئے اور وہاں ہونٹ سی لیئے منہ کو بھینچا اور آنکھوں سے کہا تم آزاد ہو برس لو ورنہ غم کے اندر کے سونامی سے مر ہی جاؤ گے ۔
صبح اٹھ کر مولوی صاحب نماز کےلئے چلے گئے واپس آئے تو چھوٹی بیٹی نے دس بیس پچاس کے چند نوٹ پکڑے ہوئے تھے بولی بابا یہ پیسے ہیں آپ ایسے کریں کہ بھائی کو کپڑے لے دیں اس نے کل آپ کے ساتھ مسجد جانا ہے اور وہ چھوٹا ہے گلی میں کھیلے گا تو سب کیا کہیں گے یہ ایک اور دھماکہ تھا
لیکن بہن کا بھائی کے لئے پیار کیا ہوتا ہے سب سمجھا گیا۔
ہمارے معاشرے میں اکثر مولوی حضرات کی زندگی اسی طرح کی کشمکش کا شکار ہے وہ شخص جو پورے محلے کو عید کی نماز پڑھاتا ہے خود اپنے اور اپنے بچوں کےلئے کپڑے بھی نہیں خرید سکتا..نہ ان لوگوں کی تنخواہ پوری ہے نہ ہی آمدن کا زریعہ ایسے میں ہم لوگوں کو ہی ان کی مدد کرنی چاہیئے ہم 1500 روپے کا سوٹ 5000 روپے میں تو خرید لیتے ہیں مگر کسی غریب کی مدد نہ کرنے کے ہزاروں بہانے ڈھونڈتے ہیں... بڑے پلازہ میں جاکر دو کوڑی کی چیز ہزاروں روپوں میں چپ چاپ خرید لیتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب 100،،،50 مانگ لے تو فلاسفر بن کر اسے لیکچر دیتے ہیں ..ایک دوسرے کی مدد سے ہی زندگی کا اصل مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے.
منقول