Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, August 2, 2019

زاٸرہ وسیم کے خلاف قلمی جہاد ۔۔


از شاہنواز فاروقی-/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند ماہ پیشتر بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو ’’قانونی‘‘ قرار دیا تو ہم اس مسئلے پر کالم تحریر کرنے بیٹھ گئے۔ اچانک خیال آیا کہ سیکولر اور لبرل لوگ صرف بھارت ہی میں آباد نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ان کی کمی نہیں۔ چناں چہ ممکن ہے دو تین دن میں پاکستان کا کوئی اخبار ہم جنس پرستی کے دفاع کی جرأت کر ڈالے۔ بدقسمتی سے ہمارا خیال درست ثابت ہوا۔ روزنامہ ڈان کراچی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد ایک پورے صفحے کا مضمون شائع کیا۔ مضمون ریما عمر نے تحریر کیا تھا۔ مضمون میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعریف کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ علاقے کے دوسرے ممالک کی اعلیٰ عدالتوں کو بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی پیروی کرنی چاہیے۔
بھارتی اداکارہ زائرہ وسیم نے یہ کہہ کر اداکاری چھوڑنے کا اعلان کیا کہ اس پیشے سے ان کا خدا سے تعلق متاثر ہورہا ہے اور ان کی زندگی سے برکت ختم ہوگئی ہے۔ تو ہمارا خیال تھا کہ اس فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی اخبار ضرور آگے آئے گا۔ بدقسمتی سے ہمارا یہ خیال بھی غلط ثابت نہ ہوسکا۔ روزنامہ جنگ کراچی میں عصمت علی کامران نے نصف صفحے پر چار اداکاروں اور دو اداکارائوں کے انٹرویوز شائع کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ زائرہ وسیم اپنے فیصلے میں کتنی تنہا اور کتنی غلط ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے جو فیصلہ کیا پاکستان کے چھ اہم اداکاروں کو اس کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔
اداکارہ سنگیتا نے کہا کہ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں کسی غلط فیلڈ میں آگئی ہوں بلکہ مجھے تو آج بھی لگتا ہے کہ میں بنی ہی شوبز انڈسٹری کے لیے ہوں۔ مجھے اپنے کام سے عشق ہے، چاہے وہ اداکاری ہو یا ہدایت کاری۔ اداکار تنویر جمال نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اداکاری کے میدان میں کامیابیاں عطا کیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی ایسی سوچ نہیں آئی کہ میں نے شوبز کی دنیا میں آکر یا اداکاری کو پیشے کے طور پر اپنا کر غلط کیا۔ اداکار عدنان صدیقی نے کہا کہ میرا اداکاری کا فیصلہ درست ہے۔ میں نے خلوص کے ساتھ اس پیشے کو اپنایا ہے اور اس بات پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اداکار اسد ملک نے بتایا کہ وہ اسلامک اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں لیکن انہیں فنِ اداکاری اختیار کرنے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اداکارہ لیلیٰ نے کہا کہ میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ سوچا ہو کہ میں نے شوبز کی فیلڈ کو اپنا کر غلط کیا۔ میں اپنا پروفیشن کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ اداکار یاسر حسین نے کہا کہ جب اداکاری کے شعبے میں آپ کی پہچان بن جاتی ہے تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 
غلط جگہ آگئے۔

