Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 31, 2019

کیا یہی ہے جنت نشاں ؟؟؟


- از/ضیاءالدین صدیقی، اورنگ آباد/صداٸے وقت۔
=========================
5 اگست 2019 جب سے ریاست جموں و کشمیر کا درجہ گھٹا کر یونین ٹریٹری کردیا گیا ہے اور 370کے ذریعہ ہی 370کو بے دخل کردیا گیا ہے۔تب سے جموں و کشمیر میں ٹیلیفون، موبائل، انٹرنیٹ، اسکول اور دفاتر سب بند کردیے گئے ہیں۔لاکھوں فوج کے ہوتے ہوئے مزید ایک دیڑھ لاکھ پیرا ملٹری جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ دفعہ 144 کو کرفیو جیسی صورت حال میں بد ل دیا گیا ہے۔ بڑی مساجد میں نمازوں کوروک دیا گیا ہے۔عید الاضحی پر پوری وادی جیل بنا دی گئی۔ بچوں کا دودھ، بیماروں کی دوائیاں،طلبہ وطالبات سے اسکول دور کردیا گیا ۔خوف کے سائے میں ایک کروڑ کی اۤبادی سانس لے رہی ہے۔ مین اسٹریم کے سیاسی قائدین کو جن میں فاروق عبد اللہ، عمر فاروق عبد اللہ، محبوبہ مفتی ودیگر سیکڑوں نیشنل کانگریس وPDP کے اراکین ہیں جنہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔

▪︎حکومت نے جس طرح ریاست کی حالت کردی ہے۔الجزیرہ و بی بی سی کی اِدھر اُدھر سے جو چیزیں عام ہورہی ہیں اس میں کم و بیش چھوٹے بڑے 500 سے زائد مظاہروں کی رپورٹنگ کی گئی ہے جس میں سیکڑوں افراد پیلٹ گن کا شکار ہو کر زخمی ہوگئے ہیں۔ غیر مصدقہ خبروں میں جان بحق بھی ہوئے ہیں۔
▪︎دنیا خاموش تماشائی کی طرح لمحہ لمحہ گزرتے ہوئے وقت کو تک رہی ہے۔ انسانی حقوق کے چیمپیئن سب کے سب لب بند کیے ہوئے ہیں۔راتوں کو گھر توڑ کر جوانوں کو حراست میں لیا جارہا ہے۔ نامعلوم مقامات پر رکھا جارہاہے۔ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے معلوم نہیں۔فون اور انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسپتال برابر کام نہیں کرپارہے ہیں۔ریاست کے گورنر مسٹر ملک نے اعلان کیا ہے کہ تین دنوں میں پچاس ہزار نوکریاں دی جائیں گی۔ مجھے معلوم نہیں۔ تین ہفتوں سے قفل بند کشمیریوں کو زندہ رہنے کا حق بھی دیا جارہا ہے کہ نہیں۔جب وہ زندہ نہ رہ پائیں گے تو کیا نوکریاں ان کے جنازے کو دینے کا پیکیج کا حکومت اعلان کررہی ہے۔ بنیادی حقوق جو سلب کرلیے گئے ہیں ۔ مارکیٹ بند ہیں۔سیب کے باغات لدے لدے خراب ہورہے ہیں۔ سیاحوں کا موسم جو ان کی کمائی کا وقت تھا فوج کی زیرحراست گذررہاہے۔ کس ترقی و Empowerment کی بات حکومت کررہی ہے ۔کشمیر جہاں صرف مسلمان نہیں، سکھ، قبائلی، بودھ، مسلم وہندو سب رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسلمانوں کو مصائب جھیلنے پڑرہے ہیں۔یہ جانبداری کیا دستوریت کا حصہ ہے؟ جسے نئے حالات میں اختیار کیا جارہاہے۔کیا یہی وہ طریقے ہے جس سے سب کاوشواس حاصل کیاجارہا ہے۔
▪︎بین الاقوامی کمیونٹی خاموش ہے۔ادھر ملکی سطح پر ملی و مذہبی جماعتوں کے ایک اجتماع نے اکھٹا ہوکر 370کی پامالی کو غیر اۤئینی بتلایا اور حالات کو درست کرنے کی گہار لگائی۔کیا بھارت میں مسلمان قائدین کا کوئی وفد جو نمائندہ ہو،مل کر وادی کا دورہ نہیں کرسکتا؟ جب یچوری کو اپنے کارکن سے ملنے کی اجازت مل سکتی ہے، عدالت والدین کو اپنے بچوں سے ملوارہی ہے تو کیا مسلمان اپنے بھائیوں سے نہیں مل سکتے۔ کشمیر کے ان بھائیوں سے جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور کچھ تعداد سکھوں،پنڈتوں اور قبائلیوں کی بھی ہے۔ہم دوسری ریاستوں میں Releaf لے جاتے ہیں لیکن کم و بیش ایک مہینے سے کرفیو زدہ علاقہ کے بچوں وبیماروں اور بھوکے لوگوں تک ہم پہنچ نہیں پارہے ہیں۔
▪︎ایک خوف جس میں کشمیر جی رہا ہے اور ایک خوف جس میں ہم جی رہے ہیں۔دونوں خوف کی نوعتیں الگ الگ ہیں لیکن انجام شاید ایک ہی ہوسکتا ہے۔یہ مختصر تحریر اگر قائدین امت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے،بچوں،بیماروں اور بھوکوں کی اۤہ وبکا کو ہمارے کان سن سکتے ہوں تو حال واحوال ہی معلوم کرلیں۔چلیں کل جماعتی نمائندہ وفد تشکیل دیں ان تمام انسانوں سے ملیں جو کشمیری کہلاتے ہیں۔ جو بھوک، بیماری اور کرفیو کے عذاب کا شکار ہیں۔یک لخت جنکی قوت مدافعت چھین لی گئی ہے۔ سانسوں پر اۤہنی پہرے لگا دیے گئے ۔حکومت کو جو کرنا تھا کردیالیکن حکومت کے فیصلہ پر ریاست کی رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔کہا جاتا ہے سب ٹھیک ہے۔الجزیر ہ اور بی بی سی کی چیدہ چیدہ خبریں اس کی تردید کرتی ہیں اور کہتی ہیں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اۤہنی پہروں کے اندر سسکتی ہوئی روحیں، حسین وادی میں خزاں زدہ نظر اۤتی ہیں۔کوئی تو ہو جو من کی اۤنکھ سے انہیں دیکھ سکے۔ جب کہ تن کی اۤنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔لوگ من کی بات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اس کی اۤواز پر کان نہیں دھرتے۔ شاید تن کے کان وہی سننے کے عادی ہوجاتے ہیں جو تن کی اۤواز ہوتی ہے۔لوگ اسے کیوں من کی با ت کہتے ہیں مجھے پتہ نہیں۔جو من کی بات سنتے ہیں انہیں وادی جاکر اپنے جیسے انسانوں کو حیوانوں کی طرح کونڈواڑوں میں بندھک بنا کر رکھنے والے مناظر ہر طرف نظر اۤئیں گے۔ہاں کہیں چلتے چلتے بریانی پلیٹ اٹھاکر کھاتے کچھ انسان بھی نظر اۤئیں گے۔لیکن ان کے علاوہ کھڑکیوں سے جھانکتی سرخ و سوجی ہوئی اۤنکھیں،بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کی اۤوازیں اور مردوں کی زخموں سے کراہتی ہوئی دھیمی دھیمی سرگوشیاں کیا یہی ہے وہ جنت نشاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمایوں وبابر کی شاعری کا عنوان اور بنیادی حقوق انسانی کا قبرستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہی ہے وہ جنت نشان۔ شایدمجھے معلوم نہیں!