Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 31, 2019

مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات۔۔۔۔۔۔گفتگو بند نہ ہو۔۔۔۔۔۔جمود ٹوٹا ہے۔!!!!


از/شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
=========================
اور ایک ایسے وقت میں جمود ٹوٹا ہے جب اس کا تصو رتک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بھلا ایک ایسے دور میں جب اس ملک پر ہندوتوادیوں نے ایک طرح سے تسلط پالیا ہے اور ملک بڑی تیزی  کے ساتھ ’ ہندوراشٹر‘ کے قیام کی سمت بڑھ رہا ہے کوئی کیسے یہ سوچ سکتا تھا کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیدّارشد مدنی میں ملاقات ہوگی اور دونوں ہی اس بات پر متفق بھی ہوں گے کہ’ ’ ہندومسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر ہندوستان بڑی طاقت نہیں بن سکتا !‘‘

بات جمعہ ۳۰؍ اگست کی ہے جب مولانا سید ارشد مدنی نے دہلی میں آر ایس ایس کے دفتر واقع کیشوگنج جاکر موہن بھاگوت سے ملاقات کی ۔ اطلاعات  ہیں کہ اس ملاقات کی منصوبہ بندی عرصے سے کی جارہی تھی اور بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام لال دونوں کے درمیان ملاقات کے لئے عرصے سے کوشاں تھے۔۔۔۔
آر ایس ایس کے دفتر میں  ملاقات کے دوران جہاں دونوں رہنماؤں نے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا وہیں ’ ماب لنچنگ‘ اور ’ این آرسی‘ اور دیگر امور پر بھی بات چیت کی ۔ اس طرح وہ امور جو متنازعہ تھے ان پر مذاکرات کا ایک دروازہ کھل گیا ہے اور مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچنے کی کلید ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی اس ملاقات پر بعض حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھائی جائیں ، بالخصوص مسلم حلقوں کی طرف سے کہ وہ انگلیاں اٹھانے میں پیش پیش رہتے  ہیں یا اگر یہ کہا جائے کہ ان کے پاس انگلیاں اٹھانے ، لوگوں کی غلطیاں پکڑنے اور لوگوں کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تو زیادہ درست ہوگا ۔ مثلاً ایک عالم دین ہیں مولانا ساجد رشیدی ، ٹھیک ٹھاک  آدمی ہیں ، ٹی وی مباحثوں میں خوب سرگرم رہتے ہیں،مولانا ارشد مدنی اور مون بھاگوت کی ملاقات  پر ان کا ردّعمل یوں ہے: ’’۔۔۔ یہ خودسپردگی ہے جس کے مستقبل میں نتائج اچھے نہیں ہونگے ۔‘‘ انہیں یہ پریشانی ہے کہ اس ملاقات پر موہن بھاگوت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔۔ ساجد رشیدی کا کہنا ہے :’’آج جو کچھ ہورہا ہے مسلم نوجوانوں کے ساتھ وہ آر ایس ایس کرارہی ہے اور ہم ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہماری بات مان کر امن کے لئے کام کریں گے اور مسلمان کو اس کا آئینی حق دینے کی وکالت کریں گے ، یہ خام خیالی ہے جس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر ہو اس سے خیر کی توقع؟‘‘۔۔۔
