Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 19, 2019

ہجومی تشدد اور ہماری ” خود کشی “


* بقلم :پروفیسر محسن عثمانی ندوی./ صداٸے وقت۔
=========================
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد 
یکم اپریل۷۱۰۲ میں راجستھان میں الور کے مقام پر جب پہلو خان کو گو کشی کے الزام میں لاٹھی اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر ماراگیا اور مارنے والوں کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی تھیں وہاں بی جے پی کی حکومت نے ۹مارنے والوں کو گرفتار بھی کرلیا تھا ان پر مقدمہ چلا یا گیا اور پھر ان کو شبہ کی بنیا د پرچند روز قبل رہاکردیا گیا حالانکہ ان ملزموں میں و ہ بھی تھے جنہوں نے پہلو خاں کوزدووکوب کرنے کا کھل کر اعتراف کیا تھا ’’ ان ڈی ٹی وی‘‘ والوں نے اپنی شناخت چھپاکر اور کٹر ہندو بن کر حملہ آوروں سے انٹر ویو بھی لئے تھے جس میں قتل کرنے والوں نے اپنے کارنامے لہک لہک کر بیان کئے تھے اور جوئے خوں بہانے کا اعتراف بصد فخر وغرور کیا تھامقامی عدالت نے سب کو بری کردیا ۔ اب حالات ایسے ہوتے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کے جتنے قاتل ہوں گے وہ سب عدالتوں میں معصوم ثابت ہوں گے ،ان کو بری کرنے کے لئے جھوٹے بہانے تلاش کئے جائیں گے اوران کوخون کے دھبے چھپانے کے لئے دستانے پہنائے جائیں گے ۔ اور جتنے مقتول ہوں گے ان کو صف قاتل میں رکھا جائے گا ۔ آخریہ کیسی عدالت ہے جو نہ ویڈیو کے فراہم کردہ ثبوت کو مانتی ہے اور نہ مقتول کے مرنے سے پہلے آٓخری بیان کو، عدالت کے اس فیصلہ کے بعد قاتلوں کی گلپوشی کی گئی ۔ اب گوڈسے کے وارثین کے دور حکومت میں یہی ہوگا ۔ بقول شا عر 
وہی قاتل وہی منصف وہی حامی ہے مرا 
اقربا میرے کریں خوں کا دعوی 
کس پر 

ہمارے ملک میں مسلمانوں کا حال اورمستقبل بے حد پریشان کن، مایوس کن ہے ،وہ قانون اور وہ دستور جس کے حوالہ سے ہم بات کرتے تھے اور اپناحق مانگتے تھے تبدیل ہونے والا ہے ۔ ہم نے اپنے ایک مضمون میں موجودہ حالات کا تجزیہ کیا ہے اور ان غلطیوں کی نشان دہی کی ہے جو ہم نے تاریخ میں کر ڈالی ہے ۔ اب حالیہ تارخ میں تین طلاق کے سلسلہ میں بھی سپریم کورٹ سے لے کر پارلیمنٹ تک ہماری شکست ہماری نادانی اور بے بصیرتی کا نتیجہ ہے اور اس بات کا شاخسانہ ہے کہ ہماری مذہبی قیادت مسلک کے خول میں بند ہے ۔ سعودی عرب متحدہ امارت کویت الجزائر مصر قطر اور دوسرے ملکوں میں اگر تین طلاق ایک طلاق مانی جاتی ہے اگر تین کو ایک ماننے والوں میں یوسف القرضاوی سے لے کر دیگر علماء موجود ہیں جو دلیلوں کی بنیاد پر تین طلاق کو ایک طلاق مانتے ہیں تو مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت اگرحالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اہل حدیث اور دوسرے علماء کے قول پر عمل کرلیتی تو کیا حرج تھا ۔ سب سے زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ اس بارے میں بورڈ کوئی موقف ہی اختیار نہیں کرتاکیونکہ بور ڈ کے دائرہ میں ہر مسلک کے لوگ شریک ہیں ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی شخصیت ایسی تھی جو مسلکی خول سے بلند ہوکر سوچتے تھے وہ اگر موجود ہوتے تو مسلمانوں کی ایسی رسوائی نہیں ہوتی جوآزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی ۔ قدیم مدارس کے نصاب کے معاملہ میں جس طرح ندوۃ العلماء نے اصلاح نصاب کا علم بلند کیا تھا اور اتنی طاقت کے ساتھ بلند کیا تھا اب اسے جو نہ مانے اسے لوگ فاتر اعقل سمجھتے ہیں ای طرح قدیم مدارس کے مفتیان شریعت کی مسلک پرستی کے خلاف کھڑے ہونے کے لئے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کی جیسی بیدار مغز شخصیت کی ضرورت تھی لیکن افسوس ’’ آن قدح بشکست وآں ساقی نمند‘‘ موجودہ قیادت کو اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ اپنے صدر مولاناغ محمد رابع حسنی کے پاس اپنا استعفے پیش کرنا چاہئے اور بورڈ کی تشکیل جدید ہونی چاہئے کیونکہ پرسنل لا کا معاملہ ہجومی تشدد سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ موجودہ قیادت ،مذہبی قیادت نہیں مسلکی قیادت ہے جسے نہ حالات کی نزاکت کا خیال ہے نہ انجام کی فکر ۔ یہ خود کشی کے لئے آمادہ ہے یہ مسلک کی جیت کی فکر میں پوری ملت کو اندھے کنویں میں گرانے کےلئے تیار ہے ۔ ہر مسلمان دیکھ رہا ہے بساط زندگی میں اب اس کا ہر مہرہ مات ہور ہا ہے ۔ اقبال کا شعر یہاں پورے طور پر صادق آتا ہے 
