Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 26, 2019

سدا رہے اس کا نام پیارا!!!!

از قلم/ عبداللہ زکریا اعظمی۔ ممبئی/صداٸے وقت۔
=========================
دلی ہمارا محبوب شہر ہے سب شہروں میں سب سے زیادہ محبوب۔ کہا جاتا ہے کی بچپن کی یادیں مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی یوم پیدائش سے جتنا دور اور اپنے یوم وفات سے جتنا قریب ہوتا جاتا ہے وہ آگے دیکھنے کے بجائے مڑ مڑ کر پیچھے دیکھنے لگتا ہے۔ دبی ہوئی تمنائیں چٹکیاں لینے لگتی ہیں اور یادوں کے اس غول بیابانی میں اسے وہ چیزیں بھی مزہ دینے لگتی ہیں جن سے بچپن میں نفور ہوا کرتا تھا۔
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو کبھی

لیکن ہمارا معاملہ قدرے مختلف ہے ہم نے جو وقت دلی میں بِتایا وہی حاصل زندگی ٹھہرا، منطقی طور پر جب جائزہ لیا تو اس کی دو وجہیں سمجھ میں آئیں۔ ایک تو ان دنوں ہم تازہ تازہ جوان ہوئے تھے اور جوانی میں بقول شخصے سب کچھ ہرا ہرا نظر آتا ہے، دوسرا یہ کہ مدرسہ کے دم گھونٹ دینے والے پاکیزہ اور گھٹے گھٹے ماحول سے جب ہم  نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کھلی کھلی فضاؤں میں اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنا حال ان دو مولویوں جیسا ہوگیا جو پہلی بار ساحل سمندر پر گھومنے گئے تو غسل آفتابی کا منظر اور حسن کے مشمولات کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد بڑا مولوی چھوٹے مولوی سے چلا کر بولا اپنی آنکھیں بند کرلو ورنہ 
اندھے ہو جاؤ گے۔

ہم نے اپنی طالب علمی کا سارا زمانہ ادھ کھلی آنکھوں سے گزارا۔ بعض بعض حسن ایسے پر کار دیکھے کہ اگر پلک بھی جھپک جائے تو حسن کی توہین ہو جاۓ۔
نظارے پے یہ جنبش مژگاں  بھی بار ہے

نئی دلی ریلوے اسٹیشن پر ایک بار ہم اور ہمارے ایک دوست نے ایک ایسی ہی حسین لڑکی دیکھی اس کی گود میں بمشکل ایک ماہ کا بچہ تھا اور وہ پسینے سے شرابور تھی خدا کی قسم  کسی کے رخسار پر پسینہ آج تک اتنا دلکش نہیں لگا۔ عرق انفعال اور عرق جبیں  کے بارے میں تو اردو شاعری میں بڑے پیارے پیارے اشعار ملتے ہیں رخساروں کو چومتے ہوئے یہ شبنمی قطرے آج بھی کسی شاعر کے پرواز تخیل کے منتظر ہیں۔
ہمارے یہ دوست آج کل دلی بلکہ ملک کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی میں اپنے شعبہ کے صدر ہیں، ان کی خواہش تھی جو کچھ لکھوں، سچ لکھوں اب دوست کی خواہش پوری نہ کروں تو دوستی چہ معنی دارد ۔ ہماری طرح وہ بھی مدرسے سے فارغ ہیں، وہ ہمارے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہونے کے علاوہ سارے گناہوں میں ہم شریک بھی ہیں۔ ویسے سچ کہیں تو نظر بازی کے علاوہ ہم کسی گناہ کا ارتکاب نہی کرسکے، دلی کی اسمارٹ لڑکیاں دو مولویوں کو کہاں منہ لگانے والیں۔
ان سطروں سے کوئی یہ نہ گمان کرلے کہ ہم نے طالب علمی کا یہ دور صرف آوارہ گردی میں گزارا۔ لذت شوق آوارگی اپنی جگہ اپنے بارے میں تو نہیں کہہ سکتے کہ کتنے کامیاب ہوئے ، پر جہاں ہیں مطمئن ہیں مگر حبیب لبیب آج جس مقام پر ہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے خون جگر جلانے اور دعائے نیم شبی کے علاوہ دن کے فارغ اوقات اور رات کی نیندیں بھی قربان کرنی پڑتی ہیں۔

