Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 1, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔۔25 ویں اور آخری قسط۔

*بریلی کے بازار میں*
25 ویں اور آخری قسط
✏ فضیل احمد ناصری/ صداٸے وقت۔
========================
*بریلی سے ہماری واپسی*
جس وقت یہ مضمون میں نے شروع کیا تھا، خیال یہی تھا کہ پانچ چھ قسطوں میں اسے مکمل کر دوں گا، لیکن متعلقہ مواد خود بہ خود اس طرح حاصل ہوتے چلے گئے کہ اس داستان کی درازی میری مجبوری بن گئی، پھر قارئین کا اصرار بھی اسے طول دینے کا تھا، اس لیے میں مسلسل لکھتا رہا۔ بہت سے، بلکہ کم و بیش ایک تہائی مواد قسطیں لکھنے کے بعد ملے، وہ بھی ایسی قسطیں لکھنے کے بعد، جو پہلے گزر چکی تھیں، لہذا ارادہ ہوا کہ انہیں کتاب مرتب کرتے وقت شامل کر لوں گا، تاکہ موضوع سے متعلق سیر حاصل معلومات یک جا فراہم ہو سکیں، امید ہے کہ قارئین کو اس مضمون کا مطبوعہ رخ زیادہ پسند آئے گا ۔
بات احسن رضا کے نکاح سے چلی تھی اور کہاں سے کہاں پہونچ گئی۔ خیر! اب شام کے چھ بج چکے تھے۔ میں ابھی تاریخی مقامات کی سیر میں ہی کھویا تھا کہ اچانک میرے ایک رفیقِ سفر کا فون آ گیا کہ جلدی تشریف لے آئیں، لڑکی کی رخصتی ہونے کو ہے۔ میں مولانا شکیل صاحب بریلوی قاسمی کے ہمراہ موٹر سائیکل سے دولہن کے گھر سے قریب روڈ پر کھڑا ہو گیا اور رخصتی کا انتظار کرنے لگا۔ چار پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ خواتین کے ہجوم میں دولہن آتی دکھائی دی۔ وہی رونا دھونا، جو ہر شادی کا لازمہ ہے۔ احسن رضا بھی خاص ترنگ میں چل رہے تھے ۔ کیوں نہ ہو،  آج تو انہیں کا دن تھا۔ دولہن کو گاڑی پر بٹھایا گیا ۔ ہم بھی بیٹھ گئے اور گاڑی دوڑ پڑی ۔
اللہ جانے کیا بات تھی۔ گرمی تو صبح سے ہی روح کا سکون چھین رہی تھی۔ جسم بری طرح جھلس رہا تھا۔ آج کا آفتاب اپنی آب و تاب کھو کر زرد پڑ چکا تھا۔ شام کا جھٹپٹا بھی پاس سے ہی جھانک رہا تھا، مگر گرمی تھی کہ اور جوان اور جوان ہوئی جا رہی تھی۔ بریلی سے ہم اس طرح روانہ ہوئے کہ پسینے میں نہا رہے تھے۔ گاڑی آدھے پون گھنٹے کے بعد ہمیں بریلی کی حدود سے باہر لے آئی۔
*دیوبندی کو چھبیس نمبر کیوں کہا جاتا ہے؟*
کم و بیش اٹھارہ گھنٹے دوڑنے کے بعد اب ہم احسن رضا کے گاؤں میں تھے۔ ایک دن کے بعد ولیمہ تھا۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے اس کے کئی ساتھی بھی آئے تھے۔ سب کی ٹوپیاں وہی برکاتی۔ جس کا آسمان کی طرف والا حصہ بھی اتنا ہی گہرا جتنا کہ سر سے لگا ہوا حصہ۔ میری عادت چھیڑ چھاڑ کی نہیں ہے۔ ہاں! کوئی چھیڑ دے اور خلافِ مصلحت نہ ہو تو نقدا نقد معاملہ کرتا ہوں۔ گاؤں کے امام صاحب نے اپنے ہم مذہبوں کو متوجہ کرتے ہوئے مجھے چھیڑا اور کہنے لگے: آپ دیوبندیوں کی ٹوپیاں ایسی کیوں ہوتی ہیں؟ جز و کل سب کے سب سر سے چپکے ہوئے؟ ہماری ٹوپیاں دیکھیے، تاج کی طرح کھڑی ہیں۔ میں نے کہا: مجھے بندوں سے کچھ نہیں لینا اور آپ کو لینا ہے، اس لیے آپ کی ٹوپیوں کا یہ عالم ہے۔ ایک گہرائی میں آپ سالن لے لیں گے اور دوسری گہرائی میں پلاؤ ۔ یہ سن کر ان ملّاؤں نے بڑے زور کا قہقہہ مارا اور کہنے لگے: دیوبندی تاویل میں پیچھے نہیں رہتے۔ مجلس جمی تھی۔ عوام بھی تھوڑے بہت تھے۔ امام صاحب اپنا علمی رعب جھاڑنے کے لیے کہا: حضورﷺ دنیا میں تشریف لاتے ہی سجدے میں گر پڑے۔ میں نے کہا: حوالہ دیجیے تو ان کی سٹی گم ہو گئی۔ عوام میں سے ایک بندے نے امام سے مطالبہ کیا کہ اتنی بڑی بات کہی ہے تو حوالہ بھی دیجیے۔ وہ سٹپٹا کر رہ گئے۔ حالانکہ عوام میں کوئی بھی دیوبندی نہیں تھا۔
امام صاحب نے کہا: آپ لوگ چوبیس نمبر ہیں، اس لیے مانتے نہیں۔ میں نے کہا کہ بھائی! مجھے چوبیس نمبر کہنے کی وجہ؟ نیز بتائیے کہ آپ خود کو چھبیس نمبر کیوں کہتے ہیں؟ اس سوال سے عوام پر سناٹا طاری ہو گیا۔ ایک صاحب نے بڑے ہی فاتحانہ انداز میں کہا: دیوبندی اپنے مرکز دیوبند کی طرف منسوب ہیں اور اس کا پن کوڈ 24 سے شروع ہوتا ہے، جب کہ بریلی کا پن کوڈ 26 سے شروع ہوتا ہے۔ یہ کہا اور داد طلب نظروں سے عوام کی طرف دیکھنے لگے ۔ میں نے کہا: جناب! دیوبند کی حد تک تو آپ کا دعویٰ درست ہو سکتا ہے، مگر بریلی کے حساب سے بالکل غلط ہے۔ کہنے لگے: کیسے؟ میں نے کہا: بریلی کا پن کوڈ 26 سے نہیں، 25 سے شروع ہوتا ہے۔ 26 نمبر تو گاڑیوں کے پلیٹ نمبر میں ہوتا ہے۔ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور حلق سوکھ کر کانٹا۔
اس طرح سفرِ بریلی کی روداد اپنے انجام کو پہونچی۔
.......................................

.............
نوٹ:: بریلی کے بازار کے عنوان کے تحت جو سفر نامہ شروع ہوا تھا وہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔۔سفرنامہ بہت خوب رہا ۔۔بہت پزیراٸی ہوٸی۔۔مبارکباد قبول کریں۔۔
صداٸے وقت نے سبھی قسطوں کو سلسلے وار شاٸع کیا ہے۔
مدیر۔۔۔صداٸے وقت۔