Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 9, 2019

جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مشورے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جاٸزہ۔


از/طاہر مدنی، ڈائریکٹر شعبہ دعوت و ارشاد، جامعة الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ، یوپی.
............صداٸے وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6 جولائی 2019 کے روزنامہ انقلاب میں جسٹس مارکنڈے کاٹجو صاحب کا ایک مضمون بعنوان؛ لوک سبھا انتخابات 2019 کے نتائج؛ شائع ہوا ہے. جس میں مسلمانوں کو موجودہ پستی سے نکلنے کے لیے چند مشورے دیئے گئے ہیں. یہ بھی بتایا ہے کہ انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب مسلمان کنگ میکر نہیں رہے. مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی حالت قابل رحم ہے. اس صورتحال کا سبب یہ بتایا ہے کہ مسلمان بنیاد پرست علماء اور موقع پرست سیاست داں کے درمیان جکڑا ہوا ہے. مسلمانوں کی پس ماندگی کی اصل وجہ تھیولوجیکل، بنیاد پرستانہ اور جاگیردارانہ مسلم ذہنیت بتائی گئی ہے. اس کے بعد موصوف نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے چند مشورے دیئے ہیں، ذیل میں انہی مشوروں کا تجزیہ پیش نظر ہے. 
مولانا طاہر مدنی

1 … ان کا پہلا مشورہ یہ ہے کہ مسلمان خود ہی یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کریں، اس سے قدیم شریعہ قانون کا خاتمہ ہوگا جو قدیم سماجی حالات پر مبنی ہے اور 21 ویں صدی کے لائق نہیں ہے. اس میں مرد اور عورت میں تفریق کی گئی ہے، صرف مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے اور وراثت میں لڑکیوں کا حق کم رکھا گیا ہے. ان قدامت پسند روایات کی وجہ سے مسلم سماج پچھڑتا چلا جا رہا ہے….
اس مشورے کے تعلق سے یہ عرض ہے کہ قانون شریعت اللہ کا عطا کردہ ہے، اس میں ترمیم کا حق کسی کو نہیں ہے. اس کی بنیاد کتاب و سنت ہے، اس میں جو حصہ صراحت کے ساتھ منصوص ہے اس میں ترمیم کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مثلاً قرآن مجید میں یہ صراحت ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مشرک سے نہیں ہوسکتا اور مسلمان مرد کا نکاح مشرکہ سے نہیں ہوسکتا، یہ قانون شریعت ہے اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا. اسی طرح یہ صراحت ہے کہ ایک وقت میں کسی مسلمان کے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں نہیں ہوسکتیں. بعض حضرات مسلمان ہوئے اور ان کی زوجیت میں چار سے زائد بیویاں تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان میں سے چار کا انتخاب کرلو. یہ قانون بھی ہے کہ بیک وقت دو سگی بہنیں کسی کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں. یہ سب شریعہ قانون کی دفعات ہیں، کون بدل سکتا ہے ان کو؟ البتہ جو امور استنباط و استدلال سے اخذ شدہ ہیں اور ان میں آراء کا اختلاف ہے، ان میں ترجیح کا اختیار ہے.
جہاں تک طلاق کی بات ہے تو شریعہ قانون میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے اور اگر کوئی شوہر عورت کو تنگ کرے تو دار القضاء کے ذریعے نکاح فسخ کیا جاسکتا ہے.
وراثت کے قانون کو اسلام کے عائلی نظام کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے، اس نظام میں عورتوں پر مالی ذمہ داری ڈالی ہی نہیں گئی، ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کسی بھی حیثیت میں ہو، اس کی مالی ذمہ داری مرد حضرات پر ہے. اس لیے وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے بالمقابل کم رکھا گیا ہے، جس پر مالی ذمہ داریاں ہیں، اس کا حصہ زیادہ ہے، یہ بالکل قرین انصاف بات ہے، یہ حکم صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے؛ للذكر مثل حظ الانثيين؛ قرآن کے حکم کو کون بدل سکتا ہے. شریعت کے مآخذ کو نہ جاننے کی وجہ سے اس طرح کے مشورے دیئے جاتے ہیں، اسلامی شریعت ایک آسمانی شریعت ہے یہ کسی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے کہ جب چاہا بدل دیا، قرآن حکیم میں تاکید کی گئی ہے؛ اتبعوا ما أنزل الیکم من ربكم؛ جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو.
2… دوسرا مشورہ موصوف نے یہ دیا ہے کہ برقع مسلم عورتوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے.
اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ اسلام میں عورت کی حفاظت اور اس کی عزت و تکریم کا حکم ہے. صنف نازک کو جو مقام و مرتبہ اسلام نے بخشا ہے وہ اسی کا حصہ ہے. بد نگاہ اور بے شرم لوگوں سے تحفظ کیلئے خواتین اسلام کو حجاب کا حکم دیا گیا اور باہر نکلنے کی صورت میں پردہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس کیلئے برقع کوئی ضروری نہیں ہے، کوئی شکل بھی اختیار کی جا سکتی ہے، چادر کا پلو، اسکارف، برقع یا بالکل ڈھیلا ڈھالا لباس ہو. حجاب کے احکام قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں بطور خاص سورہ نور اور سورہ احزاب میں، احادیث میں مزید تفصیلات ہیں. مختلف علاقوں میں پردے کے مختلف طریقے رائج ہیں، خواتین اسلام جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر پردے کا اہتمام کرتی ہیں، ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے، برقع بھی اگر پہنتی ہیں تو اپنی مرضی سے، جو لوگ عورتوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں وہ عورتوں کو حجاب کی آزادی دینے کیلئے کیوں تیار نہیں ہیں؟ یہ کیسا تضاد ہے؟
3… تیسرا مشورہ انہوں نے یہ دیا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو 1973 میں قائم ہوا تھا، اسے ختم کردینا چاہیے کیونکہ اس پر قدامت پسند علماء کا قبضہ ہے اور اسے اندرا گاندھی نے سیاسی مقاصد کیلئے بنوایا تھا… 

یہ بورڈ پر ایک بہت گھٹیا الزام تراشی ہے. آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوم مہتمم دار العلوم دیوبند کی سرکردگی میں مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہم اللہ کی سرگرم شرکت سے بنا تھا اور روز اول سے تحفظ شریعت کی قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک معتبر، مشترک اور محترم پلیٹ فارم ہے، اسے اندرا گاندھی کی کٹھ پتلی قرار دینا، ان علماء کرام کی توہین ہے. شاہ بانو کیس میں شریعت میں مداخلت کی گئی تھی، عدت کے بعد خرچ کی ذمہ داری شوہر کی نہیں بلکہ نسبی رشتہ داروں کی ہے وہ اگر نہ ہوں تو مسلمانوں کے بیت المال سے کفالت کی جائے گی، کسی بھی حال میں عورت کو بے سہارا نہیں چھوڑا جائے گا. اسلام کے عائلی اور معاشرتی نظام سے ناواقفیت کی وجہ سے اس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں. پرسنل لاء بورڈ ایک ملی پلیت فارم ہے، اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے، اس سے گھبرانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی. بورڈ تو صرف مشورے دیتا ہے، شرعی رہنمائی کرتا ہے، دار القضاء کے ذریعے معاملات سلجھاتا ہے اور عدالتوں کا بوجھ کم کرتا ہے. وہ اپنی بات کسی پر لاگو کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے، پہر اس سے کیا پریشانی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی پرسنل لاء بورڈ بنے ہوئے ہیں. مختلف کمیونٹی کو اس طرح کے ادارے بنانے کا حق ہے.
آخر میں جسٹس صاحب نے مسلم نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بنیاد پرست، جاگیردارانہ اور پس ماندہ روایات کی مخالفت کریں، یہی نجات پانے کا واحد راستہ ہے.
یہ گویا علماء کے خلاف اعلان بغاوت کی دعوت ہے. مسلم سماج پر علماء کے اثرات بہت گہرے ہیں، یہی بات تجدد پسندوں کو کھٹکتی ہے اور وہ بنیاد پرست، قدامت پسند، دقیانوسی اور جاگیردارانہ کی پھبتی کستے ہیں اور نوجوان نسل کو اپنی مذہبی قیادت سے برگشتہ کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ اس میں کامیابی انہیں نہیں ملے گی. امت اپنے دین و ایمان کی حفاظت کیلئے اپنے علماء پر بھروسہ کرتی ہے اور کرتی رہے گی. دین سے وابستگی ہی ہماری کامیابی کی راہ ہے، مسلمان اپنے دین سے دور ہوکر کبھی ترقی نہیں کرسکتا، یہ ہمارا یقین ہے. ہماری شریعت ہر دور کے مسائل حل کرتی ہے اس میں ایک طرف نصوص شرعیہ ہیں تو دوسری طرف اجتہاد کا راستہ ہے جو نئے مسائل کو شرعی اصولوں کی روشنی میں حل کرتا ہے اور یہی اسلامی شریعت کی ابدیت کا راز ہے.