نہ جانے کتنے سفینے ڈبوچکی اب تک 
فقیہ وصوفی وملا کی نا خوش اندیشی 
اقبال نے یہ بھی کہا تھا کہ’’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم ۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب‘‘ ۔ ہ میں اپنی غلطیوں کو جاننا چاہئے ہ میں مسئلہ کے حل تک پہونچنے کے لئے اور راہ نجات ڈھونڈھنے کے لئے اپنا احتساب کرنا چاہئے ۔ ذرا سوچئے مسلمانوں کو قرآن مجید میں خیر امت کہا گیا ہے لیکن یہ تمغہ امتیاز یوں ہی بے مقصد اور بے سبب نہیں دیا گیا ہے بلکہ اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ’’ناس ‘‘سے یعنی ;200;دم کے کنبہ سے ،یعنی بنی نوع انسان سے رابطہ استوار کریں ( اخرجت للناس ) یعنی خیر امت پر یعنی مسلمانوں پر اولاد آدم سے رابطہ استوار کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے ، صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ غیر مسلموں سے بھی کیونکہ وہ بھی ’’ناس ‘‘ کے مفہوم میں داخل ہیں ، اس لئے ان سے بھی مانوس ہونے کی اور ان کو خود سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر مسلمان اپنی اس ڈیوٹی کو ادا نہ کریں تو وہ خیر امت کے تمغہ کے حق دار نہیں ہیں چاہے وہ رات دن مسلمانوں سے ملتے ہوں اور ان ہی کے درمیان گشت کرتے ہوں اور صرف ان ہی پر مشتمل اجتماعات منعقد کرتے ہوں اور ان ہی کے درمیان اپنی پر جوش خطابت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اب یہ سارے کام چاہے دین کے اور اصلاح معاشرہ کے کام ہوں اور ان سے ثواب کی توقع ہو لیکن خیر امت کے گولڈ میڈل کے مستحق مسلمان صرف اسی صورت میں ہوں گے جب وہ غیر مسلموں سے بھی رابطہ قائم کریں گے اور ان سے بھی ڈائلاگ کریں گے اور ان کی اصلاح و ہدایت کی بھی فکر کریں گے ۔ انہیں بھی معروف کا حکم دیں گے اور انہیں بھی منکر سے روکیں گے ( کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر )قرآن کی آیت میں مسلمانوں کو خیر امت کہا گیا ہے کیونکہ وہ تمام انسانی گروہ کےلئے نکالے گئے ہیں اور وہ خیر پھیلاتی ہیں اور سب کو شر سے روکتے ہیں ۔ ہمارے دوسروں سے شکایت بجا ہے ۔ بلا شبہہ دلوں میں بہت سے غم ہیں ، سینہ پربہت سے زخم ہیں جو بتان آذری کے پجاریوں کے نام ہیں لیکن ہم نے بھی اپنا فرض جو بتان آذری کے پجاریوں سے رابطہ استوار کرنے کا تھا اور دین ابراہیمی کے پھیلانے کا تھاَ وہ ادا نہیں کیا ہے ۔ اس لئے غلطیاں ہمارے نام کی بھی ہیں ۔ ہم بھی بے قصور نہیں ہیں ۔ پوری ملت کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ اپنے خول میں بند ہوکر کام کرتی ہے ۔ ہماری ساری رسوائیاں ساری ناکامیاں اسی وجہ سے ہیں ۔ 
قرآن کے بیان کردہ مذکورہ معیار پر مسلمانوں اور مسلم جماعتوں کی کار کردگی کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے ،کیونکہ صرف وہی گروہ خیر امت کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جو ’’ اخرجت للناس ‘‘ کو اپنا شعار بناتا ہے ، صرف مسلمانوں سے نہیں غیر مسلموں سے بھی اپنا رابطہ قائم کرتا ہے ۔ ’’پیام انسانیت ‘‘کی تحریک اور غیر مسلموں میں کام کرنے والی تنظیمیں ہی ( جو بے حد کم ہیں ) اس معیار پر پوری اترسکتی ہیں اور’’ خیر امت‘‘ کا مصداق ٹھہرتی ہیں ۔ صدیوں سے مسلمانوں نے غیر مسلموں سے ملنا اور ان کے درمیان نیکی کا پیام پہونچانا چھوڑدیا ہے اور اپنے خول میں بند ہوگئے ہیں اور اس کے جو نقصانات ملک کے اندر سامنے آئے ہیں وہ اس سے ملتے جلتے ہیں جو اسپین میں سامنے آئے تھے ۔ اسپین میں بھی ہجومی تشدد سے ملتے جلتے واقعات پیش آئے تھے وہاں بھی احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوگیا تھا ۔ آج اور اس وقت مسلمانوں کے قائدین غیر مسلوں سے رابطہ کا کام نہیں کرہے ہیں ، مسلمانوں کی تنظی میں یہ کام انجام نہیں دے رہی ہیں ۔ عام مسلمان زیادہ تر صرف اپنے خول میں بند ہیں ،غیر مسلموں سے ان کے تعلقات نہیں ہیں ۔ ایک بیگانگی، ایک اجنبیت کی دیوار حائل ہے ، ایک شہر ایک محلہ میں رہنے کے باوجود اور ہمسایہ ہونے کے باوجود نہ بات نہ ملاقات نہ ملنساری نہ دلداری نہ رفاقتیں نہ قربتیں نہ ہم طعامی نہ شیریں کلامی نہ ہم نشینی نہ ہم سخنی ۔ ہر مسلمان غیر مسلم سے الگ اور بیگانہ ۔ یہ انداز خیر امت کے اس فرد کا نہیں ہوسکتا ہے جسے ’’ ناس ‘‘ سے مانوس ہونے کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ 
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے بہت سے واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں ،ام المومنین حضرت صفیہ نے اپنا ایک مکان امیر معاویہ کے ہاتھ ایک لاکھ میں فروخت کیا ، امیر معاویہ نے وہ مکان ایک یہودی کو دے دیا یہ حسن سلوک کی ایک مثال ہے ۔ کتاب ’’جامع احکام القرآن‘‘ میں ہے کہ مسلمان یہودی اور نصرانی کے لئے وصیت کرسکتا ہے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ صلہ رحمی کے بہت سے واقعات ہیں ۔ کافر رشتہ داروں کے ساتھ سلوک اور صلہ رحمی بالکل درست ہے ۔ اور کافروں کو تحفے تحاءف دینا بھی درست ہے ،غیرمسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک درست ہے ۔ موجودہ حالات میں مسلم تنظیموں کے سربراہوں کو چاہئے کہ ہندو لیڈروں کو بلائیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کریں ،خاص طور پر کمزوروں کو وہ ہندوہوں یا مسلمان بے سہارا ہر گز نہ چھوڑیں ۔ چاہئے ۔ خدا کے نیک بندوں کا کردار قرآن میں مذکور ہے ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا ( الدہر ۸) ’’ یعنی وہ کھانا اس کی طلب کے باوجود کھلاتے ہیں یتیم کو اور مسکین کو اور قیدی کو‘‘ ۔ اس آیت میں قیدی کا بھی تذکرہ ہے یعنی مشرک قیدی کو کھانا کھلانا بھی اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے ۔ ابو عزیر بن عمیر جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے انہیں بعض انصار کے حوالہ کیا گیا، انصاری خود کھجور کھا کر رہ جاتے لیکن گرفتار شدہ غیر مسلم کواچھی روٹی کھلاتے تھے ۔ پڑوسی مسلم ہو چاہے غیر مسلم ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کا خاص حکم ہے حدیث میں ہے من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلا یؤذ جارہ ( ابو داود ، کتاب الادب) یعنی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہونچانی چاہئے ۔ اسی طرح غیرمسلموں پر خرچ کرنا بھی خدا کی راہ میں انفاق ہے ۔ انسانیت کی خیر خواہی اور مدد کے راستہ میں مسلک ومذہب کی دیوار حائل نہیں ہونی چاہئے یہی اسلام سکھاتا ہے اور مسلمانوں کو اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرنا چاہئے ۔ صرف اموال زکات غیرمسلموں پر خرچ نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔ غیر اموال زکوۃ کے سلسلہ میں اسلام نے غیر مسلموں پر خرچ کرنے کا شوق دلایا ہے ۔ غیر مسلم کا اکرام بھی ضروری ہے اور ان کومہمان بھی بنایا جاسکتا ہے ۔ وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت بھی درست ہے اور کار ثواب ہے ۔ اس کے جنازے کا بھی احترام کیا جائے گا اور جنازے میں شرکت کی جائے گی ۔ غیر مسلم کے گھر تعزیت کے لئے بھی جانا درست ہے ۔ کاروباری تعلقات سب کے ساتھ رکھے جاسکتے ہیں ،صلہ رحمی سب کے ساتھ کرنی چاہئے غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا بھی مباح ہے ۔ ان کی دعوتیں بھی کی جاسکتی ہیں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی دعوت کی ہے ۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں مسلم قائدین کو اور دینی جماعتوں کے رہنماوں کو غیر مسلم قائدین کی دعوت کرنی چاہئے او ر ان کو خود سے مانوس کرنا چاہئے ،اہل کتاب کے بارے میں تو آیت تک موجود ہے وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم وطعامکم حل لہم (المائدہ ۵) یعنی ان لوگوں کا کھانا جن کوکتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے ۔ غیر مسلم کو سلام کرنے کے بارے میں اختلاف ہے راقم سطور کے نزدیک ممانعت بعض مخصوص حالات کے لئے ہے ورنہ عام حالات میں سلام ایک دعا ہے اور دعا سب کو دی جاسکتی ہے ،تالیف قلب کے لئے اور خود سے اور اسلام سے غیر مسلم کو مانوس کرنے کے لئے سلام میں کوئی حرج نہیں ۔ یہی راجح قول ہے ۔ اس میں اصل یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں سے بر جنگ نہیں ہیں یا اسلامی مملکت کے شہری ہیں اور مخلوط معاشرہ میں رہتے ہیں ان کو سلام بھی درست ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جانا چاہئے ۔ مسجدوں میں غیر مسلم کا داخلہ درست ہے احناف کے نزدیک حدود حرم میں غیر مسلم صرف ایام حج میں نہیں جاسکتا ہے ۔ غیر ایام حج میں حدود حرم میں ان کا داخلہ ہوسکتا ہے ،احناف کے نزدیک مشرک کی نجاست اس کے عقیدہ میں ہے نہ کہ ظاہر میں ہے ۔ اگر اس وقت خادم الحرمین الشریفین کوئی حنفی ہوتا اور جزیرۃ العرب کی حکومت احناف کے ہاتھ میں ہوتی تو غیر مسلموں کو حج کے علاوہ دنوں میں حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت ہوتی ۔ 
غیر مسلم اشخاص میں ،برادران وطن کے ذہنوں میں ، بہت سی غلط فہمیاں ہیں ۔ سب سی بڑی غلط فہمی جہاد کے بارے میں ہے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اگر نہ معلوم ہوتو بتانے کی ضرورت ہے کہ قرن اول میں مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان تمام جنگیں مدینہ کے قریب پیش آئی ہیں یہ خود ثبوت اس بات کا ہے کہ مکہ کے مشرکین مدینہ پر حملہ آور ہوتے تھے ۔ انہوں نے مکہ میں بھی مسلمانوں کو ستایا اور مدینہ میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، مسلمانوں کو اپنادفاع کرنا پڑا سرزمین عرب سے باہر جو ملک تھے انہیں اہل اسلام کی نوخیز سلطنت ایک آنکھ نہیں بھا تی تھی وہ ہمیشہ جنگی تیاریوں میں مصروف رہا کرتے تھے مسلمانوں کو ان سے بھی اپنا دفاع کرنا پڑا ۔ اور جنگ جب ایک بار شروع ہوجاتی ہے تو جلدی رکتی نہیں ہے اور پھر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون حملہ آور ہے اور کون اپنا دفاع کر رہاہے ۔ اسلامی حکومت میں غیرمسلم ر عایا کو ذمی کہا جاتا ہے اسلام نے غیر مسلم رعایا کو وہ تمام حقوق دئے ہیں جس کے وہ از راہ انصاف مستحق ہیں ،انہیں مکمل مذہبی آزادی عطا کی ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے عہد حکمرانی میں عدل وانصاف کا نمونہ پیش کیا ہے ان موضوعات پر کتابیں لکھی گئی ہیں دار المنفین کی لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں ۔ ان کتابوں کے مقامی زبانوں میں ترجمے کی ضرورت ہے اور ان مترجم کتابوں کو برادران وطن تک پہونچانے اور خاص طور پر ان کے اہل دانش اور اہل فکر تک پہونچانے کی ضرورت ہے ۔ افسوس ہے کہ ہم نے اس ملک میں یہ سارے ضروری کام انجام نہیں دئے ، ہم نے ایسے مدارس قائم نہیں کئے جہاں لسان قوم میں خطاب کرنے والے علماء تیار ہوں ، ہم صرف لسان المسلمین میں خطاب کرنے والے علماء تیار کرتے رہے ہیں ، ہم نے اپنے نصاب تعلیم میں برادران وطن کی تہذیب اور مذہب سے تعارف کروانے والی کتابوں کو جگہ نہیں دی ۔ اور حالات کی نزاکت کے بعد بھی مدارس کے ذمہ داروں کو اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں ہے ۔ ہ میں نئے انداز کے دار العلوم دیوبند اور نئے انداز کے ندوۃ العلماء کی ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس ایسی بہت بڑی علماء کی ٹیم ہونی چاہئے تھی جو انگر یزی زبان سے ،ہندی زبان سے اور برادران وطن کی دیگر زبانوں سے واقف ہو جو اسلام پر اعتراضات کا جواب دے سکے اور سب کو مطمئن کرسکے ۔ ہمارے پاس ہر میدان کار میں ایسے قابل افراد ہونے چاہیں جو اپنے دائرہ میں غیر مسلم افراد سے رابطہ قائم کریں ، مسلم ایشوز پر سمپوزیم کریں ، غیر مسلموں کو بلائیں ان کے خیالات کو سنیں ، ان کے اعتراضات سے واقف ہوں اور غیرمسلموں کے ذہن کو مطمئن کرسکیں ۔ یونیورسیٹی کے مسلم اساتذہ غیر مسلم اساتذہ سے ملیں اور تبادلہ خیال کریں ، تجارت اور صنعت سے وابستہ مسلمان اپنے حلقہ کے غیر مسلم بھائیوں سے ملاقاتیں کریں ان کی باتیں سنیں اور خوشگوار ماحول میں ان کے اعتراضات کا جواب دیں ۔ بحیثت مجموعی ڈائلاگ کا اور مذاکرہ اور مکالمہ کاسلسلہ شروع ہو ۔ دوریاں ختم ہوں ،میل جول، بات چیت ،گفتگو ،راہ ورسم کا ماحول ہو،مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں ،سیرت کے جلسوں میں غیر مسلم آئیں اور اسلام پر اور سیرت پر کتابوں کا مطالعہ کرکے، تقریریں کریں اور تقریریں سنیں ، مسلم تنظی میں غیر مسلم تنظیموں کے قائدین کو اپنے یہاں بلائیں ،مسجدوں میں اور مدرسوں میں اور مسلم تنظیموں کے دفتروں اور مسلم تعلیمی اداروں میں ان کی آمد ورفت شروع ہو اور وہ اسلام اور مسلمانوں سے مانوس ہوں ۔ مسلمان شریفانہ اخلاق کا برتاو کریں اور لسان قوم میں یعنی برادران وطن کی زبان میں بات کریں اور ان کو اسلام سے مانوس کریں ۔ اور ہندو قوم کے مذہب اور تہذیب وتاریخ کا ان کا مطالعہ گہرا ہو ۔ مختلف سماجی پلیٹ فارموں پر ان کا سب سے ملنا جلنا ہو ۔ یہ معلوم ہو کہ سب ایک ملک کے باشندے ہیں اور ایک دوسرے کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں ہے اور ان کے درمیان محبت الفت کے چرا غ روشن ہیں اور امن وامان ان سب کو عزیزہے ۔ اور باہمی خیر سگالی کے تعلقات کاماحول وہ ہو جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے :عسی اللہ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتم منہم مودۃ واللہ قدیر واللہ غفور رحیم (الممتحنۃ ۱۷)یعنی ’’قریب ہے کہ اللہ تعالی تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت پیدا کردے جن سے ابتک تم نے دشمنی کی ہے ، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور غفور رحیم ہے ۔ ‘‘ 
مودت اور اخوت دلداری اور غم خواری ، دوستی اور ہمدردی کا ماحول مطلوب ہے اور اس مطلوب کو حاصل کرنے کے لئے اپنے غیر مسلم پڑوسیوں سے ،شہر میں اپنے غیر مسلم بھائیوں سے رابطہ قائم کرنا اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا دینی کام ہے ۔ افسوس ہے کہ ہم نے ان کا موں کودینی کام نہیں سمجھا ہے ،جب تک ہم اپنے برادران وطن سے قریب نہیں ہوں گے ان کو اسلام کی تعلیمات سے آشنا نہیں بناسکتے ہیں سیرت طیبہ کا مطا لعہ کیجئے اگر مسلمان مکہ کے مشرکین سے واقف نہیں ہوتے ہم زبانی نہیں ہوتی ہم کلامی نہیں ہوتی، نبی اکرم کو اگر مشرکین مکہ صادق اور امین نہیں سمجھتے ،اگر صحابہ کرام کے حسن اخلاق کا نقش دلوں پر نہیں پڑ تا تو کیا اسلام پھیل سکتا تھا ;238; ۔ سیرت نگا ر لکھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں نے زیادہ اسلام قبول کیا کیونکہ اس صلح کی وجہ سے مشرکین مکہ کا مسلمانوں سے ملنا جلنا بہت بڑھ گیا تھا انہوں نے مسلمانوں کے اخلاق وعادات کو دیکھا انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں میں اسلام کی وجہ سے انقلابی تبدیلی آگئی ہے وہ اب بہترین اخلاق وکردار والے ہیں اس اعلی کردار نے مشر کین مکہ کواسلام سے قریب کیا اور اسلام قبول کرنے کی تعداد روز افزوں ہوتی گئی ۔ 
غیر مسلموں کو اپنا ہم نوا ، ہم خیال ، ہمدرد اوردوست اور رفیق اور مہربان بنانے کا ایک تیر بہدف نسخہ حدیث رسول ﷺ میں آیا ہے ۔ مسلمانوں کے بارے میں ملک میں یہ عام تاثر ہونا چاہئے کہ وہ بہت کار گذار مستعد اور ماہر فن اور باصلاحیت انسان ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا ان اللہ تعالی یحب رجلا اذا عمل عملا ان یتقنہ اور اسی مفہوم کی دوسری حدیث ہے ان اللہ تعالی یحب من العامل اذا عمل اں یحسن 
( بیہقی) یعنی اللہ تعالی اس کاریگر مزدور کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ کام کرتا ہے تو اس میں مہارت کا، پرفکشن کا ثبوت دیتا ہے ۔ اگر مسلمان اس حدیث پر عمل کریں اور ہر کام میں مہارت پختگی اور پرفکشن ان کی شناخت بن جائے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ تمام غیر مسلم صرف مسلمانوں کو ملازمت دیں گے 
لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے جمعہ کے خطبوں میں ان باتوں کی تبلیغ نہیں ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کی پہچھان اس کے برعکس اقبال کے اس مصرعہ کے مطابق ہوگئی ہے ’’ جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو ‘‘ 
ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ بڑے پیمانہ پر غیر مسلموں سے قریبی روابط پیدا کریں ان کو اسلام سے مانوس کریں تعلقات جب مضبوط تر ہوجائیں تو برادران وطن میں تعلیم یافتہ حضرات تک اسلام کےٍ تعارف کا لٹریچر پیش کریں ،مثال کے طور پر ایک ہندو اعلی تعلیم یافتہ شخص نے ’’کلکی اوتار ‘‘کے نام سے کتاب لکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کلکی اوتار جس کا تذکرہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں آتا ہے اور جن کی پیشین گوئی ہندووں کی مقدس کتابوں میں موجود ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اصل کتاب انگریزی میں ہے لیکن اس کے ہندی اور تمام علاقائی زبانوں میں ترجمے کی ضرورت ہے اور ہندووں کے تمام اہل فکر وبصیرت تک کتاب کو پہونچانے کی ضرورت ہے، قرآن کے ترجمے اور خاص طور پر سیرت نبوی پر ہندی اورمختلف زبانوں میں کتابیں موجود ہیں ، حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی کتاب ’’رہبر انسانیت ‘‘کا انگریزی اور ہندی ترجمہ ہو چکاہے یہ کتاب بعض غیر مسلم حلقوں تک پہونچی ہے اور پسند کی گئی ہے اور نشریات اسلام ندوۃ العلماء سے شاءع ہوئی ہے ، یہ کتاب سیرت کے موضوع پر تعلیم یافتہ غیر مسلموں کو دینے کے لئے بہتر کتاب ہے، اسلام کے تعارف پر انگریزی میں ایک کتاب مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ہے ۔ کم عمر لوگوں کے لئے خاص طور پر مولانا علی میاں کی کتاب پیغمبروں کے قصے ( قصص النبیین کا انگریزی ترجمہ ) پڑھنے کے لئے دیا جاسکتا ہے یہ کتابیں نشریات اسلام ندوۃ العلماء سے مل سکتی ہیں ۔ مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’’بناو اور بگاڑ ‘‘ اور ’’ زندگی بعد موت‘‘ انگریزی اور ہندی میں موجود ہے رسالہ دینیات کا ترجمہ بھی ہندی اور انگریزی میں موجود ہے مولانا منظور نعمانی کی کتاب ’’ اسلام کیا ہے ‘‘ کا انگریزی اور ہندی ترجمہ موجود ہے ، اسلام پر اعتراضات کا مناسب جواب دیا گیا ہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور محمدزین العابدین منصوری کی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں ، موخر الذکر کی کتاب کا نام ہے’’ اسلام ۔ غلط فہمیوں اور اعتراضات کا ازالہ ‘‘ اور کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی نے شا اءع کی ہے ، اس سے پہلے یونیورسل پیس فاونڈیشن دہلی نے اس موضوع پر ایک کتاب ’’مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں ، وضاحتیں ‘‘ شاءع کی ہے ۔ یہاں کتابوں کا نام گنوانا مقصود نہیں ہے، مولانا وحید الدین خان کے کئی کتابچے بہت اچھے ہیں ۔ غیر مسلموں کو دینے کے لئے بہت اچھا لٹریچر تیار ہوچکا ہے ، اسلام کا پیغام پہونچانے کا جذبہ موجود ہے تو ہندی اور انگریزی اور دوسری زبانوں میں کتابوں کی کمی نہیں ہے، لوگ اپنے بجٹ کا ایک حصہ اس پر کیوں خرچ نہیں کرتے ہیں صرف ہجومی تشدد کے واقعات جب پیش آتے ہیں توگریہ کناں کیوں ہوتے ہیں وہ دن کب آئے گا جب مسلمانوں کو ان کا موں کا شعور پیدا ہوگا ;238; بے شعوری ،بے حسی کا خطرناک وائرس مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے ،عام غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا شکوہ نہیں تعلیم یافتہ لوگوں میں ، تعلیمی اداروں کے اساتذہ میں ، مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں میں ، علماء میں بے حسی کا مرض پھیل چکا ہے ، ان کے ذہن وضمیر پر فالج کا حملہ ہوچکا ہے، انہیں ملت کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ، ملت کے حوالہ سے کوئی جلسہ بلائے ،میٹینگ کرے تو اس میں یونیورسیٹیوں کے مسلم اساتذہ شریک نہیں ہوتے ہیں ۔ یونیورسیٹیوں کےٍ مسلم اساتذہ میں لے دے کے کوئی فکر ہے تو اپنی آمدنی کی ، تنخواہ کی ، معیار زندگی کی،گھر اور مکان کی ، گھریلو مسائل کی ، گھر بنانے کی ۔ سامان زیست کی خریداری کی ۔ ذاتی مسائل کے خول سے وہ باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ۔ مسلمانوں کا مستقبل اگر مخدوش ہورہا ہے تو ہوا کرے ، ملت کا سفینہ حیات اگر ڈوب رہا ہے تو ڈوبا کرے ۔ ۔ 
مسلمانوں کے جتنے مسائل اس ملک میں ہیں ان کو شمار کرلیجئے اور پھر ان کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی غیر مسلم اکثریت اب فرقہ واریت کا شکار ہوچکی ہے ۔ مسلمانوں سے نفرت کا زہر آبادی کی بہت بڑی تعداد کے اندر سرایت کرچکا ہے ۔ تحمل اور شائستگی کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے ۔ کسی مسلمان کو تنہا دیکھا اور بس اس پرحملہ آور ہوگئے ۔ اور اسے پیٹ پیٹ کر مارڈالا اور اس سے جے شری رام اور جے ہنومان کہلوانے کی کوشش کی ۔ ان حالات میں اصل کام تو فرقہ پرستی کو ختم کرنے اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی قول وعمل سے اشاعت کا ہے ۔ لیکن اگر کسی مسلمان پر ظالمانہ حملہ ہوجائے تو وہاں پر خاموشی کے ساتھ مار کھانے اور مرنے کے بجائے جس حد تک ممکن ہو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔ اللہ کا دین یہاں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ اگر ہجومی تشددکا خطرہ پیش آجائے اور کوئی مسلمان حملہ آوروں کے درمیان گھر جائے تو اسے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ایک مومن مرنے سے نہیں ڈرتا ہے اس وقت اس کی زبان پر تسبیح وتہلیل ہونی چاہئے اور اسے سمجھنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالی اسے شہادت کے مرتبہ پر سر افراز کرنے والا ہے اسے پہلے سے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ، اور وہ شخص جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے جو شخص اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے ۔ شہادت کا مرتبہ بہت اونچا ہے اس لئے شہید ہونے سے ہرگزگھبرانا نہیں چاہئے لیکن حدیث میں ہے کہ اپنی حفاظت کی کوشش ضروری ہے یعنی شہید وہ شخص ہوگا جو اپنی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کرلے ، یعنی حفاظت خود اختیاری کا طریقہ اختیار کرے ، جائز طریقہ سے قانونی حدود میں مقابلہ کرے قانونی حد کے اندرجو ہتھیار رکھ سکتاہو چاقو اور چھری وغیرہ اسے گھر سے باہر نکلتے وقتاگر خطرہ ہو اپنے ساتھ ضرور رکھے ،اپنی طرف سے جارحیت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے ۔ 
خود حفاظتی کے تمام طریقے ضروری سہی لیکن یہ کا م صرف ایک دفاعی ضرورت ہے ۔ اصل مثبت کام رابطہ عامہ کا کام ہے اور غیر مسلموں کو اسلام سے مانوس کرنے کا کام ہے اسلامی اخلاق کا نقش دلوں میں بٹھانے کا کام ہے اور یہی کام چونکہ بہت زمانہ سے ہماری تاریخ میں نہیں ہوا اس لئے مسلمانوں کے خلاف ذہن بنانے والے اور فرقہ وارانہ زہر دماغوں میں اور دلوں میں بھر نے والے کامیاب ہوگئے اور اسپین سے ملتی جلتی فضا ہندوستان میں بھی پیدا ہونے لگی ۔ مسلمانوں کے مسائل پر مسلمانوں کے سامنے تقریریں کرلینا مسئلہ کا حل نہیں ہے غیر مسلموں کے ساتھ رابطہ عام ;77;ass ;67;ontact کے بغیر اب اس مسموم فضا کو بدلا نہیں جاسکتا ۔ نیکی اور شرافت اور خدا ترسی بہت اچھی صفت ہے لیکن اسے متعدی بنانے اور اس سے برادران وطن کے دلوں کو جیتنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اتنے واضح احکام موجود ہیں جو ہماری زندگی کے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں ۔ قرآن میں حکم ہے کہ مخالفوں اور دشمنوں کی مخالفت اور دشمنی کا جواب اعلی درجہ کی نیکی اور حسن سلوک سے دو ادفع با لذی ہی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم‘‘ یعنی برائی کو دفع کرو اس نیکی سے جو احسن ہو پھر تم دیکھو گے کہ وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا ۔ 
للہ تعالی کا ارشاد ہے تعاونوا علی البر واللتقوی ( المائدہ ۲) یعنی نیکی اور شرافت اور تقوی کے کاموں میں سب کےٍ ساتھ تعاون کرو ۔ غیر مسلم بھی بہت سے رفاہ عام اور خدمت خلق کے کام کرتے ہیں ، مسلمانوں کی اس میں پرجوش اور پر خلوص شرکت ہونی چاہئے اور خود مسلمان بھی ایسے بہت سے کام غیر مسلموں کے ساتھ مل کر شروع کرسکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہئے، مسلمان کا مذہب اس کی ہمت افزائی کرتا ہے اور اس طرح کے کاموں سے باہمی تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے ،رفاہ عام کے لئے ،جس سے سب کو آرام ہو، صدقہ جاریہ کی ابتدا کرنا اجرو ثواب کی بات ہے ۔ بحیثت مجموعی مسلمانں کو ایسے تمام کام انجام دئیے ہیں جن کا اچھا اخلاقی اثر تمام لوگوں کے دل پر پڑے ۔ جیسے اسپتال بنانا اور مسافر خانے بنوانا ۔ 
اللہ تعالی کا فرمان ہے اَن اللہ یاَمرکم ان تؤدوا الامانات الی اہلہا ( النساء۸۵) ’’بیشک اللہ حکم دیتا ہے تم کو کہ پہنچادو امانتیں امانت والوں کو ‘‘ یعنی ہر مسلمان کو امانت دار ہونا چاہئے اگر ایک غیر مسلم کسی مسلمان کو اپنی دکان میں ،کمپنی میں ملازم رکھتا ہے تو کام کو صحیح ڈھنگ سے پورا پورا انجام دینا بھی امانت داری میں داخل ہے قرآن میں ہے ولا تطغوا فی المیزان واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان(الرحمن ۸ ۔ ۹) ’’ تم میزان میں خلل نہ ڈالو انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولواور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو ‘‘ آیت کا مطلب ہے کہ چونکہ دنیا کا نظام عدل پر قائم ہے اس لئے تمہیں بھی عدل پر قائم ہونا چاہئے انسان اجرت تو پوری لے تنخواہ کم نہ ہو لیکن اپنی ڈیوٹی ٹھیک سے ادا نہ کرے تو یہ اس آیت کی اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے ۔ اب اگر تمام مسلمان جو غیر مسلموں کے اداروں میں کام کرتے ہیں ان کو کام اور دام کا رشتہ معلوم ہوجائے اور قرآنی تعلیمات پر وہ عمل کرنے لگیں تو تمام غیر مسلم اپنی دکانوں اور کمپنیوں میں صرف مسلمانوں کو جگہ دینے لگیں گے اور مسلمانوں کو یہ شکایت نہیں رہے گی کہ ان کے ساتھ تعصب کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ غیر مسلموں کے دلوں پر یہ تاثر ہونا چاہئے کہ ایک مسلمان ملازم سب سے زیادہ مستعد محنتی اور کار گذار اورامانت دار ہوتا ہے کیونکہ ان کے پیغمبر نے انہیں یہ بتایا ہے کہ ( لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہ ) مسند احمد ۔ ’’ یعنی اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس کے اندر امانت داری نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس کے اندر وعدے کی پاس داری نہیں ۔ 
خلاصہ بیان یہ ہے کہ یہ اداسیوں کا موسم ہے مایوسیوں کی خزاں طاری ہے، کشتئی جان گرداب میں ہے ، آر اس اس کی ۸ لاکھ شاکھایں قائم ہیں ، ایک کروڑ کی فوج( سنچالک) ان کے پاس ہے اور ان کا نشانہ مسلما ن ہیں ۔ یہ خطرات ہیں لیکن ہمارے تمام مسائل کا حل ہمارے مذہب کے اندر موجود ہے، غیر مسلموں سے ملئے اور مل کر حسن اخلاق کے پھول کھلائے، خزاں کا موسم بہار کے موسم سے بدل جائے گا ۔ یہ سرخرو ہونے طریقہ ہے یہ کامیابی کی کلیدہے ۔ عام حالات میں مسلمان حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں ،لیکن اگر ان پر تلوار سے حملہ کرنے والے سامنے آجائیں تو وہ پوری شجاعت اور بہادری سے ان کا مقابلہ کریں اور مرنے کے خوف کو دل سے نکال دیں اور اپنی شہادت کا استقبال کریں ۔ ایسے حالات کے آنے سے پہلے حفاظت خود اختیاری کے تمام طریقے اختیار کریں کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے اسی میں مسائل کا حل ہے ۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق سے دست بردار نہیں ہونا ہے اور ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے لیکن ان مطالبات یا احتجاجات کا تعلق حکومت سے اور اہل کاران حکومت سے ہے عام حالات میں اور روزمرہ کی زندگی میں برادران وطن کے ساتھ ہ میں شریفانہ اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے اور انہیں اسلام سے مانوس کرنا ہے ۔ 
اب آخری بات یہ کہ گھر سے باہر گھوم پھر کر دیکھئے ،بام فلک سے حقیقت کی زمین پر اترئے، لوگوں سے ملئے جو اہل فکر ہوں گے( جو بہت کم خال خال ہوتے ہیں ) ان کی زبان پر اب ایک ہی سوال ہے کہ ہم موجودہ حالات میں کیا کریں ، ان کوکہئے کہ آپ سب لوگوں نے جن کو مذہبی قیادت کی کشتی کا ناخدا بنایا تھا انہوں نے آپ کو کشتی سے ڈھکیل دیا ہے اور اب یقین کیجئے کہ بہت بڑی مچھلی آپ کو نگل چکی ہے اور اس وقت اگرچہ آپ یہ مضمون ، یہ حرف ونقش یہ لفظ وعبارت پڑھ رہے ہیں لیکن سحقیقت یہ ہے کہ مچھلی کے پیٹ کے اندر پڑھ رہے ہیں ۔ اب آپ کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ آپ حضرت یونس علیہ السلام کا وظیفہ لا الہ انت سبحانک انی کنت من الظالمین اس وقت تک پڑھتے رہیں جب تک کہ اللہ تعالی کو آپ پر رحم نہ آجائے اور مچھلی آپ کو باہر اگل نہ دے ۔ مسلمان بے بسی بے کسی ،خوف اور مایوسی کے جس عالم میں گربہ مسکین کی طرح زندگی گذار رہے ہیں اس میں ان کو اسی طرح کا وظیفہ ہی بتایا جاسکتا ہے اور یہ نصیحت کی جاسکتی ہے کہ رات جب ہوجاتی ہے تو شکوۃ ظلمت شب کے بجائے صبح کے طلوع ہونے کا انتظار کرنا چاۃے ۔ لیکن اگر ہمت موجود ہے اور آپ واقعتاکچھ کرنا ہی چاہتے ہیں اور عمل کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ کے کرنے کے لئے ہماری اس تحریر میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ آپ ایسی صفات کے حامل بنیں جو دشمنوں کو دوست بناتی ہیں ،آہن کو موم کردیتی ہیں ،آگ کو گلزار کرتی ہیں اور زہر کو امرت سے بدل دیتی ہیں ۔ جس طرح پانی کا کام پیاس بجھانا ہے اور آگ کا کام جلانا ہے اسی طرح اخلاقی صفات کی بھی خاصیتیں ہوتی ہیں اور ان کے اثرات ہوتے ہیں ہماری تاریخ میں بعض صوفیہ کرام نے اخلاقی صفات کا ہتھیار استعمال کیا تھا ۔ آپ سے اگر ہو سکے تو اس تحریر کو اپنے حلقہ احباب تک پہونچائیے ۔ شاید کسی درجہ میں ہمارا نہال سخن بارآور ہو اور گوہر مقصد حاسل ہو ۔ اس مضمون میں جو کچھ ہے اسے فارسی شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے 
آسائش دو گیتی تفسیر ان دوحرف است 
با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا