Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 2, 2019

اسلام اور امن عالم۔!!!


از/شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت۔
========================
         انسان ایک بہتے دریا کی مانند ہے، جو اپنے سفر کے لئے راستہ چاہتا ہے'،سنگلاخ وادیوں میں وہ سرکش موجوں کی صورت اختیار کرلیتا ہے،بےتاب رہتاہے،اس کی لہریں اچھلتی ہیں'،کودتی ہیں'،بے قراری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
         مگر جب اسے ہموار سطح ملتی ہے'،راستے کھلے ہوتے ہیں تو موجیں ساکن ہوجاتی ہیں۔لہریں 
خاموش ہو جاتی ہیں۔
مضمون نگار

         انسانی زندگی بھی سکون واطمینان کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی ہے،اس سفر میں راستوں کی ہموارگی، رکاوٹ ڈالنے والی چٹانوں کی عدم موجودگی، منزلوں پر پہونچنے کی آسانیاں، اور سکون اطمینان کے ساتھ زندگی کی تعمیر کی آزادیاں امن کہلاتی ہیں'۔
         معاشرے کی ترقی کے لئے،اس کی فلاح کے لئے، زندگی کے انفرادی و اجتماعی سفر کے لئے امن ایسے ہی ضروری اور لازم ہے جیسے زندگی کی بقا کے لئے پانی اور ہوا۔ انسان کی فطرت میں امن ہے'جو ملکوتی صفت ہے اور زندگی کے افق پر ہمدردی،رحمدلی ،غمگساری،اخوت،محبت، شفقت ورحمت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔اس کے برعکس خود غرضی،مفادپرستی ،زرپرستی،اناپرستی،کی شکل میں جو عناصر جنم لیتے ہیں وہ فطرت کے خلاف ہیں'اؤر حیوانیت وشیطانیت کی مکروہ وتباہ کن صورتیں ہیں جو فرد کی زندگی سے لیکر معاشرے اور ملک کی تباہیوں کا باعث ہوتی ہیں، جس معاشرے میں یہ عناصر جڑ پکڑ لیتے ہیں بربادیاں اس کا مقدر ہوجاتی ہیں،بے چینیاں اس کا حصہ ہوجاتی ہیں، دیمک کی طرح نہیں بلکہ آگ کے شعلوں کی طرح فتنے اور فساد انسانیت کے گلشنوں کو جلا کر خاکستر کرڈالتے ہیں'،انسان اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا ہے'،اس کی زندگی کا مقصود اپنی ذات کی عیاشیوں اور مخصوص مفادات کے دائرے میں محصور ہو کر رہ جاتا ہے،
وہ دنیا میں صرف اپنے حقوق کی شناخت اور پہچان میں مست رہتا ہے، اس کے لئے وہ ہر جائز اؤر ناجائز شکلوں کو اختیار کرتا ہے'،وہ ظلم کرتاہے،فساد کرتا ہے،
تشدد پر آمادہ ہوتاہے،دوسروں کے حقوق سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، کائینات کے تمام وسائل پر تنہا اپنا حق سمجھتا ہے،اس کے حصول کے لیے وہ دوسرے ممالک پر حملہ آور ہوتاہے،آگ وخون کا ماحول پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کے قتل سے بھی اس کامردہ و کمزور ضمیر روک نہیں پاتا۔
نتیجتاً معاشرہ، قبیلہ، قوم ،ملک لامتناہی جنگوں کے لامحدود صحرا میں سرگرداں تباہیوں کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔
اسلام امن کی وہی آواز ہے'جو انسانیت کا پتہ بتاتی ہے'،
انسانیت کی تعمیر کا جذبہ فراہم کرتی ہے'،معاشرے کو اوج ثریا پر لے جانے والے راز کھولتی ہے'۔
یہ فطرت سے ہم آہنگ ہے، بلکہ فطرت ہی کا دوسرا نام اسلام ہے'،جس کی بنیادوں میں امن وسلامتی کی اینٹیں نصب ہیں'،اور اسی بنیاد پر اس کی عمارت کھڑی ہے'، اسی عمارت میں انسانیت کی پرورش ہوئی ہے،اسی میں اس کی نشوونما ہوئی ہے،

اسی میں گمراہ ، زخم زخم  ،اور صدیوں کی ستائی ہوئی مظلوم انسانیت نے حقیقی زندگی پائی، اسے اس کا واقعی درجہ ملا، حقوق ملے،احترام ملا،عزتوں کے تاج سے سرفراز ہوئی، ارتقاء آشنا ہوئی،اور رفعتوں کے عروج پر پہونچی۔۔۔۔۔۔یہ عہد تھا چھٹی صدی عیسوی کا۔جب ہر طرف شیطانیت رقص کررہی تھی، حیوانیت ننگا ناچ کھیل رہی تھی، ظلم وسفاکیت کی ہر سو حکمرانی تھی،