اہل مدارس یا مدرسے کے فارغ ہو سکتا ہے ہمیں برا بھلا کہیں کہ ہم نے مدرسے کے ماحول کو گھٹن سے تعبیر کیا ہے۔ صاحبو جنہوں نے ہماری طرح سبع معلقات پڑھی ہے اور خاص طور پر امرألقیس کی شاعری وہ سمجھ جائیں گے کہ ہمارا اشارہ کس طرف ہے۔ اس عربی شاعری کے مقابلے میں تو اردو کی پوری عشقیہ شاعری نرسری Rhyme معلوم ہوتی ہے۔ فصاحت و بلاغت اپنی جگہ عربی کے مقدس سیاق و سباق اور مدرسے کے پاکیزہ ماحول میں تو یہ شاعری  فحش تر لگتی ہے پھر فقہ کی کتابوں میں بھی کچھ ناگفتنی مقامات آتے ہیں، ستم بالاۓ ستم یہ کہ طلبہ جس عمر میں یہ سب پڑھتے ہیں وہ وقت ہارمونز میں تبدیلی کے عمل کا ہوتا ہے۔ ایک طرف مدرسہ کی فضاء، دوسری جانب عنفوان شباب، اس کیفیت میں نیکی و تقویٰ اور جنسی رجحانات و میلانات کے درمیان جو کشمکش برپا ہوتی ہے اللہ کی پناہ۔ ہم دونوں بھی اس جنسی کشمکش کا شکار تھے۔

الحمدللہ اب ہم دونوں عمر کے اس مرحلے میں ہیں جس کا ذکر یوسفی نے اپنے ایک مضمون بائی فوکل کلب میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ ان کے خیال سے بائی فوکل عصمت نگاہ کا ضامن ہے کیونکہ اس سے نہ تو دور کا نظارہ ٹھیک سے کیا جاسکتا ہے اور نہ قریب کا۔  تاب ہوس نظارہ نہ رہے تو دل اللہ کا گھر بن جاتا ہے۔
دل میرا دل نہیں اللہ کا گھر لگتا ہے۔
پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے ہم بتا دیں کہ یہ عہد چالیس سال کے بعد کبھی بھی شروع ہو سکتا ہے لیکن اس سے ہماری عمروں کا اندازہ نہ لگایا جائے.

بات دلی کی ہورہی تھی، اور تان مدرسے پر ٹوٹی، ہمارا قلم بھی ہماری طرح بھٹکنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ دلی میں ہی پہلی بار نارتھ ایسٹ (شمال مشرقی) ریاستوں کے لوگوں سے تعارف ہوا، سیوَن سسٹر کہی جانے والی چھوٹی چھوٹی سات ریاستیں ہندوستان کا حصہ ہونے کے باوجود اس کا حصہ نہیں لگتی ہیں۔ اور ان لوگوں کو اپنے ہی ملک کی راجدھانی میں بارہا نسلی عصبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چپٹی ناک، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والے یہ گورے چٹے لوگ دلی میں "چِنکی" پکارے جاتے ہیں جو کی ایک اہانت آمیز لفظ ہے۔

اردو شاعری میں ہم نے کاکل و رخسار کے خوب تذکرے سنے ہیں،  زلف بنگال بھی دیکھی ہے لیکن خدا کی قسم جیسے چمکیلے سیدھے اور خوبصورت بال ان دوشیزاؤں کے ہوتے ہیں، کبھی نہیں دیکھے۔
یقین جانیں، راجاؤں مہاراجاؤں اور شہزادوں کے وقت میں یہ لوگ سب کی نظروں سے دور اپنی بستیوں میں رہتے تھے ورنہ ہماری دیومالائی داستانوں کا روایتی طوطا ان کے کاکل و رخسار کی ایسی تعریف کرتا کہ ان کو اپنے حرم میں داخل کرنے کے لیے یہ راجہ مہاراجہ اور شہزادے ان پر لشکر کشی کرنے سے بعض نہ آتے۔ ہمیں ایسی داستانوں میں طوطے پر غصہ نہیں آتا، بلکہ ان عقل کے کوروں پر آتا ہے کہ ایک پرندے کے جھوٹ سچ پر یہ لوگ ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے تھے۔ ہدہد نے تو حضرت سلیمان ع کو صرف ملکہ سبا کا احوال سنایا تھا ان طوطوں کی وجہ سے تو نہ جانے کتنی ہی فضول جنگیں لڑی گئیں۔
 