زائرہ وسیم ایک اداکارہ کی حیثیت سے زیرو واٹ کا بلب تھیں مگر ان کے اعلان نے اچانک زیرو واٹ کے بلب کو پانچ ہزار واٹ کا بلب بنادیا۔ پانچ ہزار واٹ کے بلب کی روشنی نے بہت سی آنکھوں کو چندھیا دیا ہے۔ جنگ میں چھ پاکستانی اداکاروں کے انٹرویو شائع کرنے والے عصمت علی کامران بھی زائرہ وسیم کے اعلان کی روشنی میں چندھیا گئے ہیں۔ انہیں نظر ہی نہیں آیا کہ اٹھارہ سال کی اس لڑکی نے وہ بات کہی ہے جو بڑی بڑی مذہبی شخصیتوں کو نہیں سوجھتی۔ ہماری دنیا میں کتنے لوگ ہیں جن کو یہ خیال آتا ہو کہ ان کے کسی قول، فعل یا ان کے پیشے سے خدا کے ساتھ ان کا تعلق متاثر ہورہا ہے۔ بڑے بڑے علما حکمرانوں کے آگے سجدہ ریز ہو کر وہ فیصلے کررہے ہوتے ہیں جو اسلام کی روح کے منافی ہوتے ہیں، مگر حکمرانوں کے مفاد میں ہوتے ہیں، مگر ان علما کو کبھی خیال نہیں آتا کہ دین کی روح کو فروخت کرنے سے ان کا خدا سے تعلق بدل گیا ہے۔ لاکھوں لوگ سودی کاروبار سے منسلک ہیں اور قرآن سود کو اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے، مگر سود کھانے اور کھلانے والوں میں سے کسی کو خیال نہیں آتا کہ ان کے فعل پر ان کا خدا ان سے ناراض ہورہا ہے۔ کتنے لکھنے والے ہیں جو اپنا ضمیر فروخت کرتے ہیں، مگر انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کی ضمیر فروشی سے خدا کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت بدل کر رہ گئی ہے۔ کتنے لوگ ہیں شراب اور چرس پیتے ہیں مگر انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ ایسا کرکے اپنے خدا سے دور ہورہے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو رشوت لیتے ہیں مگر انہیں اپنے اس عمل پر کبھی کوئی روحانی اضطراب لاحق نہیں ہوتا۔ کتنے لوگ ہیں جو غیبت کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں آتا کہ انہوں نے اپنے اور خدا کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرلی ہے۔ کتنے سیاست دان ہیں جو دھوکے کا کاروبار کرتے ہیں مگر انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو سبوتاژ کررہے ہیں۔ مگر بھارت کی ایک اداکارہ کو شہرت اور سرمائے کے مرکز میں کھڑے ہو کر یہ خیال آیا کہ اس کے پیشے سے اس کا تعلق بااللہ متاثر ہورہا ہے اور اس کی زندگی سے برکت اُٹھ گئی ہے۔ برکت تو ہزاروں لاکھوں مذہبی لوگوں کی زندگی سے اُٹھی ہوئی ہے مگر کسی کو اس برکت کے اُٹھنے کا خیال ہے نہ ملال۔ لیکن زائرہ وسیم کو اس بات کا خیال بھی ہے اور ملال بھی۔ چناں چہ اسی خیال اور ملال کے تحت انہوں نے فن اداکاری کو خیر باد کہہ دیا۔
ہمارے ملک میں جمہوریت موجود ہو یا نہ ہو مگر ایک بھونڈا جمہوری مزاج ضرور موجود ہے۔ اس بھونڈے جمہوری مزاج کی بدصورتی کو ظاہر کرنے کے لیے اقبال نے کہا تھا۔
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس بات کا مطلب یہ ہے کہ دو لاکھ احمق ایک بات کررہے ہوں اور امام غزالی کچھ اور فرمارہے ہوں تو جمہوری طرزِ فکر سے متاثر لوگ کہیں گے تعداد کو دیکھو معیار کو نہ دیکھو۔ دو لاکھ لوگوں کی بات سنو غزالی کو بھول جائو۔ اس بات کا زیر بحث مسئلے سے یہ تعلق ہے کہ عصمت علی کامران نے ایک اداکارہ کو چھ اداکاروں کے ذریعے شکست دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے لیے یہ بات اہم ہی نہیں کہ زائرہ وسیم ایک بہت بڑی مذہبی دلیل لے کر کھڑی ہیں۔ ان کے لیے اہم ہے تو یہ کہ زائرہ وسیم جو کچھ کررہی ہیں چھ اداکار اس کی تردید کررہے ہیں۔ یہ جمہوری طرزِ فکری کی کئی لعنتوں میں سے ایک لعنت ہے۔