انسانیت سر بازار رسوا تھی۔ کرہ ارض پر پھیلی ہوئی بربریت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں کہیں نام کو بھی آدمیت کی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
دفعتاً فاران کی چوٹیوں سے آفتاب رسالت طلوع ہوا،اور تیئیس سال کی مختصر مدت میں پورا جزیرہ العرب ہی نہیں بلکہ عجم کے بہت علاقے بھی اس کی روشنی میں نہاگئے۔ سفاک ذہنیت رحمدل ہو گئی۔۔ نفرتوں کے سوداگر محبتوں کی آواز بن گئے۔حیوانیت کا رقص کرنے والے انسانیت کے ترجمان بن گئے۔۔۔دشمنیاں دوستی اور اخوت میں بدل گئیں۔
بات بات خون خرابہ کرنے والے جنگجو امن کے پیامبر بن کر سارے عالم پر چھا گئے۔
یہ نتیجہ تھا اسلام کی فطرت کا۔اس کی آفاقیت کا اور اس کی عالم گیریت کا اور اس کی انسانیت نوازی وانسانیت سازی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے مؤرخ نے جب جب بھی انصاف کی نظر سے اسلام کو دیکھا ہے'۔اس کی گہرائیوں میں اترا ہے'۔
اس کے دل نے بے ساختہ گواہی دی ہے کہ امن کی تعلیم،امن کی ترویج،امن کی اشاعت،اور اس کی پرورش کے حوالے سے اسلام جس مقام پر ہے'دنیا کے کسی بھی مذہب کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے'۔اور سچی بات یہ ہے کہ دوسرے ادیان و مذاھب اسلام کی گرد کو بھی نہیں پہونچے ہیں۔۔
محسن کائنات فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات اقدس سراپا ساری انسانیت کے لیے رحمت ومحبت تھی۔اس کی شہادت جہاں آپ کے کرداروں نے دی ہے وہیں خداوند عالم کی کتاب قرآن کریم نے بھی،،  وما ارسلناک الا رحمت اللعالمین،،  کی صورت میں دی ہے'۔
اسلام کے نزدیک انسانیت کے رتبے کا اندازہ اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے جو قران مجید میں مذکور ہے'۔
من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ط ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا
(مائدہ آیت نمبر 32)
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی،،  دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کا بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقا وتحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے'وہ صرف ایک ہی فرد پرظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی نوع کے جذبے سے خالی ہے'لہذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے'کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے (تفہیم القرآن سورہ مائدہ ماتحت آیت مذکور)
یہ تصور کہ پوری انسانیت وہ مسلم ہو کہ غیر مسلم پروردگار عالم کا خاندان ہے'صرف اسلام ہی کا امتیاز ہے'،
سرور عالم کا ارشاد ہے،،الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من أحسن الی عیالہ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ وخاندان ہے' سو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ شخص ہے'جو اس کے عیال یعنی اس کے بندوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہے'،،
بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک رحمدلی کی اسپرٹ پیدا کرنے والی اس سے زبردست کیا تعلیم ہو سکتی ہے کہ رحم کرنے والے خداوند عالم کی توجہ کے حصار میں رہتے ہیں۔
ارشاد نبوی ہے،،الراحمون یرحمہم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء(ابوداؤد ترمذی)
لوگوں پر رحم کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ بہت بڑی رحمت نازل فرمائے گا تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا،،
