Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 14, 2019

مسلمانوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ؟ ؟


معصو م مرادآبادی/معصوم مراد آبادی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدھیہ پردیش کے ایک سینئر مسلم آفیسر نے حکومت سے اپنا نام تبدیل کرنے کی اجازت مانگی ہے ۔کانگریس کے اقتدار والی اس ریاست میں ڈپٹی سیکریٹری رینک کے آفیسر نیاز احمد خان نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ نام بدلنے کی بات کہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’نیا نام مجھے مشتعل ہجوم سے بچائے گا ۔اگر میرے پاس کوئی ٹوپی ‘کوئی کرتا اور داڑھی نہیں ہے تو میں ہجوم کو اپنا نقلی نام بتا کر آسانی سے نکل سکتا ہوں ۔حالانکہ اگر میرا بھائی روایتی لباس پہن رہا ہے اور داڑھی رکھتا ہے تو وہ سب سے خطرناک حالت میں ہے۔‘‘

نیاز احمد خاں کا یہ بیان درحقیقت ملک بھر کے مسلمانوں میں پھیلے ہوئے خوف وہراس اور سراسیمگی کی کیفیت کو چیخ چیخ کر بیان کررہا ہے ۔حالانکہ نیاز خان کی مصیبت موجودہ حالات کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ ایک عرصہ سے مسلمان ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ان کی کہانی کا دوسرا حصہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے ۔آئیے پہلے ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں جن کا سامنا گذشتہ پانچ سال سے ہندوستانی مسلمان کررہے ہیں ۔یہ حالات اتنے سخت اور صبر آزماہیںکہ انہیں پوری طرح الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے ۔خوف کی نفسیات مسلسل بڑھ رہی ہے اور مسلمان خود کو یکا وتنہا محسوس کررہے ہیں ۔ایسی آزمائش کا وقت مسلمانوں پر آزادی کے بعد پہلی بار آیا ہے۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے اور اس سزا کا خاتمہ کہاں جاکر ہوگا۔حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی دوسری میعاد کے لئے اقتدار سنبھالتے ہوئے مسلمانوں کا ’وشواس‘جیتنے اور ان کے اندر سرایت کرگئے خوف کو دور کرنے کی بات کہی تھی ۔لیکن اس کا عملی مظاہرہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پہلی سرکار کے بلند بانگ نعرے ’سب کا ساتھ ‘سب کا وکاس ‘کے ساتھ’ سب کا وشواس‘ جیتنے کی بات مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لئے کہی تھی لیکن اس کے بعد ملک گیر سطح پر ہجومی تشدد کے عنوان سے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے‘ اسے پوری دنیا کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور اس کی گونج اقوام متحدہ تک جا پہنچی ہے۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملک بھر میں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانے کی وارداتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ہر روز کہیں نہ کہیں سے اس سلسلے کی ایک ڈراونی خبر موصول ہوتی ہے اور مسلمان مزید سہم جاتے ہیں ۔مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور انہیں مسلسل ڈر کے ماحول میں رکھنے کے پیچھے کون سی سازش کار فرما ہے‘ یہ کسی کو نہیں معلوم ۔آخراس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو مسلسل خوف ودہشت کے ماحول میں زندہ
ہجومی تشدد کا شکار مرحوم پہلو خان

رکھ کر اس ملک کا کون سا بھلا کیا جارہا ہے ۔کہیں یہ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور انہیں بیگانہ بنانے کی سوچی سمجھی سازش تونہیں ہے۔مسلمان ہجومی تشدد کے ظالمانہ سلسلے کو روکنے کی مقدور بھر کوششیں کررہے ہیں اور مسلسل ارباب اقتدار کو اس طرف متوجہ کررہے ہیں ‘لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہورہی ہے ۔اتنا ہی نہیں احتجاج بلند کرنے والے مسلمانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آواز کو کچلنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں ۔جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی وحشیانہ ہلاکت کے خلاف  مسلمانوں کا غم وغصہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔وہ سراپااحتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن مقامی انتظامیہ ان مسلمانو ں کو دلاسہ دینے کی بجائے انہیں سبق سکھانے کی روش پر گامزن ہے ۔یوپی ‘بہار اور جھارکھنڈ کے کئی شہروں میں سرکار مشنری کی طرف سے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔یوپی کے میرٹھ اور آگرہ ضلعوں میں ہجومی تشدد کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر بد امنی پھیلانے اور فساد برپا کرنے کے مقدمات درج کئے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے جمہوری حق سے محروم ہوجائیں