اس لعنت کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مغربی معاشروں میں جب تک ہم جنس پرست سیکڑوں یا ہزاروں میں تھے تو ان کی بات کوئی نہیں سنتا تھا مگر اب امریکا اور یورپ میں ہم جنس پرست کروڑوں میں ہیں چناں چہ وہاں ان کی تعداد بجائے خود ایک دلیل بن گئی ہے اور اب مغرب میں ہم جنس پرستوں کو نہ کوئی بُرا کہتا ہے نہ کہہ سکتا ہے۔ بلکہ اب مغرب کی ہر سیاسی جماعت میں ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہاں تک عیسائیت نے بھی ہم جنس پرستی کو گلے لگالیا ہے اور اب مغربی ممالک کے چرچوں میں ہم جنس پرست Pastors یا مذہبی رہنما موجود ہیں۔
روزنامہ جنگ نے جن چھ اداکاروں کے انٹرویو شائع کیے ہیں وہ سب مسلمان ہیں اور ان میں سے دو تین نے اپنی گفتگو میں خدا کا ذِکر بھی کیا ہے مگر زائرہ وسیم اور ان اداکاروں کے خدا میں ایک فرق ہے۔ زائرہ وسیم کے خدا نے زائرہ وسیم سے اس کا پیشہ چھڑا دیا۔ اسے بے پناہ شہرت سے دور کردیا۔ اس پر دولت کے دروازے بند کردیے مگر چھ اداکاروں کے خدا نے ان کو کبھی یہ سوچنے پر مائل یا مجبور نہیں کیا کہ وہ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا غلط؟ اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ کس کی زندگی میں خدا ’’موثر‘‘ ہے اور کس کی زندگی میں خدا موثر نہیں ہے۔ غور کیا جائے تو ہم میں سے اکثر لوگوں کو ایسا ہی خدا درکار ہے جو ہماری زندگی میں انقلاب برپا نہ کرے بلکہ ہم جو زندگی بسر کررہے ہیں وہ اس کو اسی طرح جاری رہنے دے۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان اور زرداری اینڈ کمپنی ملک کو لوٹ کر کھا گئے مگر انہیں کبھی خیال نہ آیا کہ اس لوٹ مار سے ان کے اور خدا کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ گمان ہے کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری لوٹ مار بھی کرتے ہوں گے تو بسم اللہ پڑھ کر۔ آپ دیکھ رہے ہیں ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے اربوں روپے کی جائدادوں پر قبضہ کیا ہے، وہ اس جرم کی پاداش میں 400 ارب سے زیادہ حکومت کو دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں مگر اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک ریاض کی تعمیر کی ہوئی مسجد میں امام کعبہ نے آکر جمعہ پڑھایا۔
جاوید چودھری اپنے ایک کالم میں فرما چکے ہیں کہ بیشک ملک ریاض نے لوٹ مار بھی کی ہے مگر یہ بھی تو دیکھو اس کے ذریعے کتنے فلاحی کام ہورہے ہیں اور کتنے لوگوں کو روزگار مہیا ہورہا ہے۔ ملک ریاض ہوں یا جاوید چودھری ان کا خدا انہیں غلط کاری اور غلط کاری کی حمایت سے نہیں روکتا بلکہ ان لوگوں کا تصور خدا یہ ہے کہ مسجد تعمیر کرنے اور کچھ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے سے ہر گناہ کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو زائرہ وسیم کا اعلان ایک بہت بڑا اور اہم واقعہ نظر آتا ہے۔ بلاشبہ بھارتی اداکار عامر خان سمیت کئی لوگ زائرہ وسیم کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کررہے ہیں۔ ممکن ہے وہ اس میں کامیاب بھی ہوجائیں مگر زائرہ وسیم کا اعلان ثابت کرچکا کہ ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم چیز خدا کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ یہ تعلق خراب ہوجائے تو زندگی، زندگی نہیں رہتی۔