قولی اور حکمی تعلیم و تلقین کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی امن وسلامتی کا اعلیٰ معیار بلند پیمانہ اور بے نظیر اسوہ ہے'
آپ نے ایک خدا کی طرف دعوت کے نتیجے میں مکہ میں تیرہ سال تک مسلسل مصائب کے طوفانوں کا سامنا کیا، جگر خراش مظالم جھیلے،
دشمنان اسلام کی بربریت وسفاکیت کو برداشت کیا۔
مگر کسی بھی مرحلے میں آپ نے جوابی کارروائی اور انتقام کا ارادہ نہیں کیا۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں بھی کفار مکہ کی غیر انسانی کارستانیاں جاری رہیں۔اور اب یہود ومنافقین کی سازشیں بھی ان کی ہمنوا ہوگئیں۔ مگر اس کے باوجود بھی آپ نے اقدامی کارروائی نہیں کی۔
  ہجرت کے کئی سال بعد چودہ سو اصحاب کے ساتھ آپ نے عمرہ کے لئے مکہ کا سفر کیا کفار نے آپ کو عبادت کی اجازت نہیں دی، مکہ کی آبادی سے باہر دو ہفتے تک گفت و شنید ہوتی رہی،اہل مکہ آپ کی کسی بات کو ماننے کے لیے راضی نہیں ہوئے،آپ نے جب دیکھا کہ یہ انسانی اور اخلاقی حوالے سے امن کی کسی بات کو تسلیم پر راضی نہیں اور اپنے غیر انصاف روئے پر اڑے ہیں'یہاں تک کہ یہ شرط بھی انہوں نے رکھی کہ مکہ سے کوئی شخص حالت اسلام میں مدینہ جائے گا تو اہل مدینہ اس کی واپسی پر پابند ہوں گے لیکن اس کے برخلاف مدینہ سے آنے والے کسی فرد کو اہل مکہ واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے یہ شرط صراحتاً جنگ کی دعوت دے رہی تھی مگر آپ نے حدیبیہ کے مقام پرامن کے لیے فریق مخالف کی تمام یکطرفہ اور کڑی شرطوں کو منظور کرکے صلح کا راستہ اختیار کیا اور امن کے مشن کی توسیع کے لیے جنگ کا دروازہ سرے سے بند کردیا۔
  دس ہجری میں آپ نے مجبور ہو کر مکہ کو فتح کیا مگر اس طرح کہ ایک قطرہ خون زمین پر نہیں بہا اور خاموشی سے مکہ میں داخل ہوئے یہ وقت پچھلی تمام سفاکیت کے انتقام کا تھا مگر آپ نے شفقت ومحبت اور عفو درگذر کا اعلان کر کے امن وسلامتی کا وہ پیغام دیا کہ آسمان کی نگاہوں نے روئے زمین کے سینے انسانیت نوازی کا یہ جاں نواز منظر نہ اس سے قبل دیکھا تھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گا۔
  آپ نے اپنے جاں نواز کرداروں سے،بے لوث محبت کی سوغاتوں سے، رحمدلی وغمگساری میں ڈوبی ہوئی توجہات سے، اور شفقت وایثار کی خوشگوار بارشوں سے وحشیانہ ماحول میں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دی کہ اس کا ایک اک عضو امن وسلامتی کا پیامبر بن گیا،اور امن کا یہی پیغام لیکر اس چشمہ انسانیت سے نہریں رواں ہوئیں اور جہاں جہاں سے گذریں اس خطے کو شاداب کرتی چلی گئیں۔
یہ امن ہی کی طاقت تھی اسلام نصف صدی کے عرصے میں دنیا کے کونے کونے میں پہونچ گیا۔
اس کی فتوحات اگر ہواؤں کی طرح تھیں تو اس کی روشنی بادلوں کی طرح پیاسی انسانیت کے قلوب پر برس کر انہیں زندگی عطا کرگئی۔
باطل ہمیشہ روشنی کے خلاف صف آرا ہوتا رہا ہے یہ عناد ومخالفت روز اول سے تھی اور قیامت تک رہے گی۔پہلے بھی اسلامی چراغوں کو گل کرنے کی سعی نامسعود
جاری تھی آج بھی پوری قوت سے مصروف عمل ہے۔اور مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ اسلام جنگ کا مذہب ہے یہ تشدد سکھاتا ہے،انتہا پسندی کی تعلیم دیتاہے۔
ایک ایسا انسان جس کے دل میں ذرا سی انصاف کی رمق ہے'وہ ان پروپیگنڈوں کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا۔
وطن پرستی جب حدوں کی انتہا پر ہوتی ہے،عصیبتوں کے عفریت جب طاقتور ہوجاتے ہیں، مادیت جب خدا کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو تاریکی اور اجالے برابر ہوجاتے ہیں، حق اور باطل کی تمیز اٹھ جاتی ہے،
