Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 27, 2019

صحافت کے زریں اصولوں سے انحراف،سبب اضطراب !!!!

معتصم باللہ کی وال سے۔۔/صداٸے وقت۔
=========================
اس وقت عام خیال یہ ہے کہ صحافت اپنے زرّیں اصولوں سے انحراف کررہی ہے، یہ خیال صحیح بھی ہے اور سبب اضطراب بھی۔ صحافت کے علم برداروں مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا عبدالماجد دریابادی کی روحیں بھی عالم ارواح میں بے چین ہورہی ہوں گی کہ ہم صحافت کن ہاتھوں میں سونپ کر آئے تھے اور اب صحافت کا کیا حال ہے۔ یہ اضطرابی کیفیت یوں ہی نہیں پیدا ہوگئی ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ صحافت کی A B C
A = Accuracy
B = Brevity
C  = Clarity
سے ناواقف صحافیوں کی بھر مار آج ہمارے اور آپ کے سامنے روشن استعارہ کی طرح موجود ہے۔ مسائل چاہے گردوپیش کے ہوں، چاہے دوردراز کے اور چاہے روزمرہ کے ہر جگہ صرف جھوٹ ہی جھوٹ نظر آرہا ہے۔ صحافت کے زرّیں اصولوں کی پامالی موجودہ زمانے سے قبل شاید کسی آنکھ نے نہ دیکھی ہوگی اور نہ کسی دماغ نے اس جانب سوچا ہوگا۔ جب کہ خبر کے بنیادی اصولوں میں یہ اصول بہت اہم ہے کہ خبر ہر لحاظ سے درست ہو۔ صحافت کے بنیادی اصول یہ بتائے گئے ہیں کہ فلاح عامہ، عظمت آدم اور شرافت انسانی، تعلیمی، معلوماتی اور تفریحی مواد کو احتیاط سے شائع کیا جائے۔ ہر تعمیری کام اور تعمیری سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ صداقت، صحت معلومات، شائستگی اور وقار اور معاشرتی اقدار کا ہر طور پر لحاظ رکھا جائے۔ لیکن اگر موجودہ وقت کا صحافت کے ان زرّیں اصولوں سے موازنہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نہ صرف ان اصول و ضوابط سے انحراف کیا جارہا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسی خبریں عام کی جاتی ہیں جن سے ایک فریق کو نہ صرف سخت اذیت پہنچتی ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو بہت کمتر اور دوسرے درجے کے شہری کی طرح محسوس کرتا ہے۔ بسااوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جھوٹی خبریں ہواؤں کے دوش پر اس طرح گردش کرتی ہیں کہ پل بھر میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں اور ان پر ردعمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔
*** معروف دانشور جسٹس سید محمد کرم شاہ الازہری ضیاء القرآن جلد چہارم (سورہ نسا آیت 83کی تفسیر کے ذیل) 
میں لکھتے ہیں:
 
"ہر سوسائٹی میں ایسے شعلہ مزاج لوگ ہوتے ہیں، جن کا محبوب مشغلہ بے پر کی اڑانا اور غلط افواہیں پھیلانا ہوتا ہے۔ ایسی افواہیں خاندانوں، قبیلوں اور بسااوقات قوموں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی سختی سے ہدایت دی ہے کہ خبردار! اگر کوئی فاسق اور بدکار تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اس کو فوراً قبول نہ کیا کرو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ بک رہا ہو اور پھر تم ساری عمر فرط ندامت سے کف افسوس ملتے رہو"
واقعہ یہ ہے کہ یہ موجودہ صحافت خصوصاً الیکٹرانک اور سوشیل میڈیا نے صحافت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے، حالانکہ چند اس سے مبرا ضرور ہیں اور وہ آج بھی چراغ سے چراغ جلانے کے اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے صحافت کے زرّیں اصولوں کو کسی طرح بچائے ہوئے ہیں۔ وہ اس ضابطۂ اخلاق پر پوری طرح عمل پیرا ہیں کہ صحافی کو ہمیشہ اس کوشش میں لگارہنا چاہیے کہ ملک کے اتحاد و اتفاق اور اس کی سالمیت واستحکام کو کوئی زک نہ پہنچے۔
معلوم رہے کہ صحافت خدمت خلق کا ایسابہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے جہاں معاشرتی اقدار پروان چڑھیں، قوموں میں محبت و مودت پیدا ہو اور ملک و قوم دونوں ترقی کی جانب تیز رفتاری سے آگے بڑھیں۔
صحافت اور اس سے وابستہ افراد کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ یہ ایک مقدس پیشہ ہے۔ اس پیشہ کی حرمت کو ہر حال میں قائم رکھنا ضروری ہے۔ آج جو اس سے عفونت کے ابخارات اٹھ رہے ہیں ان سے اس کو صاف کرنا ہے اور صحافت کو انہی زرّیں اصولوں پر چلانا ہے جن پر اس کے آغاز میں اس کے پیش رو صحافیوں مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا عبدالماجد دریابادی وغیرہ نے چلایا ہے اور اس کی نہ صرف حفاظت کی تھی بلکہ اس کو اس طرح پروان چڑھایا تھا کہ صحافت جلد ہی ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرکے ہندوستان کے اقتدار پر مسلط برطانوی استعمار کو اکھاڑ پھینکا تھا۔
صحافی کا کام اگرچہ عرف میں صرف اطلاع دینا اور قوم کو باخبر رکھنا ہوتا ہے، لیکن وہ اس سے ایک مصلح کے طور پر بھی کام لیتا رہے اور  اپنے ان مناہج پر قائم رہنے کے لیے تگ دو کرتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ ایک آزاد اور بے باک صحافی کسی بھی معاشرے کے لیے ایک بڑی قوت اور طاقت ور ذریعہ ہوتا ہے، لیکن اسے اپنی طاقت و قوت کو قوموں کی ترقی اور اصلاحات کے لیے وقف کرنا چاہیے، صحافت کی روح کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں۔
*** معتصم باللہ علیگ
Disclaimer: This story is auto-aggregated by a computer program and has not been created by me.