اور لوگ بھی ہیں جو اسی طرح کے اعتراضات کررہے ہیں ، پر’مخالفین‘ سے اور ’ دشمنوں‘ سے اختلاقات کے خاتمے کے لئے بات چیت اور مذاکرات کے سوا اور کیا راستہ ہے ؟ یاسر ندیم الواجدی نے بالکل درست کہا ہیکہ’’ یقیناً کچھ لوگ اس ملاقات  کو بھی اسی طرح متنازعہ بناکر پیش کریں گے ، جیسے چند ہفتوں پہلے اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا اورآج بھی  موقف کو دہراتے ہیں کہ آر ایس ایس کے نظریات اسلام ومسلم مخالف ہیں ، لیکن مذاکرات مخالفین سے ہی کئے جاتے ہیں ، ہم خیال لوگوں سے مذاکرات یا مفاہمت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔‘‘
اور آج کے دنوں میں جبکہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں اس طرح کی ’ بات چیت‘ یا ’مذاکرات‘ کا عمل انتہائی ضروری بھی ہے ۔ اور اگر اس ملاقات کے تعلق سے مولانا ارشد مدنی کے بیان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ملاقات ’خودسپردگی‘ ہے  اور نہ ہی اس ملاقات کے ’’ مستقبل میں نتائج خراب ہونگے ‘‘۔ آئیے مولانا ارشد مدنی کے بیان پر ایک نظر ڈال لیں۔ ’’جب آر ایس ایس نے ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے نرمی کا مظاہر ہ کیا اور یہ پیغام ہم تک پہنچایا کہ ملک کی بقاء ہندو مسلم ایکتا میں مضمر ہے تو مجھے خوشی ہوئی ، جمعیۃ علماء روز اول سے آج تک جو تحریک لے کر چلی تھی اس میں کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ آر ایس ایس نے اپنے پیغام میں یہ کہا کہ ہندوستان کی بقا ہندو مسلم ایکتا میں ہے ، آر ایس ایس نے کہا کہ ہندو مسلم ایکتا اسی وقت ممکن ہے جب جمعیۃ علماء ہند آگے آئے لہٰذا اس دعوت پر ہم نے غور کیا ، اپنے لوگوں میں مشورہ کیا ، اس کے بعد اپنی روایت کے مطابق ہم انہیں اپنے یہاں مدعو کرتے ،  ہم خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے ان کے دفتر گئے ۔ ‘‘
مولانا ارشد مدنی کے مذکورہ بیان سے یہ واضح ہوتا ہیکہ آر ایس ایس نے جمعیۃ علماء ہند کی سرگرمیوں کو دیکھا اور پرکھا ہے اور اسے یہ خوب پتہ ہے کہ جمعیۃ ملک سے محبت اور ہندو مسلم ایکتا میں یقین رکھنے والی جماعت ہے ، لہٰذا اس نے مولانا کو ’ دعوت‘ دی اور  مولانا نے ’ دعوت‘ پانے کے بعد لوگوں سے ’ مشورہ ‘ کیا اور جب انہیں لگا کہ موہن بھاگوت سے ملاقات ہندو ،مسلم ہم آہنگی کے لئے ہی نہیں ملک کے مفادات کے لئے بھی بہتر ثابت ہوگی تو انہوں نے خود ایک قدم آگے بڑھ کر موہن بھاگوت کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ یہ کسی طور پر نہ ’ خودسپردگی‘ ہے اور نہ ہی یہ مفروضہ درست ہیکہ مستقبل میں اس ’ملاقات‘ کے نتائج اچھے نہیں ہونگے ۔
ملک کے موجودہ حالات پر اگر نظر ڈالیں تو مولانا  ارشد مدنی کی تشویش بھی بجا ہے اور  موہن بھاگو ت کی بھی۔ ملک میں نفرت کی جو فضا ہے وہ شاید ۱۹۴۷ء میں بھی نہیں تھی۔ آئے دنوں کسی نہ کسی بہانے سے عام مسلمان فرقہ پرستوں کے ہاتھ ’ ہجومی تشدد‘ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔  مسلمانوں کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا بھی دشوار ہوگیا ہے ۔  سوشل میڈیا کے غازیان ’ جہاد‘ اور ’ ہجومی تشدد کا جواب ہجومی تشدد‘ کا نعرہ لگاتے تو ضرور ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو دم دباکر بیٹھ رہتے ہیں  ۔یہ  سچ ہے کہ اس ملک میں سب کو ’ دفاع‘ کا حق ہے لیکن جب کوئی شخص نہتا کہیں گھیر لیا جاتا ہے یا جب کوئی شخص ، اپنی بیوی ، بچوں کے ساتھ لوگوں کے گھیرے میں آجاتا ہے تو اسے بھلائی اسی میں نظر آتی  ہے کہ پٹ پٹاکر اور گالیاں کھاکر کسی طرح بچ نکلے ۔  لیکن ان وارداتوں نے ایک طرح سے ملک میں ایسی کشیدگی پیدا کردی ہے کہ مسلم نوجوان پر تشدد ردّعمل پر مجبور ہوسکتے ہیں ، اور یہ ردّعمل ملک کے حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے ۔۔۔ شاید اس کا اندازہ خود آر ایس ایس کو ہے کہ وہ جو ایک ’ جن بوتل  سے آزاد کیا گیا تھا ‘ وہ اب بے قابو ہوچکا ہے ، اور اتنا بے قابو کہ یہ ملک کو لے ڈوبے گا ۔ مولانا سید ارشد مدنی کا یہ ابتداء ہی سے کہنا ہے ’’ آگ سے آگ کو نہیں بجھایا جاسکتا ، کانٹے کی جگہ کانٹے نہیں بچھائے جاسکتے ہیں ، ہمیں پیارومحبت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ‘‘ مسئلہ کشمیر نے بھی ملک کے حالات کو ابتر کردیا ہے ،  حالانکہ یہ انسانی مسئلہ ہے ’ فرقہ وارانہ مسئلہ‘ قطعی نہیں ہے لیکن اسے یہی رنگ دیا جارہا ہے ، بالخصوص پاکستان کی طرف سے ، اب تو پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دے دی ہے ، جنگ دونوں ملکوں کے لئے ہی نہیں پورے خطے کے لئے ، جس میں کئی ممالک آتے ہیں ، تباہ کن ثابت ہوگی ۔  پورے ملک کے لئے ’ جنگ‘ تشویش کی بات ہے ، مولانا ارشد مدنی کے لئے  بھی اور موہن بھاگوت کے لئے بھی ،  دونوں کو خوب پتہ ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں شرپسند عناصر کامیاب رہے تو ملک کو تباہی سے بچانا مشکل ہوجائے گا ۔
مولانا سید ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات ایک ’ انسانی مسئلے‘ کو ’ فرقہ وارانہ مسئلے‘ میں ڈھلنے سے روک سکتی ہے ۔ ۔۔ ملک کے معاشی حالات بے حد ابتر ہیں ، بے روزگاری کا گراف آسمان پر چڑھتا جارہا ہے ، مودی سرکار نے آر بی آئی سے پیسے لئے ہیں ، بینکوں کا انضمام جاری ہے ، مہنگائی ریکارڈ توڑ ہے ، معاشی ابتری آر ایس ایس کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہے ، بہت ممکن ہے  کہ اسے یہ احساس ہورہا ہو کہ مودی سرکار نے ملک کو اقتصادی اور معاشی بدحالی کی ایسی کگار پر پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن تو نہیں پر بے حد دشوار ہے اور اگر ملک کے حالات ایسےہی رہے تو شاید ناممکن بھی ۔۔۔۔ ا س لئے ممکن ہے کہ انہوں نے ملک کے حالات کو بدلنے کے لئے مولانا سید ارشد مدنی کی طرف واقعی خلوص کے ساتھ محبت کا ہاتھ بڑھایا ہو۔۔۔ اس ’ ملاقات‘ کی پذیرائی ضروری ہے ۔ یہ ابتداء ہے ، موہن بھاگوت کے بعدوزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی ملاقاتیں ضروری ہیں ۔ماضی میں بھی اس طرح کی ملاقاتیں  ہوتی رہی ہیں ۔ ماضی میں جمعیۃ  کے قائد مولانا محمود مدنی اور آر ایس ایس سربراہ  سدرشن میں ملاقات  ہوئی تھی ، علمائے کرام کے کئی وفود وزیراعظم نریندر مودی سے مل چکے ہیں ۔ ملکوں کے معاملات مذاکرات  ہی سے  سلجھتے  ہیں ۔ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ مخالفین سے مذاکرات کرتے تھے ۔ مذاکرات اور ملاقاتوں سے سخت  سے سخت مخالفین کے دل بھی پگھل سکتے ہیں ۔۔۔لہٰذا بات جاری رہے ۔
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے