Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 28, 2019

بے گناہ۔۔۔۔۔۔۔!!!!

١ز/محمد رضی الاسلام ندوی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[ گزشتہ دنوں ، راجستھان میں ایک کیس میں ماخوذ کچھ مسلم نوجوانوں کو 23 برس جیل میں قید رکھے جانے کے بعد ، بے قصور قرار دے کر رہا کردیا گیا _ یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنی ایک تحریر یاد آگئی ، جو میں نے 3 برس قبل اسی طرح کے ایک واقعہ سے متاثر ہوکر لکھی تھی _ مسلم نوجوانوں کے تعلق سے یہ واقعہ کئی بار دہرایا جا چکا ہے _ کیا 23 کے ہندسے کو مسلم نوجوانوں سے کوئی خاص مناسبت ہے؟؟! اپنی یہ تحریر میں نے جتنی بار بھی پڑھی ، اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کرسکا _ ایک بار پھر قارئین کی نذر _ ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
       رہائی پاکر میں جیل سے باہر آیا تو بڑے بھائی میرا انتظار کر رہے تھے _ انھوں نے بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا اور گاڑی میں بٹھایا _ گاڑی روانہ ہوئی اور میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا _
        گاؤں میں تعلیم کا بالکل ماحول نہ تھا _ بچے کم عمری ہی میں کمانے کے لئے گھر سے نکل جاتے تھے _ ابا کو تعلیم دلانے کا بہت شوق تھا _ انھوں نے ہم دونوں بھائیوں کا داخلہ قریب کے قصبہ میں قائم اسکول میں کرادیا تھا _ 