پھر محض خود غرضیوں کی حکمرانی ہوتی ہے،کذب وافتر کا راج ہوتاہے،نفس کی حکومت ہوتی ہے'،انا پرستی کا ماحول ہوتاہے،۔
اس وقت اسلام کو انہیں صورت حال کا سامنا ہے'۔ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ فلسطین میں مسلمانوں نے قدم رکھا تو وحشیانہ ماحول میں امن کی ہوائیں چلنے لگیں،عیسائیوں کے جسم پر ایک خراش تک نہیں آئی اور وقت کا خلیفہ فاروق اعظم عام انسانوں کی طرح امن کے محافظ اور انسانیت کے مسیحا بن کر بن کر وہاں داخل ہوئے۔۔
لیکن جب عیسائیوں نے اس پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کی لاشوں اور ان کے خون سے وہاں سر زمین لالہ زار ہو گئی۔۔۔اسپین میں مسلمان فاتحانہ داخل ہوئے تو تمام باشندوں کو تحفظ فراہم ہوا اور اسی امن و  انصاف اور رواداری سے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی،یہیں سے یورپ کو علم کی روشنی ملی، ترقی ملی،تعگیمی درسگاہوں کا تصور ملا،لیکن جب وہ سازشوں کی بدولت اس ملک پر قابض ہوئے تو ظلم وتشدد کا وہ کھیل کھیلا کہ کروڑوں مسلمانوں کو بیک وقت آگ وخون کے حوالے کردیا،اسلام کے تمام نشانات کو مٹا ڈالے، مسجدوں کو کلیساؤں میں تبدیل کردیا۔اسپین میں عیسائی تشدد اور مذہبی تعصب کے زیرِ اثر ظلم وسفاکیت کی سیاہ تاریخ کی یہ وہ جھلک ہے'جس کی تفصیل سے دل کی دنیا لرز جاتی ہے'۔خلافت عثمانیہ ترکی کی فاتحانہ تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائی کلیساؤں کی حکومت میں عوام پر جارحیت اور سفاکیت اس انتہائی پر تھی کہ دوسری قوموں کا کیا ذکر خود عیسائی اقوام پر ظلم وبربریت عروج پر تھی صورت حال کی اس سنگینی نے اور یورپی ممالک کی خانہ جنگیوں نے سلاطین عثمانیہ کو ان علاقوں میں حملے کی دعوت دی،عثمانی سلاطین نے مولڈیویا،ولاچیا،بلغاریا، ہنگری، کریمیا (موجودہ یوکرین  رشیا) تھریس، سرویا،یونان اور دوسرے ممالک میں فتح کا پرچم لہرایا لیکن ان مفتوحہ علاقوں میں اس قدر رواداری اور اس قدر عدل وانصاف کا معاملہ کیا کہ رعایا نے اہل کلیسا کی بغاوت کےمختلف مواقع پر عثمانی حکومت کو ترجیح دی،،یورپین سیاحوں کا بیان ہے'کہ یونانیوں کی مذہبی آزادی پر آئرلینڈ کے کیتھولک رشگ کرتے تھے اور بلدی معاملات میں انہیں اس سے زیادہ اختیارات حاصل تھے جتنے فرانس کے باشندوں کو اپنے علاقے میں،یورپ کی کسی قوم پر محصول کا بار اتنا ہلکا نہ تھا جتنا یونانیوں پر،اور نہ کسی قوم پر شخصی حیثیت سے اس قدر کم پابندیاں عائد تھیں ،روس پولینڈ اور ہنگری کے عیسائی کاشتکاروں کی بہ نسبت سلطنت عثمانیہ میں عیسائی کاشتکاروں کو کو اپنی محنت کا پھل زیادہ ملتا تھا،یونانی شہری کو تقریر کی آزادی اس سے زیادہ حاصل تھی جتنی شہنشاہ نپولین اول کے عہد میں سلطنت فرانس کے شہریوں کو حاصل تھی (تاریخ دولتِ عثمانیہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ ص19)
لیکن وقت کی یہ کیسی روش ہے'کہ آج وہی یورپین عیسائی قوم جس نے انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ملک اٹلی میں جب سازشی چالوں سے طاقت ور ہوئی تو عثمانی سلطنت کی تمام رواداریوں کو بھول گئی،اور اپنی سرزمینوں پر موجود مسلمانوں کی تمام آبادیوں کو معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں بوڑھوں سمیت تہ تیغ کرڈالا،رشیا نے مسلم اکثریت والے صوبوں کریمیا، سمرقند،بخاراپر آتش وآہن کی بارش کرکے قیامت برپا کردی اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا، باوجود اس کے وہ  اسلام اور مسلمانوں کو انتہا پسند امن مخالف اور خود کو امن کا علمبردار کہتی ہے جس نے  محض شبہ کی بنیاد پر علمی و اخلاقی ترقی کے دور میں بھی مختلف ممالک کی سلطنتوں کو زیر وزبر کر ڈالا،کروڑوں انسانوں سے زندگیاں چھین لیں، آبادیوں کی آبادیاں ویران کرڈالیں،سرسبز وشاداب خطوں اور علاقوں کو شعلوں میں جھونک دیا۔
