Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 9, 2019

مجدد تھانوی کے دیار میں..........5 ویں قسط

*مجدد تھانویؒ کے دیار میں*
قسط ⑸
✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت
=========================
*حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کا حجرہ*
حافظ ضامن شہیدؒ کے حجرے کے پاس ہی ٹھیک قبلے کی طرف سید الطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کا حجرہ واقع ہے۔ بالکل اسی سائز کا۔ دروازہ بھی اتنا ہی بڑا۔ اونچائی اتنی کہ مجھے داخل ہونے کے لیے اپنا سر جھکانا پڑا۔ اندرونی حصہ بھی قبر کے برابر۔ آدمی اس میں اچھی طرح لیٹ بھی نہیں سکتا۔
حجرہ دیکھا تو رواں رواں مست ہو گیا۔ حاجی صاحب کی محبت میرے دل میں کب سے ہے، میں کہہ نہیں سکتا۔ لاشعوری کے دور سے ہی ان کی محبت کا جوش اپنے دل میں پاتا ہوں، اور کیوں نہ ہو، یہ ہمارے پردادا حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ کے پیر و مرشد ہی نہیں، بلکہ محسن بھی تھے۔ دونوں میں تعلق اتنا مستحکم کہ شیخِ کامل نے انہیں اپنا معتمدِ خاص بنا لیا۔ ہجرت کر کے پیر و مرشد مہاجر مکیؒ ہو گئے تو یہ مریدِ باصفا بھی ان کے ساتھ راہئ مکہ ہو گیا اور لگاتار 9 برس ان کی خدمت میں گزارے۔ حضرت مہدی کی مدد کے لیے حاجی صاحب نے اپنی تلوار اپنے اسی مرید کے ہاتھوں بھجوائی۔ نہ صرف یہ کہ خلافت سے سرفراز کیا، بلکہ عمر بھر ایک دوسرے کے رابطے میں رہے۔ مرید نے اپنے وطن دربھنگہ میں مدرسہ قائم کیا تو اسی مرشد کے نام پر۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ قائم ہوا تو مولانا محمد علی مونگیریؒ صاحب کے سخت اصرار کے باوجود حضرت گنگوہیؒ نے کوئی تائید نہیں کی۔ کام سید الطائفہ کا یہی مرید اور خلیفہ آیا۔ مرید نے اپنے پیر کو خط لکھ لکھ کر ندوہ کا قائل کر لیا اور وہ بھی بذریعہ خط اس کی تائید کرنے لگے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے تاریخِ ندوہ۔
حجرہ دیکھنے میں تنگ و مختصر، مگر اسی تنگ خلوت خانے نے حاجی امداداللہ کو سید الطائفہ بنا دیا۔ حافظ ضامن شہید اور محدث تھانویؒ کی طرح یہ بھی اسی تھانہ بھون کے تھے۔ 1233ھ میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد حافظ محمد امین نے امداد حسین اور تاریخی نام ظفر احمد رکھا، جب کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے نواسے شاہ اسحاق محدث دہلویؒ نے امداداللہ نام زد کیا۔ آگے چل کر یہی نام مشہورِ عالَم ہوا۔ حاجی صاحب نسباً فاروقی تھے۔ (امداد المشتاق، ص 9 بحوالہ 
شمائمِ امدادیہ 6)۔

