Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 9, 2019

ہندوستان میں مسلمانوں کی دو حیثیتیں۔!!!

صداٸے وقت/تحریک أزادی ہند اور مسلمان“ مولانا مودودی سے اقتباس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں ہماری دو حیثیتیں ہیں- ایک حیثیت ہمارے "ہندوستانی" ہونے کی ہے اور دوسری حیثیت "مسلمان" ہونے کی-
پہلی حیثیت میں ہم اس ملک کی تمام دوسری قوموں کے شریک حال ہیں- ملک قلاش اور فاقہ کشی میں مبتلا ہو گا تو ہم بھی مفلس اور فاقہ کش ہونگے- ملک کو لوٹا جائے گا تو ہم بھی سب کے ساتھ لوٹے جائیں گے- ملک میں جور و ظلم کی حکومت ہو گی تو ہم بھی اسی طرح پامال ہونگے جس طرح ہمارے اہل وطن ہونگے- ملک میں غلامی کی وجہ سے بحیثیت مجموعی جتنی مصیبتیں نازل ہونگی، جتنی لعنتیں برسیں گی، ان سب میں ہم کو برابر کا حصہ ملے گا- اس لحاظ سے ملک کے جتنے سیاسی و معاشی مسائل ہیں وہ سب کے سب ہمارے اور دوسری اقوام ہند کے درمیان مشترک ہیں- جس طرح ان کی فلاح و بہبود ہندوستان کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے، اسی طرح ہماری بھی ہے- سب کے ساتھ ہماری بہتری بھی اس پر منحصر ہے کہ یہ ملک ظالموں کے تسلط سے آزاد ہو- اس کے وسائل ثروت اسی کے باشندوں کی ترقی اور بہتری پر صرف ہوں- اس کے بسنے والوں کو اپنے افلاس، اپنی جہالت، اپنی اخلاقی پستی اور اپنی آمدنی پسماندگی کا علاج کرنے میں اپنی قوتوں سے کام لینے کے پورے مواقع حاصل ہوں، اور کوئی جابر قوم ان کو اپنی ناجائز اغراض کے لیے آلہ کار بنانے پر قادر نہ رہے-
دوسری حیثیت یعنی مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہمارے مسائل کچھ اور ہیں جن کا تعلق صرف ہم ہی سے ہے- کوئی دوسری قوم ان میں ہماری شریک نہیں ہے- اجنبی استیلاء نے ہمارے قومی اخلاق کو، ہماری قومی تہذیب کو، ہمارے اصول حیات کو اور ہمارے نظام جماعت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے- ڈیڑھ سو برس کے اندر غلامی ان تمام بنیادوں کو گھن کی طرح کھا گئی ہے جن پر ہماری قومیت قائم ہے- تجربے نے ہم کو بتا دیا ہے اور روز روشن کی طرح اب ہم اس حقیقت کو دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ صورتحال زیادہ مدت تک جاری رہی تو ہندوستان کی اسلامی قومیت رفتہ رفتہ گھل گھل کر طبعی موت مر جائے گی گی اور یہ برائے نام ڈھانچہ جو باقی رہ گیا ہے یہ بھی نہ رہے گا- اس حکومت کے اثرات ہم کو اندر ہی اندر غیر مسلم بنائے جا رہے ہیں- ہمارے دل ودماغ کی تہوں میں وہ جڑیں سوکھتی جا رہی ہیں جن سے اسلامیت کا درخت پیدا ہوتا ہے- ہم کو وہ حشیش پلایا جا رہا ہے جو ہماری ماہیت کو بدل کر خود ہمارے ہی ہاتھوں سے ہماری مسجد کو منہدم کرا دے- جس رفتار کے ساتھ ہم میں یہ تغیرات ہو رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ایک مبصر اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس عمل کی تکمیل اب بہت قریب آ لگی ہے- زیادہ سے زیادہ تیسری چوتھی پشت تک پہنچتے پہنچتے ہمارا سواد اعظم خود بخود غیر مسلم ہو جائے گا اور شاید گنتی کے چند نفوس اس عظیم الشان قوم کے مقبرے پر آنسو بہانے کے لیے رہ جائیں گے- پس ہماری (مسلم) قومیت کا بقا و تحفظ اس پر منحصر ہے کہ ہم اس حکومت کے تسلط سے آزاد ہوں اور اس نظام اجتماعی کو ازسر نو قائم کریں جس کے مٹ جانے ہی کی بدولت ہم پر مصائب نازل ہو رہے ہیں-
"تحریک آزادی ہند اور مسلمان" مولانا مودودی رح
جاری ۔۔۔