اور یہ سلسلہ اس عہد میں بھی پوری قوت سے جاری ہے۔کہ امن کی آڑ میں آبادیوں کی آبادیاں لمحوں میں ختم کردی جاتی ہیں ملک تباہ کردیئے جاتے ہیں۔اور پھر ان مظالم اور دہرے وسفاکیت اعمال کے نتیجے میں امن وسلامتی کی تلاش میں کانفرنسوں کے کاغذی و بے روح اور رسمی سلسلے شروع کئے جاتے ہیں۔اور میڈیا کے ذریعے انسانیت نوازی کا ڈھونگ رچا کر پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے عصبیت اور فرقہ پرستی کی چنگاریاں  ملک ہندوستان کے دامن پر بھی آزادی کے بعدپڑ گئیں 'اور انتہا پسند فرقوں کی ناپاک کوششوں کے نتیجے میں اس قدر طاقتور ہوئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک اس کے خوفناک شعلوں کی زد میں آگیا،قوموں کا اتحاد پارہ پارہ ہو کر رہ گیا،چین و سکون غارت ہوگیا،امن کی فاختائیں کہیں دور ہجرت کر گئیں،حکومت کے دہرے معیار نے اقلیتوں کی زندگیوں میں اضطراب اور خوف و ہراس پیدا کردیا،فسادات کے سلسلے تھمے تو منصوبہ بند پلاننگ کے تحت بے قصور نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہوگئیں،بے شمار خاندان لٹ گئے،مابلینچینگ کے ذریعے سینکڑوں افراد کو بے رحمی سے اذیت دے کر انہیں موت کی نیند سلا دینے کا عمل ہنوز تیزی سے جاری ہے،
امن وامان کی فضاؤں کو تباہ وبرباد کرنے والے ان سیاہ کرداروں پر بجائے اس کے کہ اصحاب اقتدار قدغن لگا کر،قانون بنا کر امن کا ماحول فراہم کرتے ملک کی بڑی اقلیت مسلمانوں کے عائلی قوانین پر حملہ کرکے اسلام کے تئیں تنگ نظری اور عصبیت ظاہر کردی،اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے تحفظ کے نام پر طلاق کے انتہائی نامعقول اور غیر فطری قانون کو پاس کرکے ملک کی فضا میں بے اطمینانی اور اضطراب کا زہر گھول دیا،
ذہن وفکر جب تعصب کے حصار میں داخل ہوجاتی ہیں،آنکھوں پر جب نظریاتی بالادستی اور فرقہ پرستی کا پردہ پڑ جاتا ہے تو روشنی اور تاریکیاں برابر ہوجاتی ہیں ورنہ کسے نہیں معلوم کہ دنیا کے تمام انصاف پسند ممالک آئینی لحاظ سے وہ جمہوری ہوں ملوکیت کے حامل، عقیدے سے متعلق ہر فرد کو اس میں آزادی حاصل ہوتی ہے ان کے پرسنل لا میں مداخلت جہاں ظلم کے مترادف ہے وہیں ملک کی سالمیت اورسماجی نقض امن کے علاوہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے،یہ تصور کہ اسلامی دستور اور اسلامی تعلیمات استحکام امن کے حوالے سے صحت مند نہیں ہیں' تنگ نظری اور بے جا تعصب کا نتیجہ ہے کہ اس کی پر امن حقوق انسانی سے انسانیت کو آشنا کرنے والی تعلیمات آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہیں،دنیا نے صدیوں تک اس کے سائے میں ترقی کی راہیں طے کی ہیں اور آئندہ بھی انہیں قوانین کی روشنی میں امن و سلامتی کی راہیں ہموار کرسکتی ہے۔
حاصل یہ کہ دنیا میں امن و عافیت ،چین وسکون، کا ماحول اسلامی تعلیمات کے بغیر صحرا سراب کی طرف بھاگنے والے عمل سے زیادہ مختلف نہیں ہے،
یہ کرنیں اسلام کے آفتاب سے ہی نکلی ہیں اور اسی کے دامن سے وابستہ ہو کر حاصل ہوسکتی ہیں،جب تک دنیا اس آفاقی اصول سے بے گانہ رہے گی کرہ ارض پر امن وسلامتی کا سورج طلوع نہیں ہوسکتا۔۔۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی