Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 28, 2019

مسلمانوں کی زبوں حالی کے ذمےدار ۔۔۔۔علمإ یا جدید تعلیم یافتہ دانشوران۔؟؟


از/مولانا محمد برہان الدین قاسمی.
(انگریزی سے ترجمہ:مفتی محمد راشد قاسمی)..........صداٸے وقت۔
=========================
عموماً ہم یہ  توقع کرتے  ہیں  کہ  تمام تر مذہبی، تعلیمی اور سماجی خدمات علماء  کرام کے ذریعہ ہی انجام پائیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کو نا اہل سمجھنا ، ان کی حمایت اور تائید  کرنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنانا بھی  ہمارا شیوہ بن چکا ہے ۔ کیا یہ اپنے آپ میں متضاد فکر نہیں ہے؟ کیا اس طرح  کی تضاد بیانی  اور منفی سوچ  ہمارے اندر نہیں پائی جاتی ہے؟ذیل کی سطروں میں موجودہ چیلنجز اور اپنی کار کردگی پر غور فرمائیں:

(1) 29 جولائی 2019 کو ہندو سینا کے ایک شخص نے وزیر داخلہ کو ایک مراسلہ  بھیجا  جس میں اس نے ہندوستان کے تحفظ کولاحق خطرہ کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن کریم پر پوری طرح  سےپابندی لگانے کا مطالبہ کیا---سوال یہ ہے کہ علماء کو معتوب قرار دینے والے لوگوں نے اس کے جواب میں کیا کیا؟
(2)  اعظم خان کی متنازع شخصیت  ایک طرف، ہم ان سے اتفاق  کریں یا نہ کریں  اسکی حمایت کریں یا نہ کریں لیکن   ایسے وقت میں جب کہ جوہر یو نیور سیٹی کے وجود پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے جو کہ  ایک تعلیمی  ادارہ  اور  ہندوستان کا قیمتی اثاثہ ہے---تو کیا اس کے لئے جدید تعلیم یافتہ حضرات کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے؟
(3) آسام این آرسی ، طلاق بل، آر ٹی آئی بل، یو اے پی اے ترمیم بل، شہریت ترمیم بل، ، ہندوستان کی جدید تعلیمی حکمت عملی اور اس جیسے دسیوںسنگین مسائل درپیش ہیں---ِان مسائل کے حل کے لئے علماء کو لعن طعن کرنے والے افراد نے کیا اقدامات کئے ہیں؟
افسوس صد افسوس "ایک ہاتھ میں سائنس اور دوسرے ہاتھ میں قرآن" اور اس جیسےدیگر عظیم مقاصد اور جذ بے کے تحت مسلمانوں کی قائم کردہ  یونیور سیٹوں کے فضلاءایسے نازک حالات میں  بھی اپنی حصے داری نبھاتے نظر نہیں آتے ہیں؛جب کہ قوم نے ان کو وہ سب دیا ہے جن سے وہ مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی طور پر صحیح رہنمائی کرسکتے تھے ؛لیکن ہائے افسوس!
وائے ناکامی ! متاع کارواں جاتا رہا    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے با وجوداُن میں سے کچھ ناعاقبت اندیش لو گوں کا یہ  الزام ہے کہ کچھ ملا لوگ ان کی راہ میں حائل ہیں اور وہ انہیں میدان عمل میں اترنے نہیں دیتے۔
حالات کی سنگینی تو یہ ہےکہ لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ایذا، گائے کے نام پر پر ماب لنچنگ اور اب جے شری رام کے نام پر ظلم و بربریت کے واقعات  کی وجہ سے عام مسلمان جہاں ایک طرف حواس باختہ ہیں  تو وہیں  دوسری طرف نوجوان طبقہ نفسیاتی طور پر خوف و ہراس اور عدم اعتماد  کا شکار ہے ۔ بات یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ اب کچھ مسلمان  اپنی شناخت  ہی چھپا رہے ہیں اور قسمت کا رونا رورہے ہیں۔
کیا ایسے نازک حالات میں  جدید علوم و فنون سے آراستہ  حضرات کو میدان عمل میں  نہیں آنا چاہئے؟ کیا  ان  تشویشناک حالات پر قابو پانے کی ضرورت نہیں ہے؟   کیا انفرادی طور پر جدید تعلیم یافتگان نے اس سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر قدم اٹھایا ہے؟ کیا ہی بہتر ہوتا علما کو کوسنے میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے؛  یہ حضرات اپنی بساط بھر  کوئی   کا ر خیر ہی انجام دے لیتے!
شکوہ ظلمت شب سے تو یہی بہتر تھا       اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس وقت آسام ، بہار، مغربی بنگال اور مہاراشٹرا  سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف علماء کرام کی سربراہی میں چلنے والی تنظیمیں ہی ریلیف اور فلاحی کاموںپر مامور ہیں؟ کیا حوادث زمانہ سے دوچاراور   غربت زدہ لوگوں  کی امداد کرنا  سب کی ذمہ داری نہیں ہے؟
طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہو جانے  کےبعد  حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ہندوستانی آئین کی دفعہ14 اور 15 کے تحت  اب  جنسی انصاف و مساوات  کی بنیاد پر تعدد ازدواج اورمسلم وراثت  جیسے مسائل  آج  نہیں تو کل سپریم کورٹ میں ضرور لائے جائیں گے۔  کیا ان مقدمات کی پیروی کرنا صرف علماء کی ذمہ  داری ہے؟ کیا  علماءکرام   کو ہی تنِ تنہا تمام مسائل سے نبرد آزما ہونا چاہئے اور کیا ان میں اِن تمام کاموں کی صلاحیت بھی ہے؟
اہم سوال یہ ہے کہ آخراعلیٰ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے مسلم کمیونیٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے مسلم وکلاء،  اسلامی تعلیمات کے ماہرین ، جدید قانون کے رمز سناش نیز عالمی قوانین سے آراستہ لوگ ابھی تک کیوں نہیں تیار ہو سکے؟
ابھی تک ہم نے کتنے لاء کالج قائم کئے؟آخر جمعیت علمائے ہند  اور اس جیسی دیگر مسلم تنظیمیں ہی  صرف کیوں جیل کی سلاخوں میں محصور معصوم نوجوانوں کی رہائی کی خاطر عدالت میں مقدمات لڑرہی ہیں؟ آخر مسلمان اپنے مقدمات  کو صحیح طریقے سے لڑنے کے لیے غیرمسلم و کیل کو کیوں اجرت پر لینے پر مجبور ہیں ؟ ایک ڈاکٹر ظفر محمودجب ہمیں ہر سال درجنوں "یو پی ایس سی"  میں کامیاب امیدوار دے سکتے ہیں جو کہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے؛توسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات بد لنے کے لئے مزید ظفر محمود ہمارے صف میں کیوں پیدا نہیں ہو رہے ہیں؟
آخر ہم ابھی تک  بہترین صحافیوں کی  ایک جماعت کیوں پیدا نہیں کرسکے؟  آخر ہندوستانی مسلمانوں کا ابھی تک اپنا  کوئی  ایک بھی مین اسٹریم میڈیا ہاؤس کیوں قائم نہیں ہوسکا؟ ہماری نمائندگی پولیس اور افواج میں  بالکل معمولی  ہے،کیا ہم نے اس سلسلے میں اب تک کوئی مضبوط قدم اٹھایاہے؟ یونیورسٹی اور اسکول میں تدریسی خدمات انجام دینے والے اساتذہ کرام  نے کیا کبھی  اپنے درسگاہوں میں   مذکورہ مسائل پر لب کشائی کی ہے؟ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے کی ہوگی  لیکن اکثر لوگ اس سے غافل ہیں۔کیا ہم نے کبھی علماء اور دینی تنظیم کے زیر نگرانی  چل رہے مدارس ، اسکول اور  کالجز  نیز  علمائے کرام  پر الزام تراشی  کر نے والے حضرات کے تحت چل رہے اداروں کو شمار کیا یا ان کا جائزہ لیا ہے؟
   یہ ایک ناقابل انکار  حقیقت ہے کہ علماء کرام نے دینی تعلیم کو فروغ دینے  کےلئے ملک کے ہر گوشے میں مدارس اور مکاتب  کا جال بچھایا ہے؛ تو آخرجدید تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کے لیے اسکول اور کالج اسی تعداد میں کیوں قائم نہیں کئے؟
ہند اور بیرون ہند اعلیٰ عہدوں پر فائز بڑی بڑی تنخواہ پانے والے جدید تعلیم یافتہ   حضرات مسلم برادری کے لیے سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی کے لیے کیا خدمات انجام دے رہے ہیں؟ خود اپنی ذات سے ایمانداری سے پوچھیں کیا ہم  بانیان ِعلی گڑھ اور اور جامعہ ملیہ وغیرہ کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرپائے ؟  اس کا انکار نہیں کہ کچھ حضرات نے یقیناً کو شش کی  ہے اور اب بھی  ان  کی محنت جاری ہے لیکن ان کی تعداد فرضِ کفایہ کے درجے کو بھی نہیں پہونچتی؛پھر کیسے اسی پراکتفا کرلینا  دانشمندی ہوگی؟
  شمالی ہند کے مسلمان  اپنے موجودہ ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جنوبی ہند کے مسلمانوں کے طرز پر ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ  ہے جنوبی ہند کے علماء اور غیر علماء کے درمیان کسی طرح  کی کوئی معمولی خلیج  بھی نظر نہیں آتی؟
میرے خیال میں مذکورہ بالا سوالات  کچھ احباب کے پیشانی پر بل ضرور لائیں گےلیکن حقائق سے چشم پوشی کسی بھی درجے میں مناسب نہیں ہے۔ اس لئے میں نے ان سوالات کو منظر عام پر لانے کی جسارت کی ہے تاکہ  خود اور  پھر آپ حضرات کو اس سلسلے میں غور وفکر  کی دعوت دے سکوں۔
یقیناً یہ پر آشوب  دور مسلما نوں کی آپسی چپقلش اور الزام تراشی کا نہیں بلکہ برادرانِ وطن کے ساتھ یک جٹ ہوکر  ملک کو تباہی سے بچانے اور بطورِ مسلم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کا ہے۔
(بصیرت فیچرس)
*مضمون نگار مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ (انگریزی مجلہ) کے ایڈیٹر ہیں۔