۔میرٹھ میں احتجاج کی کال دینے والے بدر علی نام کے ایک سماجی کارکن پر نہ صرف یہ کہ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی ہے بلکہ غریبوں کے علاج کے لئے تعمیر کئے گئے ان کے نرسنگ ہوم پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا ہے ۔یہ در حقیقت مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں مسلمانوں کو احتجاج کرنے اور ظلم وستم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے حق سے محروم کیوں کیا جارہا ہے۔اس ملک میں کسی بھی قسم کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا اور انصاف کا مطالبہ کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن مسلمانوں کے گرد قافیہ اتنا تنگ کردیا گیا ہے کہ ان کے سارے حقوق سلب کرنے اور انہیں سزاوار ٹھہرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔حالانکہ ہجومی تشدد کے خلاف جہاں جہاں بھی مسلمانوں نے احتجاج کی صدائیں بلند کی ہیں ‘وہاں پوری طرح امن برقرار رہا ہے اور کہیں بھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود پولیس اور انتظامیہ نے انہیں سبق سکھانے کی کوشش  کی ہے ۔کئی جگہ مسلمانوں پر لاٹھی چارج ہوا ہے اور ان پر بد امنی پھیلانے کے الزامات لگے ہیں ۔اس کے باجود مسلمانوںنے صبروتحمل کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور وہ آج بھی اس ملک کے سیکولر جمہوری آئین اور عدلیہ پر اپنے یقین کا اظہار کررہے ہیں ۔مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر اذیت اور تکلیف کا مرحلہ کیا ہوسکتا ہے کہ جس ملک کی آزادی کے لئے انہوںنے اپنی گردنیں کٹوائی تھیں اور جس کی تعمیر وترقی کے لئے اپنا خون پسینہ بہایا تھا آج وہاں انہیں اپنی مذہبی شناخت چھپانے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔انہیں ہر پل ہجومی تشدد کا شکار ہونے کا خوف دامن گیر ہے ۔
ماب لنچنگ کا شکار مرحوم اخلاق خان

اب آئیے ہم دوبارہ نیاز احمد خاں کا رخ کرتے ہیں جنہوں نے اپنا نام بدلنے کی اجازت طلب کرنے کے بعد دوسرے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’چونکہ کوئی بھی ادارہ ہمیں بچانے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لئے نام کو تبدیل کرنا بہتر ہے۔‘‘انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میرے فرقے کے بالی ووڈ اداکاروں کو بھی اپنی فلموں کی حفاظت کے لئے ایک نیا نام تلاش کرنا شروع کردینا چاہئے ۔اب تو ٹاپ اسٹارس کی فلمیں بھی فلاپ ہونے لگی ہیں ۔انہیں اس کا مطلب سمجھنا چاہئے ۔‘‘نیاز احمد خاں کا یہ درد وکرب ان مسلسل اذیتوں کا گواہ ہے جو وہ گذشتہ کئی سال سے جھیل رہے ہیں ۔ایک مسلمان آفیسر کے طور پر موجودہ حالات میں ان کی مشکلیں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔اطلاعات کے مطابق نیاز احمد خاں کا گذشتہ 13سال میں بیس مرتبہ تبادلہ ہوچکا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایماندار اور فرض شناس آفیسر ہیں ۔انہوں نے نوکر شاہی اور بد عنوانی پر اب تک دو کتابیں بھی لکھی ہیں ۔کہاجاتا ہے کہ وہ مدھیہ پردیش میں مسلسل اذیتوں کا سامنا اس لئے کرتے رہے ہیں کہ وہاں طویل عرصے سے بی جے پی کی سرکار تھی لیکن انہوںنے اپنا نام بدلنے کی اجازت کانگریس کے اقتدار میں طلب کی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیکولرزم کی دہائی دینے والی کانگریس کے دوراقتدارمیں بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے جو بی جے پی کے دور میں ہورہا تھا ۔یہ وہی مدھیہ پردیش ہے جہاں گذشتہ ہفتے گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں 25لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر سڑک پر کھینچا گیا اور ان سب کو مرغا بنا کر اذیتیں دی گئیں ۔اسی مدھیہ پردیش میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کی قیادت میں گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں پر این ایس اے کے تحت کارروائی عمل میں آئی تھی۔
مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ سیکولر پارٹیوں کے راج میں بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہے جو فرقہ پرستوں کے راج میں ہورہاتھا

 ۔سیکولر حکومتیں بھی مسلمانوں کو ہجومی تشدد سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کررہی ہیں ۔ہجومی تشدد کی سب سے پہلی واردات ستمبر 2015میں اترپردیش کے دادری علاقے میں اس وقت ہوئی تھی جب وہاں اکھلیش یادو کی قیادت والی سماج وادی پارٹی سرکار تھی ۔وہی اکھلیش یادو جنہوں نے عام انتخابات سے قبل مایاوتی سے کہاتھا کہ وہ زیادہ تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دیں کیونکہ ایسا کرنے سے پولرائیزیشن ہوجائے گا ۔آج اکھلیش یادو کی بد قسمتی یہ ہے کہ خود ان کی یادو برادری نے انہیں ٹھکرادیا ہے اورلوک سبھا کے لئے ان کے پانچوں ممبر ان مسلم ووٹوں کی بنیاد پر منتخب ہوئے ہیں جن میں تین مسلمان ہیں ۔ان حالات میں جب کہ سیکولر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ہجومی تشدد سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کررہی ہیں تو ساری ذمہ داری مسلمانوں اور ان کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم قیادت اس سلسلے میں کون سی حکمت عملی وضع کرتی ہے۔