*حاجی صاحب کی والدہ کی عجیب وصیت*
حاجی امداداللہ صاحب کا علم اگرچہ گہرا اور پختہ تھا، کئی کتابیں ان کے قلم سے ہیں، مگر وہ کوئی نصابی عالم نہ تھے۔ ابھی یہ سات برس کے ہی تھے کہ ان کی والدہ بی بی حسینی قضا کر گئیں۔ موت کا وقت قریب آیا تو بطورِ خاص انہوں نے یہ وصیت کی:
*بعد میری وفات کے میرے اس تیسرے بچہ کو کسی وقت بھی کیا، بر وقتِ تعلیم کیا، کسی اور وقت اور کسی وجہ سے کبھی کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے اور زجر و ضرب نہ کرے*
والدہ کی ایسی تاکیدی وصیت کے بعد کسی کو جرات نہ ہوئی کہ انہیں مدرسے میں داخل کرے، کیوں کہ مدرسے کی زندگی میں کبھی نہ کبھی استاذ کی ڈانٹ پڑ ہی سکتی ہے اور مار کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑ سکتا ہے۔ مجدد تھانویؒ لکھتے ہیں:
*چناں چہ بعدِ انتقالِ والدہ ماجدہ حضرتِ ایشاں ان کی اس وصیت کی تعمیل میں یہاں تک مبالغہ کیا گیا کہ کسی کو آپ کی تعلیم کی طرف کچھ توجہ و التفات نہ ہوا* ۔ (امداد المشتاق، ص 11)
*حاجی صاحب کا شوقیہ اکتسابِ علم*
اہلِ خانہ نے اگر چہ انہیں تعلیم و مدرسہ سے دور رکھا، مگر جب بڑے ہوئے تو شوقِ علم نے انہیں اس قدر بے چین کیا کہ جب عمرِ مبارک 25 برس کی ہوئی تو حافظِ قرآن ہو چکے تھے۔ علومِ دینیہ کے لیے شیخ الکل مولانا مملوک علی نانوتویؒ کی معیت میں دہلی کا سفر کیا اور وہاں فارسی کی کتابوں کے ساتھ نحو و صرف کی کتابیں بھی اساتذۂ فن سے پڑھیں۔ مولانا رحمت اللہ تھانویؒ سے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی کتاب تکمیل الایمان پڑھی۔ خوش نویسی میر پنج کش سے سیکھی۔
تحصیلِ علم کا شوق اس درجہ ان پر مستولی رہا کہ کتابیں پڑھنے کے ساتھ ان کی حفاظت کا بھی حد درجہ اہتمام کرتے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کہتے ہیں:
*جناب مخدوم العالم حضرت حاجی امداداللہ صاحب سے جو ربط نسب کا تھا حضرت مخدوم کی نانیہال ہمارے خاندان میں تھی اور بہن ان کی یہیں بیاہی تھی۔ اکثر نانوتہ تشریف لاتے تھے ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نہایت محبت و اخلاص فرماتے ۔ جزو بندی کتاب کی حضرت سے ہم دونوں نے سیکھی اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کی جلدیں باندھیں* ۔ (ایضاً، ص 12)
*حاجی صاحب کا علم کس پائے کا تھا؟*
عام طور پر ہمارے حلقے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ حاجی صاحب کی تعلیم چوں کہ نصابی نہ تھی، اس لیے ان کا علم مضبوط کہاں ہوگا! حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا علم بڑا مستند اور مسلم تھا۔ عبارات کتنی ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، مغز تک پہونچ جاتے تھے۔ مجدد تھانویؒ لکھتے ہیں:
*ایک شخص نے راس الاذکیا مولوی محمد قاسم نانوتوی سے پوچھا کہ حضرت مخدومِ عالم حاجی امداداللہ صاحب عالِم بھی ہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ عالم ہونا کیا معنیٰ، اللہ نے ان کی ذاتِ پاک کو عالم گر بنایا ہے ۔ اور نیز رسالہ آبِ حیات میں لکھتے ہیں: میں جس وقت مکہ عظمہ میں زیارتِ حضرتِ ایشاں سے شرف اندوز ہوا، بوجہ تہی دستیِ دین و دنیا کچھ پیش کش نہ کر سکا بجز اس کے کہ ان ہی اوراقِ سیاہ مسودہ کو پیش کش کر کے رسمِ پیش کش بجا لایا۔ اور اس کے صلہ میں دعا ہائے جزیلہ فرمائیں اور تصحیحِ وجدانی و تحسینِ لسانی زیادہ دیا اور میری تسکین فرمائی کہ بسبب اپنی کم مائیگی و ہیچ مدانی کے اس تحریر کی صحت میں و تردد مجھ کو تھا، رفع ہو گیا۔ پھر اب اگر کوئی یہ سمجھے ضرور تھوڑا متعجب ہو کہ کجا تحقیق و تنقیحِ قاسمِ نادان، اور کجا یہ صحت و تصحیح، یہ تمام نور افشانی دولت اسی شمس العارفین کے ہے* ۔ (ایضاً، ص 15)
[اگلی قسط میں پڑھیں: حاجی صاحب کا تعلق میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ سے کیسے ہوا؟ ]