Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 26, 2019

سوشل میڈیا پر ڈسکورس کے حوالے سے جاری بحث!!...............ایک زاویہ نگاہ یہ بھی۔!!!!


از قلم: ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی _ علی گڑھ :صداٸے وقت۔
=========================
تبدیلی قانون فطرت ہے، تاریخ شاہد ہے جو تبدیل نہ ہونے کی ضد کرتا ہے زمانہ اسے بالجبر تبدیل کر ڈالتا ہے ، ارباب مدارس تبدیلی کے لیے تیار نہیں،  خوف و تحفظات کی نفسیات ہمہ وقت انھیں دامن گیر رہتی ہیں،  مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ مدارس میں طلبہ کی اکثریت مارے باندھے بھولے بسرے آتی ہے، جب آتی ہے تو اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا مگر جب شعور کو پہنچتی ہے تو سمت سفر تبدیل کر لیتی ہے بلکہ آج فارغین مدارس کا کریم اپنی راہ تبدیل کرنے میں سب سے آگے ہے ، کیا یہ نمایاں تبدیلی نہیں؟ بزرگوں کی زبان میں اسے راندہ درگاہ ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر تاریخ اس پر ناکامی کا عنوان لگاتی ہے ، اس سے چشم پوشی اور راہ فرار سے ہزاروں نئے کورسز کو راہ ملے گی اور خوف و تحفظ کے سارے پٹارے کھولنے کے بعد بھی کوئی کسی کو روک نہیں سکے گا ۔ ارباب مدارس کی یہ روش انھیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی کہ اپنی محدود چہاردیواری اپنے کو سلطان کل سمجھتے ہیں ۔ اپنے علاوہ کسی کو اعتبارواحترام کی نگاہ سے کم ہی دیکھ پاتے ہیں ۔ خوف و تحفظ کی نفسیات ایسی غالب ہوتی ہیں کہ آج بھی بہت سے مدرسوں میں اخبار تک پڑھنے پر پابندی ہے۔ دیگر حلقوں اور مکاتب فکر کی تحریریں پڑھنا تو دور کی بات ۔ پھر بھی چاردیواری میں رہ کر یہی سمجھا جاتا ہے کہ خلافت عثمانیہ کی شوکت و 
سطوت ہنوز قائم ہے ۔ 

              واقعہ یہ ہیکہ اضطراری حالت میں تحفظ کی پالیسی اختیار کرنے کو قومی ترقی کا زینہ سمجھنا ہی سب سے بڑی بھول ہے۔ ڈسکورس ہو یا برج کورس یہ اس بات کی دلیل ہیکہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص اور زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نااہل ہے۔ آپ ایک برج کورس یا ڈسکورس کی مخالفت کریں گے دس نئے مارکیٹ میں ہوں گے ۔ کیوں کہ بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے فطرت تبدیلی کا تقاضا کر رہی ہے جسکو آپ خود پورا کریں تو فبہا ورنہ مارکیٹ میں موجود سامان کو استعمال کرنے سے آپ نہیں روک سکتے ۔ بغیر نعم البدل فراہم کیے صرف مخالفت کسی مسئلہ کا حل ہے ہی نہیں ۔ ضرورت کسی کورس کی مخالفت کی نہیں،  ضرورت اس پر غور کرنے کی ہے کہ آخر ہمارے لیے دوسروں کی طرف سے نئے نئے کورسز کیوں آ رہے ہیں ۔ ضرورت پروڈکٹ کے بائیکاٹ کی نہیں بلکہ اپنی کمپنی لانچ کر کے دوسروں کی کمپنی کو دیوالیہ کرنے کی ہے، اگر ڈسکورس دشمن کا حملہ ہے تو اس کا مقابلہ مدرسہ کا نظام اور محض مخالفت سے نہیں ہو گا، جس نوعیت کا حملہ ہو اسی نوعیت کی جوابی کارروائی اصل حکمت و دانشمندی ہے۔
              رہ گئی بات اصلاحات کی تو اس سے انکار نا معقولیت کے سوا کچھ نہیں ؟ مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اصلاحی پروگرام اور مصلحین کی بنیادیں کیا ہیں ۔ بہت سے کام بڑے نیک مقاصد اور نیک نیتی اور سنہرے عناوین سے معنون ہوتے ہیں مگر ذیل میں جو تباہ کاریاں پوشیدہ ہوتی ہیں جو مہلک نظریات پوشیدہ ہوتے ہیں ان کے اثرات سلو پوائزن کی طرح دیر میں نظر آتے ہیں ۔ اسکی آنکھوں دیکھی مثال برج کورس ہے۔ یہ کورس خود تو بہت اچھا تھا اور ہے اور اسکی ضرورت ہے مگر ایک شاذ کی سربراہی نے تنہا اس کورس سے جتنے متجددین و متشککین پیدا کر ڈالے وہ بذات خود ایک مسئلہ ہے ، کیا ارباب مدارس اپنے تحفظات اور اظہار تشویش سے اسکی مقبولیت کو روک سکے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر اس کا صحیح جواب اور صحیح حل نہ پیش کیا تو ساری تباہ کاریوں کی ذمہ داری آپ کی ہے ، کسی دشمن دین و ایماں کا کوئی قصور نہیں ۔
              سب سے اہم یہ ہیکہ دیکھنا ہو گا کہ ڈسکورسز کی بنیاد میں کون لوگ ہیں ۔ کس نظریہ پر مبنی ہے اور تار کہاں سے جڑے ہیں ۔اور پھر جب ہم خود اپنی اصلاح پر نہیں آمادہ ہوں گے تو دوسرے ہماری اصلاح کے لیے مسلط کیے جائیں گے ۔ اسکے ساتھ یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ فکری اختلافات اور فکری مذاکروں میں مخالفت برائے مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔
*طارق ایوبی ندوی*