وہاں سے میں نے آٹھواں پاس کیا تو ابا نے میرا داخلہ شہر کے ایک اچھے اسکول میں کرادیا _ انٹر کے بعد ، بھائی کو انھوں نے اپنے ساتھ کام میں لگا لیا ، لیکن میری تعلیم جاری رہی _
       میں نے بی اے کر لیا تو اماں کو میری شادی کی فکر ہوئی _ میں مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا _ ابا بھی اسی کے حق میں تھے ، لیکن اماں کا اصرار غالب آیا اور رقیہ میری زندگی میں بہار بن کر آگئی _ گھر کے سب لوگ اس سے بہت خوش تھے _ ایک سال بعد اللہ نے ایک چاند سا بیٹا عطا کیا _
       میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی آگیا اور ایک مسلم محلے میں کرایہ پر ایک کمرہ لے کر رہنے لگا _ یہ وہ زمانہ تھا جب بابری مسجد کے انہدام کو ایک سال ہو گئے تھے _ ایک رات اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی _ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا _ دروازہ کھولا تو پولیس والے بندوق تانے کھڑے تھے _ انھوں نے مجھے اس طرح اُچک لیا جیسے چیل جھپٹا مار کر مرغی کے چوزے کو اچک لیتی ہے _
          مجھے بابری مسجد کے انہدام کی پہلی برسی کے موقع پر بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا _ میں نے لاکھ انکار کیا ، لیکن میری کچھ نہیں سنی گئی _ کچھ تھیلوں پر میرے فنگر پرنٹس لیے گئے اور چارج شیٹ میں دکھا دیا گیا کہ مجھے بھاری مقدار میں آر ڈی ایکس کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے _ مجھے شدید جسمانی اذیتیں دی گئیں اور جب تک میں نے اقبالیہ بیان پر دستخط نہیں کر دیے ، مجھے ان سے چھٹکارا نہیں ملا _
        ابا کو پتہ چلا تو انھوں نے مقدمہ لڑنے کا ارادہ کیا _ اوسط آمدنی کے ساتھ وہ وکیلوں کی بھاری فیس کیسے ادا کرتے؟ انھوں نے 5 بھیگے زمین فروخت کردی _ مجھ پر ٹاڈا کیس لگایا گیا تھا ، جس میں اقبالیہ بیان کو ثبوت سمجھا گیا ہے _ عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی _ اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا _ ہائی کورٹ نے سزا بحال رکھی تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا _
          ابا کے ہاتھ اب خالی ہوگئے تھے _ رشتے داروں نے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی _ 12 سال بیت گئے تھے _ ایک دن خبر ملی کہ ابا غم کی تاب نہ لا کر چل بسے _ اس دن میں خوب رویا تھا _ رہائی کی رہی سہی امید معدوم ہو گئی تھی _ مجھ کو یقین ہوگیا تھا کہ میں اب کبھی باہر کی کھلی ہوا میں سانس نہ لے سکوں گا _ پھر تو میں نے آنکھیں موند لیں اور پتہ ہی نہ چلا کہ مزید 11 سال کیسے بیت گئے؟ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ پھر کیا ہوا ؟ حالات نے کیسے پلٹا کھایا ؟ کس نے میرے مقدمے کی پیروی کی ؟ اور میرے اقبالیہ بیان کے باوجود کیسے عدالت پر میری بے گناہی واضح ہوگئی ؟ ایک دن اچانک مجھے جیل کے ساتھیوں نے بتایا کہ کل مجھے رہا کردیا جائے گا _
      گاڑی جھٹکے سے رکی تو میرے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا _ 5 گھنٹے کیسے بیت گئے ، مجھے پتہ ہی نہ چلا _ بھائی نے کہا : اترو ، گھر آگیا _ مجھے لگا ، یہ نہ میرا گاؤں ہے ، نہ میرا گھر _میرے سامنے اجنبی چہرے تھے _میں تو ان میں سے کسی کو نہیں پہچانتا تھا _ مجھے ایک چھوٹے سے کھپریل کے گھر میں لے جایا گیا _ میرا گھر تو بہت کشادہ تھا _ اس سے ملا ہوا ایک باغ تھا _اس کے سامنے ایک وسیع میدان تھا _ بھائی نے بتایا کہ ابا بہت مقروض ہوگئے تھے ، بہن کی شادی بھی کرنی تھی ، اس لیے انھوں نے باغ اور میدان بیچ دیا تھا _ ان کے انتقال کے بعد مزید تنگی آئی تو آدھا گھر بھی بیچنا پڑا تھا _
        میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا ، پورا گھر بھرا ہوا ہے _ سب کے چہرے خوشی و مسرت سے کھلے ہوئے ہیں ، لیکن میرا چہرہ کسی قسم کے تاثر سے خالی تھا _ ایک بوڑھی خاتون آکر مجھ سے لپٹ گئیں _ بھائی نے بتایا : یہ اماں ہیں _ مجھے یقین نہ آیا _ 23 سال میں تو میں ان کی صورت بھول چکا تھا _
       مجھے ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا _ بھائی سب لوگوں کا تعارف کرانے لگے :
       یہ لبنی ہے ، چھوٹی بہن ، اس کی شادی ابو نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کردی تھی ، یہ برابر میں اس کی بیٹی کھڑی ہے ، جو 12 سال کی ہوگئی ہے _
     یہ بھتیجی صالحہ ہے ، تمھارے جیل جانے کے وقت ایک سال کی تھی ، دو سال قبل اس کی شادی ہوگئی ہے _
      یہ پھوپھی زاد بہن طیبہ ہے _ تم سے دو سال چھوٹی تھی ، پچھلے سال یہ دادی بن چکی ہے _
      یہ تمھارا بیٹا ہے ، عبدل ، اس کی تعلیم بالکل نہیں ہو سکی ، اس لیے کہ ہم سب مصارف برداشت کرنے کی  پوزیشن میں نہیں تھے _
          پیچھے سے اماں ایک عورت کا ہاتھ پکڑے ہوئے لائیں اور میرے آگے کردیا _ یہ تمھاری بیوی رقیہ ہے _
     جی میں آیا کہ میں زور زور سے چیخ کر بتاؤں کہ نہیں ، یہ رقیہ نہیں ہو سکتی ، میں رقیہ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں ، اس کا چاند سا چہرہ اب بھی میری نگاہوں میں گھوم رہا ہے _ اس نے 23 برس قبل میرے دہلی کے لیے رخصت ہوتے وقت آنکھوں میں آنسو بھر کر پوچھا تھا : کب تک آئیں گے؟ اور میں نے جواب دیا تھا : 3 مہینے کی تو بات ہے ، عید میں تمھارے ہی ساتھ کروں گا _
       میں نے کچھ بولنا چاہا ، لیکن میری زبان گنگ ہوگئی _ سب خوشی کا اظہار کر رہے تھے ، لیکن میرے اوپر سکتہ طاری تھا ، کسی قسم کے تاثر سے عاری _ پورا گھر بھرا ہوا تھا ، لیکن میں ارد گرد سے بے خبر تھا _ لوگ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے ، لیکن مجھے ان کی آوازیں بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟
         میرا وجود ایک زندہ لاش بن چکا تھا اور بھلا لاش کہیں بولتی ہے ، کہیں بات چیت کرتی ہے ، کہیں سوالات کے جواب دیتی ہے _
         میں خود کو مجرم سمجھنے لگا _ اپنے ابا کا ، جنھیں میں آرام کیا پہنچاتا ، وہ مجھے رہائی دلانے کی فکر میں اللہ کو پیارے ہو گئے _ اپنی اماں کا ، جو میرے غم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھیں _ اپنے بچے کا ، جو اپنے باپ کے زندہ رہتے ہوئے بھی یتیم رہا _ میں نے سوچا تھا کہ جس طرح میرے ابا نے مجھے تعلیم دلائی ہے ، اسی طرح میں بھی اسے اعلی تعلیم دلاوں گا ، لیکن وہ جاہل رہ گیا _ اپنی بیوی کا ، جس نے سہاگن رہتے ہوئے بیوہ بن کر زندگی گزاری _
       میں نے سوچا : کاش میری بے گناہی ثابت نہ ہوئی ہوتی _  میں نے جیل کی چہاردیواری کے اندر ہی پوری عمر گزار دی ہوتی اور وہیں میری موت آجاتی _ نہ میں اپنے ان عزیزوں کو دیکھتا ، نہ یہ مجھے دیکھ پاتے _ یوں بھی میں ان کے لیے مر چکا تھا _ اب ان کے درمیان زندہ لاش بن کر جینے کا کیا فائدہ _
     عدالت نے مجھے بےگناہ قرار دے کر جیل سے رہائی دلائی ہے ، لیکن میں اقبالیہ مجرم ہوں ، میں گناہ گار ہوں اپنے ان عزیزوں کا _ کاش کوئی اس کی سزا میں مجھے پھر جیل کے اندر کروادے _
( محمد رضی الاسلام ندوی )