دلی میں ہی پہلی بار جانا کہ "بِہاری" گالی ہوتی ہے اب ایسی ایک گالی ممبئی میں ہم ہر روز "بھیا" کی شکل میں کھاتے رہتے ہیں اور بے مزہ بھی نہیں ہوتے۔
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
 
دلی یونیورسٹی کے بہت سارے کیمپس میں انگلش انگلش کا بول بالا ہے، وہاں یہ لوگ ہیریس کہلاتے تھے، اپنے مخصوص لہجے کی وجہ سے یہ لوگ ہر جگہ پہچانے جاتے اور مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ یوپی کے برعکس جہاں روٹی پر زیادہ زور ہے بہار کے لوگ چاول زیادہ کھاتے ہیں۔
ایس۔ آر۔ کے ہوسٹل جہاں ہم نے زندگی کے چھ سال گزارے، جمعہ کے دن لنچ میں صرف چاول ملتا تھا اور "بِہاری ڈے" کہلاتا تھا۔ اس بِہاری ڈش کا یہ کمال تھا کہ اس کے کھانے والوں کے بدن میں فوراً بستر استراحت پر جانے کا ایسا نشہ چھاتا کہ دوپہر سے عصر تک ہوسٹل کے کوریڈور اور کامن روم میں چڑیا کا بچہ تک نظر نہیں آتا،  سب لوگ کمروں میں لمبی تانے سو رہے ہوتے تھے۔
آرام بڑی چیز ہے منہ ڈکھ کر سوئیے۔
ہاسٹل میں جو وقت بیتا  وہی حاصلِ زندگی ٹھہرا پھر نہ وہ فراغت نصیب ہوئی اور نہ ہی بےوجہ خوش رہنے کا قرینہ یاد رہا۔ دھوئیں میں اڑاۓ بغیر ہر غم کو انگیز کرنے کا ہنر یہیں سیکھا۔ باہم متضاد شخصیتوں کے ساتھ نباہ کرنے کا سلیقہ پھر شخصیت کا حصہ بن گیا۔ ہمارے خیال میں اگر کسی نے ہوسٹل میں وقت نہیں بتایا تو اس کو زندگی کو جاننے اور برتنے کا گُر نہیں آئے گا، شخصیت میں ایک اکہرہ پن رہ جائے گا۔  بقول شخصے جنت تو مرنے کے بعد ملے گی، دنیا ہی میں جنت کا مزہ لوٹنا ہے تو ہاسٹل چلے جاؤ سو اس جنت کے مزے ہم نے بھی چھ سال لوٹے ہیں۔
دلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات بار اجڑی اور بسی لیکن ہمارے لئے جو دلی اجڑی ہے اب وہ شاید ہی بس پاۓ۔ دو سال سے اوپر کا عرصہ ہو گیا وہ شخص جس کے دم سے ہمارے لیے دلی میں ساری رونقیں تھیں اپنے رب سے جاملا ۔ راغب کے بغیر اب سب کچھ سونا سونا سا لگتا ہے، دلی کے آسمان پر اب بھی چاند نکلتا ہے، ہوائیں اب بھی عطر بیز ہیں، گلیوں اور سڑکوں پر اب بھی چہل پہل اور چیخ و پکار مچی رہتی ہے لیکن ہمارے دل کی کھیتی ہے کہ ہری نہیں ہوتی ہے ۔
دلی جاتا ہوں تو ہر گھڑی ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کوئی پوچھ نہ دے کہ میاں کیوں اکیلے گھوم رہے ہو وہ منچلا، دھومیں مچانے والا تمہارا ساتھی کہاں گیا۔
انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم  سفر کہاں ہے
اوکھلا سے گزرتا ہوں تو نگاہیں نیچے کیے رہتا ہوں کہ کہیں اس شہر خموشاں پر نظر نہ پڑ جائے جہاں ہمارا دوست ابدی نیند سو رہا ہے۔ مجھ بد نصیب میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ اپنے دوست کی تربت پر جاکر فاتحہ پڑھ سکوں۔
وہ ہجر کی رات کا ستارہ  وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ۔
نوٹ:  اس مضمون میں بعض جملے اور استعارے ہم نے یوسفی سے ادھار لیے ہیں، یوسفی ہمارے روحانی مرشد ہیں ان کی وراثت پر ہم اپنا پورا حق سمجھتے ہیں۔